حدِ نظر تک اُفق کا نصف منظر دھوئیں کی لپیٹ میں آچکا تھا!
دو بجنے میں پانچ منٹ ابھی باقی تھے کہ ہماری پشت پر آسمان گویا پھٹ پڑا.... زرد رنگ کے وسیع و عریض شعلوں کے بادل آسمان کی خبر لارہے تھے۔ اِرد گرد کا تمام منظر منور ہوگیا۔ بل کھاتے اور کروٹیں بدلتے دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ یکے بعد دیگرے دھماکے ہوتے رہے اور شعلے بلندیوں کی طرف لپکتے رہے۔ دھماکوں کے ساتھ ہی پٹرول کے ڈرم شعلوں میں لپٹے اُوپر کی طرف بلند ہوتے اور پھر نیچے لڑھک جاتے۔ اگلے ہی لمحے دھوئیں کا ایک گہرا سیاہ بادل گہرے نارنجی رنگ کے شعلوں میں لپٹا آسمان کی تنہائیوں کو محیط ہونے لگا۔ حدِ نظر تک افق کا تقریباً نصف منظر اس دھوئیں کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ یہ سب کچھ مجھے ناقابلِ یقین لگ رہا تھا۔ ہم لوگوں نے اندھیرے میں چپکے چپکے اور بڑی آسانی کے ساتھ جو معمولی قسم کی تخریب کاری کی تھی اُس کا یہ عظیم الشان اور تباہ کن انجام کتنا عجیب لگ رہا تھا! یہ سب کچھ ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا۔ شاید ہماری امیدوں سے دس گنا زیادہ!! اس کامیابی نے ہمیں حیرت زدہ ہی نہیں کردیا تھا بلکہ ہم اَب اپنے آپ کو بہت طاقتور اور پہلے سے کہیں زیادہ پُراعتماد پا رہے تھے۔
مکمل ایک گھنٹہ تک آتش و آہن کا یہ کھیل زور پکڑتا رہا۔ ہمارے ساتھی مُڑ مُڑ کر پیچھے دیکھتے، مرعوب ہوتے، محظوظ ہوتے، چال میں کچھ دھیما پن آتا لیکن اگلے ہی لمحے باقیوں کے ساتھ مل جاتے۔ لمبے لمبے ڈگ بھر کر.... اس آتش بازی نے ہمارا راستہ روشن کردیا تھا اور ہم بڑی آسانی سے آگے بڑھے چلے جارہے تھے۔ پھر جُوں جُوں ہم آگے بڑھے پہاڑیاں درمیان میں حائل ہوتی گئیں اور شعلوں کی چمک بھی گویا ماند پڑتی گئی۔ ہمارے عقب میں حائل شدہ زمینی نشانات کے سائے بڑھنے لگے اور میں اپنے عرب گائیڈ کے ساتھ قدم ملانے میں مشکل محسوس کرنے لگا۔ یا خدا! یہ شخص کس مٹی کا بنا ہوا تھا؟.... تکان کا تو اس کو پتہ ہی نہ تھا۔ ہم آگے بڑھتے رہے اور جب میں کافی تھک گیا تو اپنی خودداری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محمد اَل عبیدی سے پوچھا کہ وہ ’نامراد‘ کاف الکفرا ابھی کتنی دُور ہے؟.... ”کوئی خاص دور نہیں۔“ اُس نے جواب دیا اور ہم پھر آگے بڑھنے لگے۔
