الیکشن ٹربیونلز کیس، لاہور ہائیکور ٹ کا فیصلہ کالعدم، جسٹس منیب کا بینچ میں آنے سے انکار، 63اے پر نظر ثانی کی سماعت آج تک ملتوی
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن ٹریبونل کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے گیارہ صفحات پر مشتمل حکمنامہ تحریر کیا ہے جس میں کہاگیاہے کہ الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیاجاتاہے،مقدمات کوسماعت کے لیے مقررکرنے بارے دورکنی ججزکمیٹی کااجلاس منعقدکیاگیااور باقاعدہ فیصلہ کیاگیااور اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل پاکستان کونوٹس جاری کیاگیا،سلمان اکرم راجاایڈووکیٹ نہ صرف خوددرخواست گزار تھے اس کے ساتھ ساتھ بطور وکیل وہ کسی اور کی طرف سے بھی پیش ہوئے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں پہلے مشاورت ہوجاتی تو بہتر ہوتا، لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے درمیان باہمی مشاورت ہوچکی ہے، تنازع باہمی مشاورت سے حل ہونے کے بعد اس پر مزید کارروائی کی ضرورت نہیں۔عدالت کا کہنا ہے کہ آئینی اداروں کے درمیان باہمی احترام ہونا چاہئے،عوام یہی توقع رکھتے ہیں، لاہور ہائیکورٹ کا 8 الیکشن ٹریبونلز میں خود جج لگانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، عدالتی فیصلے کے روشنی میں ججز تعیناتی کے نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں۔فیصلے کے مطابق لاہور ہائیکورٹ سنگل بینچ کا فیصلہ بطور عدالتی نظیر بھی پیش نہیں کیا جاسکتا، ہائیکورٹ جج نے چیف الیکشن کمشنر اورچیف جسٹس کی ملاقات نہ ہونا مدنظر نہیں رکھا، اگر جج اس ملاقات کا نہ ہونے کو ذہن میں رکھتے تو ایسا فیصلہ نہ کیا جاتا، تنازع جب آئینی ادارے سے متعلق ہو تو محتاط رویہ اپنانا چاہئے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں ا?رٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سماعت کی جس کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا گیا ہے۔رجسٹرار کو حکمنامے کی کاپی جسٹس منیب اختر کے سامنے رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔حکمنامہ کے مطابق رجسٹرار جسٹس منیب اختر سے بینچ کا حصہ بننے کی درخواست کریں وہ انکارکریں تو ججز کمیٹی نیا جج بینچ میں شامل کرے گی۔صدارتی ریفرنس کا فیصلہ دینے والے بینچ میں اس وقت کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے جبکہ اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا اور فیصلے کو چیف جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن کی حمایت حاصل تھی۔اقلیتی ججز جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس جمال خان مندو خیل نے اختلافی نوٹ تحریر کیے تھے۔حکمنامہ میں کہا گیا کہ جسٹس منیب اختر نے آج کمرہ عدالت نمبر تین میں بینچ کی سربراہی کی اور دیگر ججز کیساتھ ٹی روم میں بھی موجود تھے، رجسٹرار حکمنامے کی کاپی جسٹس منیب اختر کو فراہم کرے،مقدمے کی سماعت منگل کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کی جاتی ہے۔دریں اثناسپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں، میں فیصلے میں اپنی رائے شامل کر نا چاہتا ہوں۔پیرکوپنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کیخلاف دائر اپیل کے فیصلے پر اضافی نوٹ میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ایکٹ کا سیکشن 140 الیکشن کمیشن کو ججز پینل طلب کر نے کا اختیار نہیں دیتا۔انہوں نے کہا مقننہ کی اس قانون میں سوچ واضح ہے، مقننہ نے الیکشن کمیشن کو ججز پینل مانگنے اور ان میں سے انتخاب کا اختیار نہیں دیا، الیکشن کمیشن کو ہر جج پر ا عتما د کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن ایک ٹربیونل کیلئے ایک ہی جج کے نام کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ اور ججز آئینی عہدیدار ہیں، ہر معا ملے میں الیکشن کمیشن اور ججز کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چا ہیے، الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ کے ججز کے درمیان باقاعدہ مشاورت نہیں ہوئی، چیف جسٹس لاہور ہائی کور ٹ اور الیکشن کمیشن کی مشاورت کا نتیجہ ہمارے سامنے اتفاق کی صورت میں آیا، اْمید ہے اب الیکشن کمیشن ٹربیونلز کی تشکیل کیلئے اقدامات کریگا، الیکشن ٹربیونلز میں قانون کی دی گئی مد ت کے اندر فیصلے ہونگے۔
