افغانستان میں امن کے لیے کھلتی ہوئی نئی راہیں
افغان عوام گزشتہ 19 سال سے امن کا خواب دیکھ رہے ہیں۔کیونکہ افغان تنازعہ کا فوجی حل نہیں بلکہ سیاسی حل آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ افغانستان میں امن مذاکرات پاکستان کی وجہ سے ممکن ہوئے لہذا امن عمل میں پاکستان کے اہم کردار سے کوئی انکار نہیں۔خوشی ہے عالمی برادری نے پاکستان کا مؤقف تسلیم کیا اوردنیا نے افغان امن عمل کو آسان بنانے میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ امن کی کوششوں کیلئے امریکہ طالبان امن معاہدہ اہم قدم تھا۔
آج کل چیئرمین افغان قومی مفاہمتی کونسل ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پاکستان کے دورے پر ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے کہا ہے کہ افغان سرزمین ہمسایہ ممالک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں۔ ان کے عوام کے درمیان بہترین تعلقات کا خواہاں ہوں۔ افغانستان میں امن سے پاکستان میں امن ہوگا۔ ہمیں آگے بڑھ کر تجارت، کاروبار اور عوامی رابطوں کو فروغ دینا ہوگا۔ معیشت کی بہتری کے لئے دونوں ممالک میں آزادانہ تجارت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ دونوں ممالک کو ایک ہی وقت میں کرونا، معیشت، دہشت گردی اور مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کار امن کوششوں میں مصروف ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی فوج انتخابات سے پہلے واپس بلانے کی جلدی ہے۔ دوحہ میں کی جانے والی ان کوششوں میں اسلام آباد کا کردار بہت اہم ہے جس نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک مضمون میں، جو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا، اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان افغان امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا اور یہ کہ فریقین کو اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور صبر و استقامت سے ان مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہئے۔
گو کہ پاکستان اور افغانستان میں ماضی میں کئی تلخیاں رہی ہیں۔ اسلام آباد کے تعلقات شمالی اتحاد اور عبداللہ عبداللہ سے خوشگوار نہیں رہے۔ انہیں پاکستان میں ایک بھارت نواز افغان رہنما سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے اس دورے سے اب پاکستان میں کئی لوگ امیدیں لگا رہے ہیں کہ جنگ زدہ ملک میں امن کی راہیں کھلیں گی۔افغانستان پر امریکی حملے کے بعد شمالی اتحاد کے لوگ اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہوئے جس سے کابل اور اسلام آباد میں مزید تناؤ پیدا ہوا کیونکہ ان افراد کے نئی دہلی سے قریبی مراسم تھے۔ تاریخی طور پر عبداللہ عبداللہ اور شمالی اتحاد کے افراد نئی دہلی کے قریب رہے ہیں اور اسی وجہ سے بھارت سے دو ہزار گیارہ میں کابل کا ایک اسٹریٹجک پارٹنر شپ معاہدہ ہوا۔ بھارت نے ان کو یقین دلایا تھا کہ طالبان کو جنگ کے ذریعے کچلا جا سکتا ہے کیونکہ امریکا کا بھی یہ ہی خیال تھا کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے شمالی اتحاد کے لوگوں نے جنگ کے ذریعے طالبان کو ختم کرنے کی کوشش کی جس میں مکمل ناکام ہوا۔ پاکستان کا موقف یہ تھا کہ مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈا جائے اور طالبان کو ایک حقیقت تسلیم کیا جائے۔ آج امریکا بھی طالبان کو ایک حقیقت تسلیم کرتا ہے اور عبداللہ عبداللہ سمیت افغانستان میں دوسرے اسٹیک ہولڈرز بھی انہیں ایک حقیقت تسلیم کر تے ہیں۔
یہ دورہ 'تاریخی تلخیاں‘ ختم کرنے میں معاون ہو گا۔ تلخیاں کم ہونے سے افغانستان میں امن کے امکانات روشن ہوں گے۔ اسلام آباد طالبان اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان پْل کا کام کر سکتا ہے۔ اسی لئے عبداللہ عبداللہ یہاں آئے ہیں، جو ان کے دورے کے مقاصد میں سے ایک ہے۔افغان امن عمل میں بھارت اور چند افغان عہدیدار اب بھی رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں لیکن پاکستان دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کا خواہاں ہے کیونکہ اسلام آباد افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت چاہتا ہے۔
عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان مفاہمتی عمل میں سہولت کاری کرکے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ممالک نے دہشتگرد گروہوں کا سامنا کرتے ہوئے بھاری قیمت ادا کی ہے جو اب بھی بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر کے طور پر فعال ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان افغانستان کا سرپرست نہیں دوست بننا چاہتا ہے۔ اگر ہمیں امن کے ساتھ رہ کر مشترکہ مستقبل تعمیر کرنا ہے تو یہ اس بات کی پہچان کا نیا احساس ہے۔ پاکستان کا افغان عوام کیلئے واضح پیغام ہے کہ ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں اور نہ ہم آپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم افغانستان کی خود مختاری‘ سلامتی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف افغان ہی کر سکتے ہیں۔ افغان مالیتی اور افغان قیادت میں مفاہمتی عمل کے ذریعے ہی افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے اس کیلئے افغانستان کے سیاسی حقائق اور جہتوں کو سمجھنا ہوگا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ منصوبہ بندی کی جائے کہ جنگ کے بعد کے افغانستان کو پائیدار امن منتقل کرنے کیلئے دنیا کیا مدد کر سکتی ہے۔ افغان امن عمل کے تمام کرداروں کو خرابیاں دور کرنے کیلئے عمل دخل بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ افغان امن مذاکرات میں زبردستی نہیں ہونی چاہئے تاہم تمام فریق کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کریں۔ امید ہے کہ افغان حکومت اپنی حدود میں قائم غیر منظم ٹھکانوں کو بھی کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات کریگی۔ پاکستان اور دیگر ملکوں میں پناہ گزیں لاکھوں افغانوں کی وطن واپسی کیلئے ماحول کو کس طرح سازگار بنایا جا سکتا ہے کیونکہ افغانستان کے علاوہ پاکستان سے بڑھ کر کسی نے افغان جنگ کی قیمت ادا نہیں کی اس لیے ضروری ہے کہ دوحہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے تمام فریق اپنا کلیدی کردار ادا کریں طالبان نے بھی اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