صُبح صادق کی پہلی کرن نمودار ہوئی۔ ہمارے عقب میں آگ اُسی شدت سے بھڑک رہی تھی۔ ہم آگے بڑھتے رہے۔ سُورج نکل آیا تھا۔ اور ہم ایک وسیع و کشادہ، ریتلے اور بنجر ریگستان میں چل رہے تھے۔ تھکان سے میرا بُرا حال تھا۔ تھکاوٹ کے اس شدید احساس کو دبانے کے لیے میں نے ذہن میں ایک سوال حل کرنا شروع کردیا۔ سوال کچھ یوں تھا:.... فرض کریں جرمنوں کے پاس دو سو (200) ٹینک ہیں۔ ایک ٹینک ایک گیلن میں پانچ میل فاصلہ طے کرتا ہے۔ جنگ کے ایام میں ایک ٹینک اوسطاً 50 میل کا فاصل طے کرتا ہے۔ تو اس طرح ایک لاکھ گیلن پٹرول کتنے دنوں کے لیے کافی ہوگا؟.... اس سوال کا جواب نکالتا نکالتا بعض اوقات میں بالکل ہی بے تکی باتیں کرنے لگتا.... اپنے آپ سے.... ہاں تو اِس سوال کا جواب میں نے نکالا: باسٹھ (62) دن.... لیکن یہ تو بہت زیادہ دن تھے۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ جواب غلط ہوگا۔ ....مَیں نے پھر سوچنا شروع کیا۔ اَب کی بار جو جواب نکلا وہ تھا آٹھ گھنٹے یعنی ایک تہائی دن.... یہ جواب بھی خاصا مایوس کن تھا۔ مَیں انہی سوچوں میں کھویا ہوا تھا کہ محمد اَل عبیدی میری طرف آیا اور کہا ”کاف الکفرا اَب نزدیک ہے۔“ اگرچہ ہم تمام لوگ خاصے تھک چکے تھے لیکن گرم گرم دھوپ میں چلے جارہے تھے.... ایک بار پھر وہی سوال میرے ذہن میں گھوم گیا۔ اب کے جواب آیا.... بارہ (12) دن: یہ جواب کچھ تسلی بخش لگا اور میں نے اس سوال جواب کے کھیل کو ذہن سے جھٹک دیا.... ہم چلے جارہے تھے.... ہمارے گائیڈ نے نوید دی۔ ”کاف الکفرا اُس پہاڑی کے پار ہے“.... مَیں سن کر قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکا۔ مجھے یہ ایک لطیفہ یاد آیا گیا جو اس ضمن میں زبانِ زد عام تھا۔ لطیفہ یہ تھا کہ جب آپ کسی سفر پر روانہ ہوں اور آپ کا گائیڈ آپ کے ہمراہ ہو اور وہ کہے کہ منزل دُور ہے تومطلب یہ ہے کہ سفر کا آغاز ہوچکا ہے۔ چار گھنٹے چلنے کے بعد گائیڈ کہتا ہے منزل دور نہیں ہے.... مزید چار گھنٹے کے بعد وہ کہے گا منزل نزدیک ہے اور مزید چار گھنٹے کے بعد وہ بولے گا کہ منزل ”پہاڑی کے اُس پار ہے“.... پہاڑی کا اُس پار چار گھنٹے چلنے کے بعد آتا ہے!.... میرا رواں رواں دُکھ رہا تھا اور میں پا_¶ں گھسیٹے چلا جارہا تھا۔ مَیں نے اُوپر نگاہ اٹھائی۔ سُورج وہیں تھا کہ جہاں کچھ دیر پہلے تھا۔ معاً کسی نے عربی میں کہا ”وہ دیکھو موسیٰ آرہا ہے۔“.... دُور زرد رنگ کے ریگستانی میدان سے ایک ہیولا اُبھر رہا تھا۔ موسیٰ اونٹ پر سوار تھا۔ منزل آچکی تھی۔ موسیٰ اونٹ سے نیچے اترا اور میرے ساتھ بہت گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ اُس نے میرا کندھا تھپتھپایا اور مشرقی اُفق کی طرف اشارہ کیا۔ تمام افق شمال سے جنوب تک گہرے سیاہ بادل میں ملبوس تھا۔
ہم لوگ ایک نسبتاً نشیبی علاقے میں اُتر گئے جہاں کئی غاریں موجود تھیں.... یہی کاف الکفرا تھا۔ مَیں نے گھڑی دیکھی۔ صرف ساڑھے سات بجے تھے!
