امن کی کنجی،مسئلہ کشمیر کا حل جنرل اسمبلی میں نگران وزیر اعظم کا دوٹوک موقف!
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 78 واں اجلاس گزشتہ دنوں شروع ہوا جس میں دنیا بھر سے اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی قیادتیں شریک ہوئیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ماضی کی بڑی جنگوں اور غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ دنیا کو روس، یوکرائن جنگ کی وجہ سے خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ عالمی امن کے لئے ہمیں طاقت کا توازن درست کرنا ہو گا۔ ہمیں عالمی امن کو درپیش چیلنجوں کا کثیر الجہتی حل تلاش کرنا ہو گا۔ ان کے بقول اقوامِ متحدہ کے منشور پر مکمل عملدرآمد سے ہی پائیدار امن ممکن ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے عوام امن چاہتے ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل کا تنازعہ دو ملکی حل ہی میں ممکن ہے۔ یکطرفہ اقدامات سے حالات خراب ہوئے ہیں۔ یو این او کے سیکرٹری جنرل نے دیرینہ حل طلب مسئلہ کشمیر کے تذکرہ سے گریز کیا، جبکہ افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے صدر ترکیہ رجب طیب اردوان نے بطورِ خاص مسئلہ کشمیر کو فوکس کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی اور عالمی امن کے لئے مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل ضروری ہے۔ اردوان کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحد ہ کو اپنے قیام کے مقاصد کی عکاسی بہتر انداز میں کرنی چاہئے۔ امن کے قیام کے لئے نئی حکمتِ عملی اور ایجنڈے کی ضرورت ہے۔ ترکیہ دنیا میں تنازعات کے خاتمے اور امن کے فروغ پر یقین رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے سلامتی کونسل عالمی امن کی ضامن نہیں رہی بلکہ پانچ مستقل ارکان کا میدانِ جنگ بن گئی ہے۔ جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا اور امن میں کوئی شکست نہیں کھاتا۔ ہم روس اور یوکرائن کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کا بطورِ خاص تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیاءمیں پائیدار امن کے لئے مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ضروری ہے۔ ہم اس کے لئے پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کے حامی ہیں اور اس کے لئے ترکیہ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے مضمرات پر غور اور لائحہ عمل کی تیاری جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے کا چونکہ خصوصی حصہ تھا اس لئے یو این او کے سیکرٹری جنرل گویتریس اور امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی تقاریر میں اس ایشو کو فوکس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کے اہداف پر عملدرآمد کے لئے اپنی کوششوں میں تیزی لانا ہو گی۔ موسمیاتی تبدیلیاں انسانیت کے لئے خطرناک ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے بقول عالمی تنازعات سے ایک ارب سے زیادہ افراد متاثر ہیں۔ امریکہ سب کے لئے محفوظ ، خوشحال اور مساوی دنیا کا خواہاں ہے۔ موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے دنیا بھر میں امن کی صورتِ حال بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ چین کے ساتھ ذمہ دارنہ مسابقت کا خواہاں ہے۔ ماحولیات اور دوسرے مسائل پر چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ عالمی حدت کو روکنے کے لئے ہمیں گرین ہاو_¿س گیسز کا اخراج کم کرنا ہو گا۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ اقوامِ متحدہ کو یوکرائن میں روس کی جارحیت کے خلاف کھڑا ہونا چاہئے۔ انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لئے ایران کی کوششوں کی سخت مخالفت کی۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دنیا پر دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اَمن کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل کیا جانا ضروری ہے۔ جنوبی ایشیا کے اَمن کی کنجی کشمیر ہے۔ مقبوضہ وادی میں 9 لاکھ بھارتی فوجی کشمیریوں کی نسل کشی کر رہے ہیں، اقوام متحدہ اِس مسئلے کے حل کے لئے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرائے، بھارت خطے میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ پاکستان تو بھارت کو بھگت ہی رہا ہے تاہم اب دنیا کو بھی اِس کے اصل چہرے کا پتہ چل رہا ہے۔بھارت کا رویہ پوری دنیا کو جنگ میں دھکیل دے گا۔ دنیا کو دہشت گردی بشمول بھارتی ریاستی دہشت گردی کو ختم کرنا ہو گا۔ہندوتوا جیسے نظریات نے ہی اسلاموفوبیا کو دنیا میں بڑھایا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں ملک کو درپیش دہشت گردی کے چیلنجوں اور افغانستان کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور داعش افغانستان سے پاکستان میں حملے کر رہے ہیں، افغان حکومت کو اِس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ موسمیاتی حوالے سے متعلق پاکستان کا موقف اجاگر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے گزشتہ سال ہونے والی کانفرنس آف پارٹیز (کوپ) 27 کانفرنس میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے اور سالانہ کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، گزشتہ برس آنے والے سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آیا، 1700 افراد جاں بحق ہوئے، 80 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے، انفراسٹرکچر تباہ ہوا اور معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ امید ہے کہ پاکستان کے ترقیاتی شراکت دار بحالی کے پروگرام کے لیے فنڈز کی فراہمی کو ترجیح دیں گے۔ عالمی منظر نامے سے متعلق نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہم سب اِس وقت جدید تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہے ہیں۔دنیا کے 50 دیگر مقامات پر تنازعات ہیں۔ روس۔ یوکرین جنگ سے عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔ ایسے وقت میں جب نئے اور پرانے عسکری بلاکس اور جیو پالیٹکس بڑھ رہی ہے، معیشت کو فوقیت ہی نہیں اولیت ملنی چاہیے۔دنیا سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی،اِسے اِس سے کہیں زیادہ خطرناک چیلنجوں کا سامنا ہے۔ کووڈ وبا، علاقائی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلیوں نے کئی ممالک کی معیشت کو تباہ کردیا ہے، عالمی معیشت بھی تنزلی کا شکار ہے، بلند ترین شرح سود کساد بازاری کا باعث بن سکتی ہے۔ متعدد ممالک پہلے ہی دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں، عالمی غربت اور بھوک میں اضافہ ہو چکا ہے، تین دہائیوں کے ترقیاتی فائدے تنزلی کا شکار ہو چکے ہیں۔اِن چیلنجوں سے نبٹنے کے لیے دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔عالمی تعاون اور مشترکہ کارروائیوں کے ذریعے ہی پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول یقینی بنانا ہو گا۔
جنرل اسمبلی سے خطاب سے قبل انوارالحق کاکڑ نے سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان میں قتل و غارت گری میں براہِ راست بھارتی ریاست ملوث ہے، بھارت نے بطورِ ریاست کینیڈا کی سرزمین پر انسانیت کا قتل کیا، وہ بھارتی ایجنٹوں کے ہاتھوں کینیڈا کے سکھ شہری کے قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ پِسے ہوئے طبقے کی فلاح و بہبود ان کی پہلی ترجیح ہے۔کرنسی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں جنہیں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر نے سراہا ہے۔ نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آنے والے دِنوں میں بجلی کے بل نسبتاً کم ہوں گے، تاہم یہ ماڈل نہیں چل سکتا کہ حکومت مہنگی بجلی بنائے اور سستی دے۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جا رہی ہیں کیونکہ وہ اب ناگزیر ہو چکی ہیں۔ معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے متعلق سوال پر نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کا کام الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے، بہت سارے لوگوں کا روزگار قیاس آرائیوں سے جڑا ہوتا ہے اور یہ چلتا رہتا ہے۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے جہاں قوم کو ملک میں بروقت انتخابات کی نوید سنائی وہاں اقوامِ عالم کے سامنے پاکستان کا مقدمہ بھی کامیابی کے ساتھ پیش کیا۔ موسمیاتی تبدیلی پر نہ صرف انہیں پاکستان کی کوششوں سے آگاہ کیا گیا بلکہ ان کی توجہ کوپ27 میں وعدہ کی گئی 10 ارب ڈالر سے زائد کی رقم کی طرف بھی دلائی ہے کہ پاکستان کو اب تک 15 فیصد سے بھی کم رقم موصول ہو سکی ہے۔ پاکستان نے دنیا بھر کو یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ اِسے دیر پا انسانی ترقی کے لئے دہشت گردی، معیشت اور غربت جیسے کئی دیگر چیلنجوں کا سامنا ہے جنہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیے بغیر حل کرنا ممکن نہیں۔ نگران وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا۔ پاکستان ہمیشہ سے ہی بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرتا رہا ہے، وہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے اعترافات کی صورت میں ہو یا پھر افغانیوں کو پاکستان سمیت دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے سے متعلق ڈوزیئرز کی شکل میں، امید ہے کہ اب کینیڈا میں کی گئی بھارتی دہشت گردی کے بعد دنیا اِس کی مکاری کو سمجھنے کے قابل ہو جائے گی کہ حقیقت عیاں ہونا شروع ہو چکی ہے۔ اِس واقعے نے پاکستان کے موقف کو درست ثابت کر دیا ہے کہ بھارت گزشتہ کئی دہائیوں سے نہ صرف کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے،بلکہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھی ملوث ہے۔
پاکستان نے دنیا کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہندو انتہا پسندی اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ کئی یورپی ممالک میں آزادی اظہارِ رائے کا فائدہ ”ہندتوا“ جیسی سوچ اٹھا رہی ہے بالکل ویسے ہی جیسے انڈیا کی کئی ریاستوں میں اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور مانی پور جیسے واقعات ریاستی جرائم کا منہ بولتا ثبوت ہیں، لیکن ان پر سیکولر بھارت اور سب سے بڑی جمہوریت کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے، ویسے ہی جیسے فلسطین میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں میں ملوث اسرائیل ”متاثرہ“ ملک کی چادر اوڑھے رکھتا ہے۔ اِس کا کردار بھی بالکل ویسا ہی ہے جیسا کشمیر کے معاملے پر بھارت کا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے دوست بھی ہیں اور سٹرٹیجک پارٹنر بھی۔ کینیڈا کے شور مچانے پر امریکہ نے انڈیا سے سکھ کے قتل کے واقعے کی تحقیقات میں اس سے تعاون کرنے کا مطالبہ تو کر دیا ہے ؛تاہم اِس سمیت دنیا کو یہ سمجھنا ہو گا کہ زبانی کلامی گفتگو سے شاید معاملات حل نہ ہو سکیں۔ ایک ارب افراد سے زائد کی ”کنزیومر مارکیٹ“ سے معاشی مفاد کے حصول کے جھانسے کی آڑ میں لاکھوں کشمیریوں اور اپنے ہی ملک کے کروڑوں اقلیتی شہریوں کے حقوق سلب کرنے والے انڈیا نے نہ پہلے کبھی کسی کی سنی ہے اور نہ ہی آئندہ اس کی طرف سے کسی ایسے مطالبے پر کان دھرنے کا امکان ہے۔ایسا ہونا ہوتا تو وہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بہت پہلے استصوابِ رائے کرا چکا ہوتا۔اِس کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے اپنے اندر ضم نہ کر لیتا۔ ”گلوبل ساﺅتھ“ کی سپر پاور بننے کے زعم میں مبتلا اِس بدمست ہاتھی کو اب بھی عالمی پابندیوں کی نکیل نہ ڈالی گئی تو پھر بہت دیر ہو جائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ عالمی نمائندہ ادارے لیگ آف دی نیشنز کی دوسری جنگ عظیم کو روکنے میں ناکامی اور اس کے چند بڑے ممالک کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے کے نتیجے میں ہی مو_¿ثر عالمی نمائندگی کے لئے 1946ء میں اقوامِ متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور پرامن بقائے باہمی کا آفاقی اصول اس کے چارٹر کا حصہ بنایا گیا۔ اسی تناظر میں ریاستوں اور مملکتوں کے باہمی اور دوطرفہ مسائل کے بذریعہ جنگ حل کی کسی کوشش کی یو این چارٹر میں حوصلہ شکنی کی گئی اور ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کے احترام کا درس دیا گیا، مگر بدقسمتی سے اس کے رکن چند بڑے ممالک نے لیگ آف دی نیشنز ہی کی طرح اقوامِ متحدہ پر بھی غلبہ حاصل کر لیا اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی ویٹوپاور کی بنیاد پر اپنے اپنے مفادات کے تحت کسی دوطرفہ، علاقائی یا عالمی تنازعہ کے حل کی نوبت ہی نہیں آنے دی گئی۔ صدر ترکیہ رجب طیب اردوان نے اسی تناظر میں اپنے خطاب میں باور کرایا تھا کہ سلامتی کونسل امن کی ضامن بننے کے بجائے اس کے مستقل ارکان کا میدان جنگ بن گئی ہے۔ اس تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور چند دوسرے بڑے ممالک کے اقوامِ متحدہ کو اپنی کٹھ پتلی بنائے رکھنے کے عزائم اس نمائندہ عالمی ادارے کو بھی بالآخر لیگ آف دی نیشنز والے انجام کی جانب ہی دھکیل دیں گے۔
