ابھرتے ہوئے معاشی رجحانات
ہمارے پاس مالی سال کے پہلے دو ماہ کے مکمل اعدادوشمار آچکے ہیں۔اخراجات، ٹیکس کی وصولی،بڑی مصنوعات سازی، ادائیگیوں کے توازن اور بیرونی سرمایہ کاری کے ملے جلے رجحانات دکھائی دے رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم ان اعدادوشمار کا تجزیہ کریں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اقتصادی پالیسی کا مرکزی ہدف استحکام ہے، خاص طور پر جب سیلاب کی وجہ سے معاشی نمو سست ہوچکی ہے۔
سب سے اہم معلومات جولائی اور اگست کی ادائیگیوں کے توازن کے مواد سے ملتی ہیں۔ برآمدات میں گزشتہ سال ان ماہ کے دوران ہونے والی برآمدات کے مقابلے میں 11.4 فیصد صحت مندانہ اضافہ ہوا، لیکن جو چیز چونکا دینے والی ہے، وہ اگست میں ہونے والی برآمدات ہیں جو جولائی کی برآمدات 2,280 ملین ڈالر کے مقابلے میں 2,813 ملین ڈالر تھیں۔ گویا ان میں 23 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ عالمی معیشت میں کساد بازاری کو دیکھتے ہوئے بلاشبہ یہ قابل تحسین کارکردگی ہے۔ خدشہ تھا کہ عالمی اقتصادی حالات ہماری برآمدات پر برے اثرات مرتب کریں گے۔
دوسری طرف درآمدات کے ذیل میں تسلی بخش کارکردگی نہیں رہی۔ رواں برس جولائی اگست میں درآمدات کا حجم 11,098 ملین ڈالر رہا، جبکہ گزشتہ برس ان مہینوں کے دوران ہونے والی درآمدات کا بل 11,338 ملین ڈالر تھا۔ گویا صرف دو فیصد کی معمولی کمی دیکھی گئی۔ زیادہ پریشان کن بات جولائی (5,348 ملین ڈالر) کے مقابلے میں اگست(5,750ملین ڈالر) میں درآمدات کا بڑھتا ہوا حجم تھا۔ اس طرح آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جو کہ یقینی طور پر پریشان کن ہے۔
ہمیں درآمدات کو کنٹرول کرنے کی انتہائی ضرورت ہے، جو کہ گزشتہ سال کی سطح سے کچھ ہی کم ہیں،اور گزشتہ سال وہ تھا جب میکرو اقتصادی ڈھانچے میں بھاری مقدار میں درآمدات کی گئیں،خاص طور پر مالی سال کے آخر میں پٹرولیم کی مصنوعات کی درآمد غیر ضروری تھی۔ہم امید کرتے ہیں کہ دکھائی دینے والا یہ تجارتی خلل جون اور جولائی میں مارکیٹ میں آنے والے بھونچال کی وجہ سے تھا،اور آنے والے مہینوں میں ہم استحکام اور ہمواری دیکھیں گے۔
جولائی اور اگست کے دوران ٹریڈ اکاؤنٹ میں گزشتہ سال کی نسبت گیارہ فیصد بہتری آئی۔ سروسز اکاؤنٹ میں نوفیصد ترقی ہوئی۔ بنیادی آمدنی کا توازن آٹھ فیصد بہتر رہا، لیکن ثانوی آمدنی کے توازن (جس میں بیرونی ممالک سے آنے والی رقوم بھی شامل ہیں) میں سات فیصد کمی دیکھی گئی۔ رواں برس بیرونی ممالک سے آنے والی رقوم میں 3.2 فیصد کمی واقع ہوئی۔ گزشتہ برس ان کا حجم 5,419 ملین ڈالر تھا، جو کہ رواں برس کم ہو کر 5,248 ملین ڈالر رہ گیا۔
جولائی اور اگست کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ1918 ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ گزشتہ سال اس کا حجم 2,374 ملین ڈالر تھا۔ اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 19 فیصد کمی ہوئی۔ اگرچہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن ابھی بھی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی سطح بہت بلند ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تصور کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9,280 ملین ڈالر رہے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اوسط ماہانہ خسارہ 733 ملین ڈالر، یا دو ماہ میں 1546 ملین ڈالر سے تجاوز نہ کرے۔موجودہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1918 ملین ڈالر اس کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ چنانچہ آنے والے مہینوں میں اسے نیچے لانا ہوگا۔
پچھلے کچھ عرصے سے غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہے، لیکن مسلسل اتنی نچلی سطح اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سرمایہ کاری کا ماحول کافی مایوس کن ہے۔ گزشتہ سال 212 ملین ڈالر کے مقابلے میں، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری گر کر 102 ملین ڈالر رہ گئی، جو 50 فیصد سے زیادہ کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسری طرف پورٹ فولیو سرمایہ کاری گزشتہ سال 951 ملین ڈالر کی آمد کے مقابلے 25 ملین کے اخراج کے ساتھ اور بھی زیادہ مایوس کن تصویر پیش کرتی ہے۔