مُوسیٰ اور یُونس دونوں سِدی بُوحلفایا سے ہمارے لیے سواری کے جانور اور ہماری کٹ لے کر آئے تھے۔ اُنہوں نے ہم سب کے لیے چائے بنائی اور پھر ناشتہ تیار کیا۔ ہم لوگ نرم نرم ریت پر بیٹھ گئے اور ناشتہ کرنے لگے۔ ہم کافی خوش تھے۔ مَیں نے محمد العبیدی کی طرف نگاہ اُٹھائی۔ اُس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ وہ قہقہے لگائے جارہا تھا۔ میں بہت حیران ہوا اور اُس سے پوچھا۔ ”کیا بات ہے محمد؟“
”کل رات وہ اطالوی سپاہی جو ڈمپ میں کام کررہے تھے نا وہ اَب قید میں ہوں گے۔ اُن پر الزام ہوگا کہ پٹرول کی نقل و حمل میں سگریٹ نوشی کی اور اس طرح مسولینی کی جائیداد کو نقصان پہنچایا۔“.... ہم سب نے محمد کے ساتھ مل کر قہقہہ لگایا اور پھر خوشی سے دیوانہ وار اِدھر اُدھر اچھلنے لگے۔ کچھ دیر بعد جب ہم لوگ واپس اپنے آپ میں آئے اور افق پر پھر نگاہ ڈالی تو اپنی کامرانی پر ایک بار پھر مسرور ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
پہلے گھنٹے کی گارڈ ڈیوٹی میں نے ادا کرنی تھی۔ پھر میں غار کی ایک چوٹی پر چڑھ گیا اَور اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ تمام لوگ غاروں میں سورہے تھے۔ آگ کے الا_¶ بجھائے جا چکے تھے۔ خوراک کے خالی ڈبے ہم نے ریت میں دبا دیئے تھے۔ اونٹ اور گھوڑے بھی کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ وادی کے نشیب و فراز میں چرنے کے لیے چھوڑ دیئے گئے ہوں گے۔ تمام منظر بڑا سکون بخش تھا۔ افق پر ابھی تک سیاہ بادلوں کے دیوہیکل مرغولے لہرا رہے تھے۔
اَل قُبّہ کے گرد و نواح میں رہنے والے عربوں کو اطالوی ملٹری پولیس (ایم پی) پکڑ کر لے گئی تھی۔ محمد اَل عبیدی کے بھائی اور اُس کے خاندان والے بھی پکڑے گئے۔ اِن سب سے بہت کڑی پوچھ گچھ کی گئی لیکن کچھ دنوں بعد رہا کردیا گیا۔ بعد میں سرکاری اطالوی رپورٹ کی ایک کاپی میرے ہاتھ لگی جس میں اِس سانحے کی تفصیل دی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں اس کارروائی کی ذمہ داری برطانوی موٹرائزڈ کمانڈوز کے کھاتے میں ڈالی گئی تھی۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اطالویوں کی یہ رپورٹ میری اُس فریب کاری کے منصوبے کے باعث تھی کہ جو میں نے نقشہ جھاڑی میں اٹکا کر بنایا تھا یا پھر لوکل اطالوی کمانڈروں نے طویلے کی بلابندر کے سرمنڈھ دی تھی۔ اُن کو یہ ظاہر کرنا تھا کہ صُورت حال قطعی طور پر اُن کے قابو سے باہر تھی۔ ڈمپ پر گارڈ بھی تو دکھانی (Show) تھی نا....!
اطالویوں نے کمال ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے تباہ شدہ پٹرول کی مقدار کا کچھ ذکر نہیں کیا تھا۔ البتہ یہ جان کر مجھے مزید مسرت ہوئی کہ اس ڈمپ کے ساتھ ہی کچھ فاصلے پر چھوٹے ہتھیاروں کا ایک ذخیرہ بھی اس آتش زدگی کی زد میں آگیا تھا اور تباہ ہوگیا تھا۔ اس کا علم قبل ازیں مجھے ہرگز نہیں تھا۔ لگتا یہ تھا کہ خشک جھاڑیوں اور گھاس پھونس سے ہوتی ہوئی پٹرول ڈمپ کی آگ اُس چھوٹے ہتھیاروں کے گولہ بارود والے ڈمپ تک بھی جا پہنچی ہوگی۔
جب ہم الرطیم میں اپنے کیمپ میں واپس آئے تو ایک نوآموز جاسوس نے ہمیں یہ خبر سنائی کہ برطانوی فضائیہ نے اَل قُبّہ پر بمباری کی ہے اور ایک بہت بڑے پٹرول ڈمپ کو اڑا دیا ہے.... مَیں اُس کی سادہ لوحی پر زیرِلب مُسکرا دیا....!
