جمہوریت کا کمال آمریت کے کھاتے میں

پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک حلقہ بڑے عرصے سے جمہوریت کے خلاف اور آمریت کی شان میں ایک مہم چلارہا ہے، جس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس مہم کے تحت پوسٹ کی جانے والی پوسٹوں میں ایک ایسی پوسٹ بھی شامل ہے، جس میں ایوب خان کی باور دی تصویر کے ساتھ وارسک ڈیم کے علاوہ پاکستان کے دو بڑے ڈیموں منگلاڈیم اور تربیلا ڈیم کا ذکر ہوتا ہے۔ جس کے نیچے ایک طنزیہ جملہ تحریر ہوتا ہے کہ ’’اس کے بعد جمہوریت آگئی‘‘۔ اس پوسٹ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جمہوریت کسی کام کی نہیں اور بڑے بڑے کام صرف آمریت ہی کرسکتی ہے۔ غلط بیانی پر مبنی اس پوسٹ سے جہاں رائے عامہ گمراہ ہوتی ہے، وہاں مسلح افواج کی تضحیک کا پہلو بھی اس لحاظ سے نکلتا ہے کہ نہ تو ڈیم بنانا ان کا کام ہے اور نہ ہی انہوں نے یہ کارنامے انجام دیئے ہیں۔ اس بارے میں حقائق یہ ہیں کہ وارسک ڈیم اور منگلا ڈیم کی منصوبہ بندی پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی شروع کردی گئی تھی۔ تربیلا ڈیم، انڈس واٹرٹریٹی کے تحت بنا، جس کے لئے ورلڈ بینک کی تجویز پر 1954ء ہی میں غوروخوض ہو چکا تھا۔ دریائے کابل پر وارسک ڈیم کی تعمیر کے لئے تحقیق کا کام 1948ء میں شروع ہوا۔ اس کا پی سی ون 1955ء میں تیار ہوا۔ لاگت کا تخمینہ 15کروڑ 60لاکھ روپے تھے۔ یہ رقم کولمبو پلان کے تحت کینیڈا کی حکومت نے فراہم کی اورڈیم بھی کینیڈا کے انجینئروں کی مدد سے ہی تعمیر ہوا۔
منگلا ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بھی 1950ء میں بنایا گیا تھا اور اس کی پراجیکٹ پلاننگ رپورٹ 1958ء میں مکمل ہو چکی تھی۔ بعد ازاں اس منصوبے کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے سمجھوتے انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پراجیکٹ سیشن میں شامل کرلیا گیا، جس کے مطابق منگلا ڈیم کی تعمیر 1962ء میں شروع ہوئی اور یہ 1967ء میں مکمل ہوا۔ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت جس کے وجود پانے میں 1954ء سے 1960ء تک چھ سال کا عرصہ لگا تھا۔ تربیلا ڈیم کی تعمیر کا کام 1968ء میں شروع ہوا، 1976ء میں مکمل ہوا۔ اس لحاظ سے ایوب خان کے دور میں صرف منگلا ڈیم تعمیر ہوا، جبکہ تربیلا ڈیم کا بیشتر حصہ بھٹو صاحب کے دور میں مکمل ہوا، لیکن دونوں ڈیموں کی تعمیر کے لئے تیاری ایوب خان کے حکومت میں آنے سے قبل ہی ہوچکی تھی۔ اس معاملے کو مزید سمجھنے کے لئے اگر انڈس واٹر ٹریٹی کا بھی ذکر ہو جائے، جس کے تحت دونوں ڈیم وجود میں آئے، تو بے جا نہ ہوگا۔
1960ء میں طے پانے والے انڈس واٹر ٹریٹی کی کڑیاں اس تنازعے سے جاملتی ہیں جو قیام پاکستان کے فوراً بعد پانی کی تقسیم کے مسئلے پر ہندوستان کے ساتھ اس لئے شروع ہوگیا تھا کہ وہ تمام ہیڈورکس، جن کے ذریعے پاکستان کی نہروں میں پانی آتا تھا، ہندوستان میں تھے، ہندوستان نے 1948ء میں ہی پانی روکنا شروع کردیا تھا، جس کے نتیجے میں کشیدگی کے بعد ہونے والے مذاکرات میں مئی 1948ء میں ایک سمجھوتہ طے پایا، جس کے تحت پاکستان نے سالانہ رقم کی ادائیگی کے ذریعے ہندوستان سے پانی خریدنا شروع کردیا۔ یہ مسئلے کا ایک عارضی حل تھا، چنانچہ مستقل حل کے لئے کوششیں جاری رہیں، جس کا سہرا اتفاق سے امریکہ کی ٹینیسی ویلی اتھارٹی کے سابق سربراہ ڈیوڈ لیلی اینتھل کے سربندھا تھا، جو امریکہ کے ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ بھی رہ چکے تھے۔
انہوں نے ایک مضمون لکھنے کے لئے تحقیق کے سلسلے میں برصغیر کے اس علاقے کا دورہ کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے تجویز دی ہندوستان اور پاکستان دریائے سندھ کے نظام کو مشترکہ طور پر چلانے کا کوئی نہ کوئی طریق کار وضع کرلیں۔ جس کے لئے ورلڈ بینک سے مشاورت اور ضرورت پڑنے پر رقم بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ دونوں ملکوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ورلڈ بینک کے اس وقت کے چیئرمین یوجین بلیک نے بھی رضا مندی ظاہر کردی، چنانچہ تجویز پر عمل درآمد کے امکانات تلاش کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے انجینئروں کا ایک ورکنگ گروپ بنایا گیا، جس کی راہنمائی کے لئے ورلڈ بینک کے انجینئر بھی موجود تھے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر 1954ء تک کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تو ورلڈ بینک نے اس تعطل کے خاتمے کے لئے ایک حل پیش کیا، جس پر چھ سال تک غور و خوض کے بعد سمجھوتہ طے پایا، جس پر 1960ء میں دستخط ہوئے۔
اس وقت تک ایوب خان کواقتدار سنبھالے چند ماہ ہی ہوئے تھے، سمجھوتے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو دے دیا گیا اور مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس کا پانی ہندوستان کو دے دیا گیا۔ سمجھوتے میں دریاؤں پر ڈیم بنانے، نہریں نکالنے، بیراج بنانے اور ٹیوب ویل لگانے کی گنجائش بھی رکھی گئی تھی، جن میں دریائے جہلم پر منگلا ڈیم اور دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم قابل ذکر ہیں۔ اس سمجھوتے سے پاکستان کو ہندوستان سے اتنی ہی مقدار میں پانی حاصل کرنے میں مدد ملی، جو وہ اس سے قبل حاصل کر رہا تھا۔انڈس واٹر ٹریٹی 1958ء سے قبل جمہوری دور میں حاصل کی جانے والی بہت بڑی کامیابی تھی، جسے دنیا بھر میں آج بھی سراہا جاتا ہے۔ اس کا یا اس کے تحت تعمیر ہونے والے ڈیموں کا کریڈٹ ایوب خان یا بھٹو صاحب کو،جن جس کے دور میں یہ منصوبے مکمل ہوئے دینا حقائق سے رو گردانی ہوگی، جس کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