کچن میں موجود کینسر کا باعث بننے والی چیزیں !
ہمارے کچن میں موجود کچھ ایسی چیزیں ہیں جو ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال میں آتی ہیں لیکن یہ عام چیزیں کینسر سمیت کئی خطرناک بیماریوں کا باعث بن سکتی ہیں۔یورپین ایسوسی ایشن فور سٹڈی آف لیور کی تحقیق کے مطابق کچن میں موجود کھانے میں استعمال ہونے والی یہ چیزیں متعدد خطرناک بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہیں۔ اگرآپ ان بیماریوں پر قابو پانا چاہتے ہیں تو کچن سے ان تمام چیزوں کا استعمال ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ایلومینیم کے برتن : محققین کے مطابق کچن میں استعمال کیے جانے والے ایلومینیم کے برتنوں سے گردے اور پھیپھڑوں سے متعلق بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ ایلومینیم گرم ہونے کے ساتھ ہمارے کھانے میں شامل ہوکر نقصان کا باعث بنتا ہے۔ ایلومینیم دراصل سستا ہونے کی وجہ سے زیادہ تر باورچی خانوں میں موجود ہوتا ہے۔ ایلومینیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایسا زہر ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اثر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کی طرف سے ایلومینیم کے بجائے سٹیل کے برتن استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ۔
نان سٹک برتن : ایلومینیم کے برتنوں کے ساتھ ساتھ ایسے برتن جن میں کیمیکل موجود ہو یا جنہیں نان سٹک برتن کہا جاتا ہے، ان کا استعمال بھی خطرناک بیماریاں پیدا کرسکتا ہے۔ ان نان سٹک برتنوں پر پولی ٹیٹرا فلورو ایتھائلین نامی کیمیکل کی کوٹنگ ہوتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیمیکل کوٹنگ اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ اس سے دماغ اور پھیپھڑوں کی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ایلومینیم فوائل پیپر : اسی طرح ایلومینیم فوائل ایسی چیز ہے جس کا استعمال تقریباً 90 فیصد گھروں میں عام ہے۔ کھانا گرم رکھنے اور اس کا ذائقہ برقرار رکھنے کے لئے فوائل پیپر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق کھانے کو ایلومینیم فوائل میں لپیٹ کر رکھنے سے کھانا ایلومینیم میں موجود کیمیکلز کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ یہ انسانی صحت پر خطرناک اثرات مرتب کرتا ہے۔
پلاسٹک کے ڈبے/بوتل : پلاسٹک کے ڈبوں اور بوتلوں کا استعمال نہ صرف ہمارے گھروں بلکہ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں بھی عام ہے۔ محققین کی ریسرچ کے مطابق یہ پلاسٹک "بسفینول اے" نامی خطرناک کیمیکل سے بنتا ہے، جو انسانی صحت پر اس قدر منفی اثرات مرتب کرتا ہے کہ یہ ہمارے مدافعتی نظام اور ہارمونز کو متاثر کردیتا ہے،لہٰذا ان چیزوں سے جتنی زیادہ احتیاط کی جائے بہتر ہے۔
٭٭٭
آبشار سے بہتا ہوا "خون" !
برف کی دنیا میں جہاں ہر جگہ سفید رنگ ہی نظرآتا ہے وہاں سرخ رنگ کو دیکھنے کی توقع نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، لیکن 1911ءمیں انٹار کٹیکا میں ایک برطانوی مہم کے دوران محققین ایک گلیشیئر سے 'خون' کو بہہ کر برف سے ڈھکی ایک جھیل میں جاتے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔جسے ماہرین نے بلڈ فالز کا نام دیا جو انٹار کٹیکا کے ٹیلر گلیشیئر میں واقع ہے اور ایک صدی سے زائد عرصے تک اس سے خون جیسے رنگ کے پانی کا بہنا سائنسدانوں کے لیے معمہ بنا رہا۔متعدد تحقیقی رپورٹس میں بلڈ فالز سے خون جیسے پانی کے بہاو_¿ کے بارے میں مختلف خیالات پیش کیے گئے،لیکن اب ایک نئی تحقیق میں اس معمے کا ممکنہ جواب سامنے آگیا ہے۔امریکہ کی جونز ہوپکنز یونیورسٹی کے سائنسدان کین لیوی کی تحقیق کے دوران متعدد اینالیٹیکل آلات کو استعمال کیا گیا جس سے انہیں اس معمے کی وضاحت کرنے میں مدد ملی۔خیال رہے کہ ٹیلر گلیشیئر میں برف سے سیکڑوں میٹر نیچے قدیم جرثومے موجود ہیں جو لاکھوں سال سے وہاں ارتقائی مراحل سے گزر رہے ہیں۔کین لیوی نے بتایا کہ ہم نے مائیکرو سکوپ کی تصاویر میں جرثوموں کے ننھے Nanospheres کو دیکھا جوآئرن سے بھرپور تھے۔جرثوموں کے یہ ننھے ذرّات ٹیلر گلیشیئر کے پگھلنے والے پانی میں وافر مقدار میں شامل تھے۔آئرن کے ساتھ ساتھ ان میں سیلیکون، کیلشیئم، المونیم اور سوڈیم جیسے منرلز بھی موجود تھے۔ اسی وجہ سے بلڈ فالز کے پانی کی رنگت اس وقت خون جیسی سرخ ہو جاتی ہے جب زمین کی تہہ سے طویل عرصے بعد نکلنے پر ان ذرّات کا سامناآکسیجن، سورج کی روشنی اور گرمائش سے ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایک منرل میں ایٹمز ایک مخصوص کرسٹلائن ساخت میں منظم ہوتے ہیں، مگر Nanospheres میں کرسٹلائن نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ماضی میں سائنسدان انہیں شناخت نہیں کر سکے۔انہوں نے کہا کہ بلڈ فال کی خون جیسی رنگت کا راز یہی Nanospheres ہیں ،ان کی دریافت سے دیگر سیاروں میں چھپی زندگی کو دریافت کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔تحقیق کے مطابق مریخ میں کام کرنے والے روور کے پاس ایسے آلات نہیں جو کسی سیارے کی برفانی سطح کی تہہ میں موجود زندگی کو دریافت کر سکیں۔درحقیقت ان آلات کو بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے اور انہیں انٹار کٹیکا نہیں لے جایا گیا تھا بلکہ وہاں سے نمونے حاصل کرکے لیبارٹری میں بھیجے گئے تھے۔محققین نے بتایا کہ اگر مریخ پر موجود روور کو ابھی انٹار کٹیکا لے جایا جائے تو وہ جرثوموں کے ننھے ذرّات کو تلاش نہیں کرسکے گا۔اس تحقیق کے نتائج آسٹرونومی اینڈ سپیس سائنس میں شائع ہوئے۔٭٭
8