جبلِ اخضر میں آبادکاری
چونکہ اَل قُبّہ میں ہماری کامیابی پر عربوں کے خلاف اطالویوں نے کوئی منتقمانہ کارروائی نہیں کی تھی، اس لیے جبلِ اخضر میں ہماری خاصی شہرت ہوگئی۔ مجھے جگہ جگہ سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہورہے تھے۔ حتیٰ کہ علی بوحامد جیسے محتاط شخص نے بھی تہنیت کا پیغام بھیجا۔ دور دراز کے علاقوں کے شیوخ میرے پاس آئے اور اپنی خدمات پیش کیں۔ اِس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ جاسوسی اَور انٹیلی جنس کا ایک وسیع تر جال بچھانے میں مجھے بہت آسانی ہوگئی۔ بن غازی میں دشمن کا سازوسامان اور رسدات کا بڑا حصہ بندرگاہ پر اُتارا جاتا تھا اور اَب اُس تمام نقل و حرکت کی باقاعدہ خبریں مجھ تک پہنچ رہی تھیں۔
البتہ ہماری اس ہردلعزیزی کا ایک منفی پہلو بھی تھا اور وہ یہ کہ علاقے کے شیوخ اب میرے پاس اپنے نجی جھگڑے بھی تصفیے کی خاطر لانے لگے۔ کبھی آبپاشی کے لیے پانی کی ناکہ بندی کا تنازعہ میرے سامنے پیش کیا جاتا اور کبھی مجھے کہا جاتا کہ مَیں عربوں کی داخلی سیاست میں دخل دوں۔ اگرچہ مَیں نے اپنی سی کوشش کی لیکن نہ میرے پاس اتنا وقت تھا اور نہ ہی اتنا عملہ میسر تھا کہ میں گورنر سارینیکا کی خدمات انجام دیتا۔
دریں اثناءچیپ مین اپنی سڑک کی نگرانی والے فرائض نہایت مشاقی اور چابکدستی سے ادا کررہا تھا۔ تقریباً پانچ ماہ تک آٹھویں فوج کو اس نے بلاناغہ ہر رات دشمن کی تمام تر نقل و حمل سے جو اس سڑک پر ہوتی تھی بذریعہ وائرلیس آگاہ کئے رکھا۔ اَب اُس کا یہ فریضہ ایک مشین کی طرح چل رہا تھا۔ سڑک پر نگران مقرر تھے، حاصل شدہ معلومات کی ترسیل کے لیے ہرکارے تعینات کئے گئے تھے اور اُن پر کڑی نظر رکھنے کے لیے سُپروائزر مقرر تھے۔ ان کو باقاعدہ تنخواہ دی جاتی۔ باقاعدگی اور اصول پسندی کے لیے بونس دیئے جاتے اَور تساہل اور بے قاعدگی پر جرمانہ ہوتا۔ چیپ مین خود ہفتے میں کسی ایک دِن صُبح سے شام تک سڑک پر جاکر نگرانی کرتا۔ حاصل شدہ معلومات کا تقابل عرب نگرانوں کی ہفتہ بھر کی رپورٹوں سے کرتا اور اس طرح اپنے ماتحت عملے کو یہ اجازت نہ دیتا کہ وہ اپنے خیموں میں بیٹھ کر رپورٹیں بھر بھر کر اُسے بھیجتے رہیں اور تنخواہیں اینٹھتے رہیں۔ ویسے بھی اُس نے اپنے آدمیوں میں درست کارکردگی، لگن اور محنت کا جذبہءفراواں پیدا کردیا تھا۔ عربوں کی فطرت میں اعداد و شمار کی درستگی اور قطعیت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ لیکن اس نے اب ان سہل انگار لوگوں میں جہدِ مسلسل اور قطعیت کی لپک پیدا کردی تھی۔
چیپ مین نے مجھے سعد علی رحوما کے بارے میں اُس کی بطور کوارٹر ماسٹر کارکردگی کی جو رپورٹ پیش کی وہ بہت چونکا دینے والی تھی۔ تحقیقات پر معلوم ہُوا کہ اس کی فطرت میں فضول خرچی اور اللّے تللّے کرنا ایک عام سی بات ہے۔ لہٰذا میں نے اُس کو انتظامی امور کی دیکھ بھال کے فرائض سے الگ کردیا اَور اُسے بن غازی میں العبیر (Al Abair) تک کے درمیان ریلوے لائن کی نگرانی پر مامور کردیا۔ میں چونکہ خود کو بطور کوارٹر ماسٹر موزوں نہیں سمجھتا تھا لہٰذا مَیں نے مڈل ایسٹ ہیڈ کوارٹر کو ایک فوری پیغام ارسال کیا اور اُن سے درخواست کی کہ وہ ایک شخص مسمی گرینڈ گولاٹ (Grand Guillot) کو بھیج دیں۔ یہ اسکندریہ کا رہنے والا ایک فرانسیسی تھا اور اَب برطانوی افواج میں بطور کیپٹن خدمات انجام دے رہا تھا۔ اُس کی انتطامی صلاحیتوں کا مجھے ہمیشہ اعتراف تھا۔ مجھے اس بات کا بھی علم تھا کہ اُسے کسی جاب کی تلاش تھی اور مزید یہ کہ مجھے امید تھی کہ ہمارے ہاں بطور کوارٹر ماسٹر کام کرکے اُسے خوشی ہوگی۔
دریں اثناءمیں اپنے سازوسامان اور دوسرے ذخائر کا اَتہ پتہ لینے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ وادی الرطیم میں ایک ڈھلان پر چڑھ رہا تھا کہ مجھے اپنے طرف آتے ہوئے کچھ آدمی نظر پڑے۔ کُل تین آدمی تھے۔ ایک اُن میں عرب تھا اور باقی دو گھوڑے پر سوار تھے۔ عرب کو تو میں نے پہچان لیا۔ اُس کا نام سیدال براسی (Al Baraci) تھا۔ اُسے میں نے اتفاقی اطلاعات کی تکمیل کے لیے بھرتی کررکھا تھا۔ لیکن یہ دو گھڑ سوار کون تھے؟ اُن کی داڑھیاں بڑھی ہوئی تھیں اور حلیئے بگڑے ہوئے تھے۔ میں اُن کو پہچاننے لگا۔ کسی نامعلوم سے خیال نے مجھے چونکا دیا۔ کہیں یہ رائل ایئر فورس (RAF) کے لوگ تو نہیں!.... سیدال براسی جب میرے نزدیک پہنچا تو ان لوگوں کی طرف اشارہ کرکے پوچھنے لگا: ”میں یہ دو اجنبی اپنے ساتھ لایا ہوں۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ یہ کون ہیں“ مجھے فوراً احساس ہوا کہ شاید یہ اطالوی نہ ہوں کہ جن کو دشمن نے جاسوسی کی غرض سے لانچ کیا ہو۔ میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اطالوی زبان میں اُن سے گفتگو شروع کردی۔ انہوں نے میری جانب پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھا اور پھر فصیح اور بے داغ انگریزی بولنی شروع کردی۔ مزید سوال و جواب سے یہ کُھلا کہ یہ لوگ اُن آٹھ آدمیوں پر مشتمل ایک برطانوی بمبار طیارے کے عملے کے لوگ ہیں جو چھ ہفتے قبل بن غازی پر حملہ آور ہوا تھا۔ جب یہ لوگ پیراشوٹ سے نیچے کودے تھے تو خوش قسمتی سے جبلِ اخضر کی جنوبی سمت میں چل پڑے تھے اور جب ہمارے دوست عربوں نے اِن کو دیکھا تو اِن کی حالت غیر تھی۔ تکان اور شکستہ حالی نے اُن کو موت کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔ ایک بَدو سے دوسرے بدو کے خیمے سے ہوتے ہوئے یہ لوگ سیدال براسی کے پاس پہنچ گئے ۔ وہ اب مزید تفتیش کے لیے انہیں میرے پاس لے آیا تھا۔ جب اُن کو یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک برطانوی افسر سے محو گفتگو ہیں تو اُن کے چہرے دمک اٹھے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اُن کو خیال آیا کہ میں بھی شاید انہی کی طرح کا کوئی آفت رسیدہ تو نہیں جو اُن سے کچھ بہتر حالت میں ہے۔ اُنہیں میری حیثیت اور میری باتوں کا کوئی خاص یقین نہ آیا۔ وہ تو جب میں اُن کو اپنے کیمپ میں لایا اور ایک ایک گلاس وہسکی کا پیش کیا تو اُن کو یقین ہوا کہ واقعی وہ اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ اُن کو میں نے اپنے وائرلیس آپریٹروں کے حوالے کیا کہ اُن کی خوب دیکھ بھال کریں۔ پھر اُن کو کمبل اوڑھائے اور سُلا دیا۔ اُس رات ہوا کے دوش پر رائل ایئرفورس کو پیغام ارسال کردیا گیا کہ یہ لوگ زندہ سلامت ہیں۔ اور اُن کے اہلِ خاندان کو بھی مطلع کردیا گیا۔