کشمیر اور فلسطین کے دو مسائل ایسے ہیں جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے باوجود گزشتہ 76 برس سے حل نہیں ہو پائے اور امریکی مداخلت کی بنیاد پر گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ بھارت نے قیامِ پاکستان کے وقت اس آزاد و خودمختار ریاست پر اپنا فوجی تسلط جما کر خود کھڑا کیا تھا جس کے حل کے لئے بھی خود بھارت نے ہی اقوامِ متحدہ سے رجوع کیا مگر جب اقوام ِمتحدہ نے اس مسئلے کے حل کے لئے کشمیریوں کا حقِ خودارادیت تسلیم کیا تو بھارت یو این قراردادوں سے ہی منحرف ہو گیا۔ اس کے بعد سے اب تک بھارت نے کشمیری عوام کا جو حشر کیا اور کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانے پر پاکستان اور چین کے ساتھ بھی جس انداز کی مخاصمت کا سلسلہ شروع کیا اس کی پوری دنیا شاہد ہے۔ بھارت کو امریکہ کی سرپرستی میں ہی کشمیریوں پر مظالم توڑنے کا موقع ملا ہے جس کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتا اور اس نے مقبوضہ وادی کو بھارت میں ضم کر کے کشمیر کا ٹنٹا ہی ختم کرنے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے جس سے بھارت نے بلامبالغہ علاقائی اور عالمی امن داﺅ پر لگایا ہے۔ یہی صورتِ حال مظلوم فلسطینیوں کی ہے جن پر اسرائیل نے امریکی سرپرستی میں ہی گزشتہ 76 سال سے مظالم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا ادارہ مسئلہ فلسطین کے حل میں بھی قطعی ناکام رہا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مضمرات کے علاوہ روس یوکرائن جنگ اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے والی افغان سرزمین سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے تو اس کرہ_¿ ارض کی ڈیموگرافی ہی تبدیل کر کے رکھ دی ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے اور پھیلنے والی قدرتی آفات اور اسی طرح سیلاب کی تباہ کاریوں نے انسانی آبادی کے لئے سنگین خطرات پیدا کر دئیے ہیں جبکہ گزشتہ تقریباً دو سال سے جاری روس یوکرائن جنگ نے دنیا کے لئے بالخصوص خوراک و اجناس کی قلت کے سنگین مسائل پیدا کر دئیے ہیں جو جنگ کی طوالت کے باعث مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ ان عالمی اور علاقائی مسائل کے حل میں اقوامِ متحدہ کا کردار اب تک گفتند، نشستند، برخاستند کے سوا کچھ نظر نہیں آیا جبکہ الحادی قوتوں کی جانب سے ایک منظم سازش کے تحت پھیلائے گئے اسلاموفوبیا کے حل کے لئے بھی اقوامِ متحدہ کا فورم انتہائی غیر مو_¿ثر ثابت ہوا ہے۔
درجِ بالا یہ تمام مسائل کم و بیش پاکستان کی بقاء و استحکام اور اس کی خودداری و خوشحالی سے بھی متعلق ہیں جن پر بجاطور پر پاکستان کی جانب سے تفکر کا اظہار کیا جاتا ہے اور جارح ممالک بالخصوص بھارت اور اسرائیل کو امریکی سرپرستی حاصل ہونے کے باعث علاقائی اور عالمی سلامتی کے لئے خطرات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ” امن کی کنجی، مسئلہ کشمیر کا حل“ کے حوالے پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے دو ٹوک موقف پیش کیا اور عالمی قیادتوں سے سائیڈ لائین ملاقاتوں میں اور عالمی میڈیا کو بھی اپنے انٹرویوز کے ذریعے بھی علاقائی اور عالمی امن کو درپیش خطرات اجاگر کئے ہیں اور جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران بھی بالخصوص پاکستان اور علاقائی امن و سلامتی کو بھارت کے ہاتھوں لاحق خطرات کو فوکس کیا۔ یہ سب کچھ گزشتہ 76 سال سے ہو رہا ہے لیکن عالمی فورم رکن ممالک سے اپنی اتھارٹی تسلیم کرانے میں اب تک ناکام ہے۔ اس صورتِ حال میں اقوامِ متحدہ کی بقاء کا سوال اٹھنا بھی فطری امر ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوامِ متحدہ اپنی اتھارٹی کو تسلیم کروائے تاکہ جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر میں امن قائم ہو سکے۔
٭٭٭
2