جناب قاضی صاحب! ماتحت عدلیہ؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے ان کی ساری توجہ اعلیٰ عدلیہ اور وہ بھی سپریم کورٹ کی حد تک مرکوز ہے۔ تاحال وہ ہائیکورٹس کی جانب بالعموم اور ماتحت عدلیہ کی جانب بالخصوص توجہ نہیں دے سکے ہیںجبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن اس وقت ماتحت عدلیہ کے غیر فعال اور غیر موثر رویے کی وجہ سے پولیس والوں سمیت خفیہ ایجنسیوں کے رحم و کرم پر پڑے ہیں ۔ ان کو یا تو ماتحت عدالتوں میں ریمانڈکے لئے پیش ہی نہیں کیا جاتا یا پھر پیش کیا جاتا ہے تو صرف جسمانی ریمانڈ میں توسیع کے لئے لایا جاتا ہے اور ماتحت عدلیہ کے مجسٹریٹ صاحبان بلاچوں و چراں ان کارکنوں کے بنیادی حقوق کو پس پشت ڈالتے ہوئے انہیں دوبارہ ، سہ بارہ پولیس اور خفیہ والوں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں بلکہ ہمیں تو یہاں تک بتایا گیا کہ پولیس بھی اس حوالے سے بے بس ہے اور اس کا کام صرف متعلقہ کارکنوں کی گرفتاری اپنے رجسٹر میں ظاہر کرنا ہوتا ہے جبکہ انہیں خفیہ والے چپکے سے پولیس کی حوالات سے اپنے ساتھ بٹھا کر لے جاتے ہیں اور تفتیش کے مراحل سے گزار کر دوبارہ سے پولیس والوں کے پاس چھوڑ جاتے ہیں اور اگر مزید تفتیش مطلوب ہو تو پولیس والے ان کا جسمانی ریمانڈ لے لیتے ہیں۔ اول تو کئی ایک کارکنوں ، بالخصوص سوشل میڈیا پر ایکٹو نوجوانوں، کو کہاں رکھا گیا ہے ، وہ کس کے پاس ہیں اور کب تک ان کی واپسی ہو گی،ان سوالوں کا جواب کسی پولیس اسٹیشن کے پاس نہیں ہوتا اور ہو بھی تو روائت سے ہٹ کر متعلقہ تھانہ لواحقین کو بتاتا پایا جاتا ہے کہ معاملہ ان سے بھی اوپر کا ہے ، اگر ان کا بچہ تفتیش میں کلیئر ہوگیا تو ان کا ، نہیں تو خفیہ والوں کا ! اس سے بھی بڑھ کر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مرتبہ پولیس والے گرفتار کارکنوں کو چھوڑنے ، مراعات دینے اور دیگر معاملات کے بدلے کچھ عوضانہ لیتے بھی نہیں پائے جا رہے ہیں اور یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ بھی اتنے ہی مجبور ہیں جس قدر گرفتار کارکنوں کے ماں بات اور دیگر لواحقین ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ ضابطہ فوجداری ریمانڈ اور التوا کے حوالے سے واضح ہدایات دیتا ہے اور اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں نے بھی ماتحت عدالتوں کے لئے واضح گائیڈ لائن وضع کر رکھی ہیں کہ 15روزہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع دینے سے قبل متعلقہ مجسٹریٹ کو اس کی ٹھوس وجوہات لکھنا ہوں گی ، ان وجوہات کی ایک نقل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو بھیجنا ہو گی۔یہ بھی کہ پولیس کو بھی جسمانی ریمانڈ لینے سے قبل ٹھوس وجوہات دینا ہوں گی کہ ملزم کی مزید حوالگی کیوں ضروری ہے لیکن مجسٹریٹ صاحبان قانون سے زیادہ پولیس کو خوش کرتے نظر آتے ہیں اور تھوک کے حساب سے پی ٹی آئی کارکنوںکے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کرتے پائے جاتے ہیں۔ صحافی عمران ریاض کو جس طرح رہائی کے بعد گرفتار کیا گیا اور پولیس جس طرح اس سارے معاملے سے لاتعلقی ظاہر کرتی رہی ، ہمارے پولیس کے نظام پر طمانچے سے کم نہیں ہے۔ وہ تو بھلا ہو لاہور ہائیکورٹ کا کہ جس نے تسلسل کے ساتھ اس معاملے کا تعاقب کیا اور بالآخر عمران ریاض اپنے گھر پہنچ گئے ہیں، لیکن ان کی صحت جس قدر گرچکی ہے ، اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ انہیں کیسی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا ۔ کالم نگار اور ٹی وی اینکر جاوید چودھری کے حوالے سے یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ عمران ریاض کی رہائی میں نواز شریف نے بھی کردار ادا کیا ، ممکن ہے ایسا ہی ہوا ہو، کیونکہ ہمارے پاس اس کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔ عمران ریاض تو معروف تھے اس لئے ان کو دادرسی مل گئی، لیکن ایسے بہت سے نامعلوم نوجوان ابھی بھی پولیس اور خفیہ والوں کے ہاتھ میں ہیں جن کی رہائی کے لئے ماتحت عدلیہ کچھ نہیں کر پا رہی اور بجائے اس کے کہ پولیس کو ان کا چالان پیش کرنے کا کہے اور جوڈیشل ریمانڈ دے کر ان کی ضمانت پر رہائی کا بندوبست کرے ، ماتحت عدلیہ الٹا پولیس اور خفیہ والوں کی معاونت کرتی پائی جا رہی ہے ۔ حسان نیازی کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے اور ان کی رہائی کے لئے دادرسی کہاں کی جاسکتی ہے۔
جناب چیف جسٹس صاحب سے بڑ ھ کر اس بات سے کون واقف ہوگا کہ ایک عام پاکستانی کا اول واسطہ سول اور سیشن عدالتوں سے پڑتا ہے ، وہاں جس انداز سے کچہری کی اینٹیں عام آدمی سے خراج وصول کرتی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ماتحت عدلیہ میں سرگرم وکلاءعام آدمی کے مقدمے کا وہ برا حشر کرتے ہیں کہ الامان و الحفیظ اور جب تک معاملہ ہائیکورٹ میں پہنچتا ہے ، تب تک عام آدمی کے آدھے اثاثے بک چکے ہوتے ہیں اور وہاںکے وکلاءکی لاکھوںکی فیسیںعلیحدہ سے اس کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ خود چیف جسٹس سے ایک سائل نے یہ کہہ کر مقدمہ واپس لیا ہے کہ اس کے پاس وکیلوں کی بھاری فیس ادا کرنے کی سکت نہیں ہے اس لئے اس نے مخالفین سے صلح کرنے میں عافیت جانی ہے ۔ اب اگر اس کا جائز حق تھا اور اس پر اس نے محض مہنگے انصاف کے حصول کی وجہ سے کمپرومائز کرلیا ہے تو یہ ہمارے نظا م کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اگرچہ یہ کام بڑا دکھائی دیتا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التو ا مقدمات کی تعداد پچاس ہزار سے اوپر ہو چکی ہے اور ان کو نپٹانا کسی کارنامے سے کم نہ ہوگا لیکن اگر اوپر اوپر سے صفائی ہوتی رہی اور نچلی سطح پر گند کا وہی عالم رہا تو جناب قاضی صاحب کی کوششیں بھی زیادہ بار آور ثابت نہیں ہوں گی اور ان کی رخصتی کے بعد پھر سے زیرالتوا مقدمات کی بھرمار ہو جائے گی ۔ اس لئے ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ جہاں اصل خرابی ہے وہاں سے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی سعی کریں اور پی ٹی آئی کارکنوں کی گلوخلاصی کرواکر سینکڑوں ہزاروں والدین کی دعائیں سمیٹیں !