سیدال براسی میرے آدمیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد میرے پاس آیا۔ مَیں نے اُس کا شکریہ ادا کیا اَور اُسے اِس کام کا انعام دیا۔ بعد میں وہ مجھ سے کہنے لگا کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں اُسے بھی اپنے باقاعدہ سٹاف میں بھرتی کرلوں؟ اُس کو مَیں نے جواب دیا کہ جیسا کہ اُس کو معلوم ہے کہ میں ہمیشہ ہی اُس کو اپنے ہاں بھرتی کرنے کے حق میں رہا ہوں لیکن چونکہ اُس کے پاس بھیڑ بکریاں کافی ہیں اَور پھر اُس کا کنبہ بھی ماشاءاﷲ خاصا بڑا ہے لہٰذا وہ اپنے مفوضہ ٹاسک کی صحیح طور پر دیکھ بھال نہیں کرسکتا اور اسی سبب سے میں اُسے اپنے سٹاف میں شامل کرنے سے قاصر ہوں۔ اُس نے کہا: ”چھوڑیں میرے کُنبے اور ریوڑوں کو.... میرے پاس ایک گھوڑا ہے جو آپ کے تفویض کردہ امور کی انجام دہی میں ممد ثابت ہوگا۔ آپ مجھے بتایئے کہ کیا آپ مجھے باقاعدہ نوکری دے سکتے ہیں؟“ مَیں نے اُس کی بات مان لی اور کہا کہ اسے لیبین عرب فورس میں بھرتی کرلیا جائے گا اور اس کی باقاعدہ قَسم پریڈ ہوگی۔ اُس کے بعد وہ اُن تمام مراعات کا حق دار ہوگا جو وہ لوگ لے رہے ہیں جن کو میں، مصر سے اپنے ساتھ لایا ہوں۔ تاہم اُس کے روّیے میں اس اچانک تبدیلی سے میں خاصا حیران ہوا اور اپنے آدمیوں سے اُس کے عزائم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی۔ پتہ چلا کہ چونکہ یہ پہلے ہی بطور ایجنٹ میرے لیے کام کررہا تھا، اس لئے جب اِس کی خبر اُس کے قبیلے (براسا) کو ہوئی تو اُن لوگوں میں سے ایک براسی کہ جو اطالویوں کا مخبر تھا، اُس نے اُن کو خبر کردی کہ سیدالبراسی برطانویوں کے لیے جاسوسی کررہا ہے۔ (تب مجھے سعد علی رحوما کا کہا یاد آیا کہ براسی قبیلے والے تمام کے تمام غدار ہوتے ہیں) اطالویوں نے سیدال براسی کے گا_¶ں پر حملہ کیا۔ اُس کے خیمے نذر آتش کردیئے، مویشیوں کو ہلاک کر ڈالا اور اُس کی بیوی کو اغوا کرکے لے گئے۔ بچے اب رشتہ داروں کی تحویل میں تھے۔ اس طرح اپنا سب کچھ کھو کر یہ شخص اَب میرے پاس ملازمت کے لیے آیا تھا۔ اگر کوئی اور کم ظرف ہوتا تو اپنی قربانیوں اور بربادیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا لیکن آفرین ہے اِس سنوسی پر کہ اُس نے اِس تمام داستانِ فلاکت و ادبار کو سینے میں دبائے رکھا اور ہم سے مانگا بھی تو یہ کہ اُسے اطالویوں کے خلاف لڑنے کی اجازت دی جائے۔ یہ بھی گویا ہمارا احسان ہوگا اُس پر.... اِس مردِ خودآگاہ کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ اپنی خانہ ویرانی کا ڈھنڈورا پیٹ کر مجھ سے تلاف_· مافات کی گدائی کرتا.... گویا کہہ رہا ہو:
مرا از شکستن چناں عار نائد
کہ از دیگراں خواستن مومیائی
(جاری ہے)