سریں صدق مقال،اکل حلال
کائنات کی صنعت کاری میں اگرغور وفکر کریں تو یہ حقیقت پنہاں نہیں رہتی کہ خالقِ کائنات نے دنیا کی جملہ مخلوقات کو ایک مکمل و مربوط نظم عطا کیاہے۔ ہر چیز اپنے مقررہ قواعد و ضوابط میں رہتے ہوئے ہی زندگی گزارنے کی پابند ہے ،بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہر شے کی تخلیق کے مقصد اور اس کی افادیت سے اسی وقت کامل طور پر بہرہ مند ہوا جاسکتا ہے جب وہ شے اپنے متعین اصولوں اور نظم و ضبط پر عمل پیرا ہو ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کے نظم و ضبط کو یوں بیان فرمایا :اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے۔یہ(خدائے)غالب اور دانا کا(مقرر کیا ہوا)اندازہ ہے۔(سورہ_¿ یٰس:38)
یعنی سورج کے لئے یہ متعین نظام ہے کہ وہ اپنے مقررہ مدار پر رہتے ہوئے ہی طلوع و غروب ہوتا ہے اور یہی اس کا ضبط ونظم ہے۔بصورتِ دیگر جیسے ہی وہ اپنے مقررہ راستے سے ہٹ کر مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا تو از روئے حدیثِ پاک نظامِ کائنات تغیر پذیر ہو جائے گا اور قیامت قائم ہو جائے گی ۔اسی طرح ہم جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں اور اس کی صنعت میں غور کرتے ہیں تو صانع ِکائنات اس کے نظم و ضبط کو یوں بیان فرماتا ہے:وہ ذات جس نے تخلیق کیا سات آسمانوں کو طبق در طبق (اوپر تلے )۔کیاتو رحمن کی خلقت میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھ کو(آسمان میں)کوئی شگاف نظر آتا ہے؟(سورة الملک:3)
گویا آسمان کا طبق در طبق ہونا اس کے حسنِ انتظام اور نظم و ضبط کو واضح کرتا ہے ۔مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے متصل یہ دعویٰ فرمایا کہ تجھے رحمن کی صنعت اور تخلیق میں کوئی تفاوت،نقص یا کمی بیشی نظر نہیں آئے گی۔
اب اگر زمین کی خلقت اور صنعت میں غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:اور ہم نے اس میں اونچے اونچے لنگرڈالے اور ہم نے تم کو خوب میٹھا پانی پلایا(سورةالمرسلت:27)
یعنی زمین کو پہاڑوں کی میخوں پر کھڑا کیا اور ان کے نیچے سے پانی جاری کیا جس سے لوگ سیراب ہو رہے ہیں۔اگر پہاڑوں کی میخیں زمین سے ہٹا دی جائیں تو زمین ہلنے لگ جائے اور اس پر بسنے والی مخلوق اپنا سکون تو کیا اپنی جان تک گنوا بیٹھے اور نظمِ کائنات درہم برہم ہو جائے۔اس طرح کی کئی مثالیں قرانِ کریم سے پیش کی جا سکتی ہیں جیسے ہوا، پانی، آگ وغیرہ، یہ جب تک اپنی حدود میں چلتے اور بہتے ہیں تو سب کے لئے نفع بخش ہوتے ہیں مگر جب حد سے تجاوز کرتے ہیں تو آندھی، طوفان،سیلاب اور جلانے کے ساتھ ساتھ تباہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں-
اسی طرح اگر شہد کی مکھی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اگرچہ دیکھنے میں تو چھوٹی ہے مگر سبق بہت بڑا دیتی ہے کیونکہ وہ ایک خاص نطم و ضبط کے تحت چلتی نظر آتی ہے کہ اللہ نے اس کو خاص راستوں سے آنے جانے، خاص مقامات پر اپنا گھر بنانے اور صاف پھلوں سے غذا حاصل کرنے کا حکم دیا۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام فرمایا کہ تو پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں اور چھتوں پر (سورةالنحل:68)
مزید فرمایا:اور ہر قسم کے پھل میں سے کھا۔اور اپنے رب کے صاف رستوں پر چلی جا کہ تیرے لئے نرم وآسان ہے۔اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگ نکلتی ہے۔اس میں لوگوں(کے کئی امراض) کی شفا ہے۔بےشک اہلِ تفکر کے لیے اس میں بھی نشانی ہے(سورةالنحل:68)
پس ثابت ہوا کہ اگر شہد کی مکھی نظم و ضبط میں رہ کر خدا کے حکم کو تسلیم کرتی ہے تواس کے پیٹ سے نکلنے والا مادّہ لوگوں کے لئے شفا ثابت ہوتا ہے۔اگر شہد کی مکھی اپنے نظمِ حیات کو فراموش کردے تو اس کے بطن سے نکلنے والا رس شفا نہیں بلکہ وبا بن جائے ۔
ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ جملہ مخلوقات کے نظامِ حیات کی بقا کے لئے ایک مخصوص نظم و ضبط مقرر کیا گیا ہے جس سے کسی بھی صورت میں دستبردار ہونے کا واحد نتیجہ نظامِ کائنات کی تباہی اور فساد ہے۔اس لئے جس طرح زمین اور آسمان کی بقا کا ایک نظام متعین ہے تواسی طرح زمین و آسمان کے مابین رہنے والے انسانوں کو سفرِ حیات گزارنے کے لئے بھی قرآن و سنت سے ایک خاص راستہ عطا کیا گیا ہے جس پر کاربند رہنے میں ہی انسانیت کا حسن اور نظامِ حیات کی بقا ہے بلکہ اسی میں انسان کی دنیوی و اخروی زندگی کی فلاح بھی پوشیدہ ہے۔