جولائی کا بڑی مصنوعات سازی کا مواد بھی دستیاب ہے۔ جیسا کہ توقع کی گئی ہے، اعداد و شمار گزشتہ ماہ کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال جولائی کے مقابلے میں کمی کے رجحانات کو ظاہر کرتے ہیں۔ ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر (جولائی بمقابلہ جون)، بڑی مصنوعات سازی کی نمو منفی 16.5 فیصد تھی، جب کہ سال بہ سال کی بنیاد پر (جولائی بمقابلہ گزشتہ سال) اس میں 1.4 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یہ شاید معاشی استحکام کی سب سے مضبوط علامت ہے۔ جون میں پیداوار میں 16.5 فیصد کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ صنعتی سرگرمیاں ٹھنڈی ہیں۔ اس سے درآمدات کی طلب کم رہے گی۔
جولائی تا اگست کی مدت کے دوران ریونیو کی وصولی کی پوزیشن محکمہ کے اپنے اہداف کے مقابلے میں کسی حد تک بہتر دکھائی دیتی ہے۔ 926 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں وصولی 947 بلین روپے تھی، جو ہدف کے مقابلے میں 2 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال کے 906 ارب روپے کے مجموعوں کے مقابلے میں، نمو 4.5 فیصد رہی۔ تاہم یہ 7470 بلین روپے کے ہدف کے حصول کے لیے درکار 23 فیصد کی مطلوبہ نمو کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ دوسری طرف، اخراجات کا مواد عام طور پر سہ ماہی کی بنیاد پر دستیاب ہوتا ہے اور وہ بھی سہ ماہی کی تکمیل کے دو ماہ بعد۔ تاہم ایک اخبار میں جولائی اور اگست کے دو ماہ کے اخراجات پر مبنی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔یہ 1.1 ٹریلین روپے کے اخراجات کو ظاہر کرتی ہے اور اس کا 71 فیصد دفاع اور قرض کی ادائیگی پر خرچ کیا گیا ہے۔ اخراجات کی مد میں اس طرح کے آغاز اور محصولات کی کمزور کارکردگی کے ساتھ ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ مالیاتی پہلو کو متوازن کرنے میں چیلنجوں کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔ ہم گزشتہ سال 1,601 بلین روپے کے بنیادی خسارے کو کم کر کے 153 ارب روپے کے سرپلس پر لانے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ ایک طویل سفر ہے، اور اس طرح کی مالیاتی پھسلن کو دیکھتے ہوئے یہ بہت دشوار ہوجائے گا۔
قیمتوں اور شرح مبادلہ کے حوالے سے دو مثبت خبریں ہیں۔ ہفتہ وار حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی)نے 8 ستمبر سے 22 ستمبر تک شروع ہونے والے گزشتہ تین ہفتوں کے دوران کمی کا رجحان ظاہر کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے میں اس میں 8.11 فیصد کی نمایاں کمی دیکھی گئی۔ اسی ہفتے کے لیے سالانہ بنیادوں پر مہنگائی تقریباً 43 فیصد سے کم ہو کر 29 فیصد پر آ گئی۔ یہ اہم پیش رفت ہے، اور یہ مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے کا محرک ثابت ہو سکتی ہے۔
ایک اور اہم پیش رفت زرمبادلہ کی مارکیٹ میں ہے جہاں روپے کی قدر بہتری کی جانب گامزن ہے۔ انٹر بنک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر240 سے کم ہو کر 233 تک ہوچکی ہے۔ کھلی مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 245 سے کم ہو کر 234 تک آگئی۔ یہ تبدیلیاں پچھلے مضامین میں ہماری گذارشات کے مطابق ہیں کہ مارکیٹ کے حالات معیشت کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ روپے کی قدر میں بہتری کا رجحان اسی طرح جاری رہے گا جیسا کہ فنڈ پروگرام کی بحالی کے وقت متوقع تھا۔
خلاصہ یہ کہ ہمیں معیشت کو درپیش چیلنجز کا تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن بیرونی اکاؤنٹ، افراط زر کے اعداد و شمار اور شرح مبادلہ کے رویے میں واضح بہتری کی علامات موجود ہیں جو بحالی اور استحکام کے ابتدائی شواہد ہیں۔ اگر اس بہتری کو مستحکم کیا جائے تو معیشت میں جاندار اور مثبت تبدیلی کے آثار نمایاں ہوتے جائیں گے۔