اسی نصاب اور نظم و ضبط پر عمل پیرا ہو کر انسان زندگی کے ہر پہلو کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کے ہر عضو کو سنوار کر اپنے تن کو ایک عظیم محل بنا سکتا ہے۔اس شاندار محل کے دو اہم اور بنیادی مقامات پر قرآنِ کریم، بالخصوص حدیثِ نبوی کے تاکیدی پہلوکو پیش کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ایک کا تعلق بطن سے اور دوسرے کا لسان سے یعنی اکلِ حلال اور صدقِ مقال۔
سِرِ دیں صِدقِ مقال، اکلِ حلال
خلوت و جلوت تماشائے جمال
دین کا راز سچ بولنے اور حلال روزی میں ہے۔ خلوت ہو یا جلوت دونوں حالتوں میں حق تعالیٰ کے جمال کا نظارہ کرنے میں ہے۔
(علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ مرحوم ، جاوید نامہ)
یہاں پر ایک بنیادی بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اکل حلال کے لئے کسب ِحلال لازم ہے۔کسب ِحلال کو کئی نقطہ_¿ نظر سے دیکھا جا سکتا ہے، لیکن یہاں دو طریق کی وضاحت کی گئی ہے۔
معاشرتی اعتبار سے کسب ِحلال کے نتیجے میں آدمی کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اگر اسے خالصتا ًدینی اور مذہبی نگاہ سے دیکھیں تو وہ مخلوق کے ساتھ ساتھ خالق کی نگاہ میں بھی محبوب ترین بندہ قرار پاتا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ الکاسب حبیب اللہ (البیضاوی ، ص 319)
گویا وہ خالق و مخلوق کے ہاں محبوب بن جاتا ہے۔
گوکہ پیٹ بھرنے کے لئے مختلف طریقوں سے کمائی کی جاسکتی ہے مثلا جائز اور ناجائز ۔اگر انسان جائز طریقے سے کمائی کرکے کھائے تو اکلِ حلال اور ناجائز طریقے سے کماکر کھائے تو حرام۔
اس کی بے شمار مثالیں قرآن و سنت میں موجود ہیں۔
حلال کمائی میں نوید اور حرام کمائی میں وعید: ایک مقام پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے شخص سے متعلق نوید سنائی جس نے مسلسل چالیس دن حلال کا لقمہ کھایا اور حرام سے خود کو محفوظ کیا ۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے چالیس دن تک رزقِ حلال کھایا اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو منور فرما دے گا اور حکمت کے چشموں کو اس کے دل سے اس کی زبان پر جاری فرما دے گا۔(قوت القلوب فی معالم المحوب ،جلد ، کتاب تفصیل الحلال والحرام و ما بینھما من الشبھات ص1712)
اس حدیث پاک میں تین بشارتیں دی گئی ہیں:(1)تنویرِ قلب،(2)چشمہ_¿ حکمت اور (3)قلب کے راستے طہارت ِلسانی-
یہ تو40 دن کے رزقِ حلال کی برکت ہے، دائمی حلال کھانے کی برکات تو اندازے سے باہر ہوں گی۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ!آپ اللہ تعالیٰ سے میرے مستجاب الدعوات ہونے کا سوال فرمائیے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تو اپنے کھانے کو پاک (حلال) کرلے تیری دعا قبول کی جائے گی(احیا ءعلوم الدین ،جلد دوم،کتاب الحلال والحرام،باب فی فضیلة الحلال و مذمة الحرام ص:111)
گویا دعاﺅں کی مستجابی کا نسخہ اکسیر اکلِ حلال ہے۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس پر ایک فرشتے کو معمور فرمایا جو ہر رات یہ ندا لگاتا ہے کہ:جس نے حرام میں سے کھایا اس کا نہ کوئی نفل قبول کیا جائے گا نہ ہی کوئی فرض( الزواجر عن اقتراف الکبائر ،جلد اول ،باب المناھی من البیوع ، ص:332)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:جس نے بھی دس درہم کے عوض کوئی کپڑا خریدا اور اس کے مال میں ایک درہم حرام کا تھا تو جب تک اس کپڑے کا کوئی حصہ اس انسان کے بدن پر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی نماز کو کبھی قبول نہیں فرمائے گا۔ ( مشکو ةالمصابیح،جلد اوّل، کتاب البیوع ،باب الکسب و طلب الحلال ،رقم :2789، ص :518)
پہلی حدیث میں تو پورے لباس کا ذکر ہواہے اس حدیث میں اس سے بھی زیادہ وعید فرمائی گئی کہ اگردس درہم کے لباس میں ایک درہم بھی حرام شامل ہوا تو جب تک وہ لباس جسم پر موجود رہے گا نماز قبول نہیں ہو گی۔
(جاری ہے)