الیکشن ٹریبونلز کیس
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں تشکیل کردہ لارجر بنچ میں شمولیت سے انکار کر دیا، عدالت عظمیٰ نے جسٹس منیب اختر کے بنچ میں نہ بیٹھنے پر سماعت آج تک ملتوی کر دی۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت کیلئے 4 رکنی بنچ کمرہ عدالت پہنچا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مظہرعالم کمرہ عدالت پہنچ گئے تاہم بنچ کے رکن جسٹس منیب اختر کمرہ عدالت میں نہیں آئے۔جسٹس منیب اختر کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط تحریر کیا گیا، چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کا خط پڑھ کر سنایا۔جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں لکھا کہ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے بنچ تشکیل دیا ہے، کمیٹی کے تشکیل کردہ بنچ کا حصہ نہیں بن سکتا، بنچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کر رہا، بنچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے، میرے خط کو نظر ثانی کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔دوران سماعت پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کر دیا اور کہا کہ کمیٹی تب ہی بنچ بنا سکتی ہے جب تینوں ممبران موجود ہوں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایسے خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی روایت نہیں ہے، جسٹس منیب اختر کا خط عدالتی فائل کا حصہ نہیں بن سکتا، مناسب ہوتا جسٹس منیب اختر بنچ میں آ کر اپنی رائے دیتے، میں نے اختلافی رائے کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے، نظرثانی کیس دو سال سے زائد عرصہ سے زیرالتواء ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا 63 اے کا مقدمہ بڑا اہم ہے، جج کا مقدمہ سننے سے انکار عدالت میں ہوتا ہے، جسٹس منیب اختر کی رائے کا احترام ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون کا تقاضا ہے نظرثانی اپیل پر سماعت وہی بنچ کرے گا، سابق چیف جسٹس کی جگہ میں نے پوری کی، جسٹس اعجاز الاحسن کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کیا گیا، ہم جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ بنچ میں بیٹھیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس منیب اختر نے آج مقدمات کی سماعت کی ہے وہ ٹی روم میں بھی موجود تھے، ان کا آج کی سماعت میں شامل نہ ہونا ان کی مرضی تھی، ہم کل دوبارہ اس نظرثانی کیس کی سماعت کریں گے، امید کرتے ہیں کہ جسٹس منیب اختر کل سماعت میں شامل ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہم جسٹس منیب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ بنچ کی تشکیل نو ہوگی، امید ہے جسٹس منیب اختر دوبارہ بنچ میں شامل ہو جائیں گے، جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، دونوں صورتوں میں آج کیس کی سماعت ہوگی۔بعدازاں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس منیب اختر کے ایک کی سماعت کرنے سے معذرت پر ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کام کرنا بند نہیں کرسکتی، ہمیں یہاں صرف مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔بعد ازاں عمران خان کے وکیل علی ظفر نے سپریم کورٹ میں بنچ پر اعتراض کی باقاعدہ درخواست دائر کردی۔ بیرسٹر علی ظفر نے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس کی سماعت کرنے والا بنچ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن دو کے تحت تشکیل نہیں دیا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے مطابق تین رکنی کمیٹی چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج اور چیف جسٹس پاکستان کے نامزد کردہ جج پر مشتمل ہو گی۔درخواست میں کہا گیاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت بنچز کی تشکیل کے لیے تین آزاد ججز کو فیصلہ سازی کی ذمہ داری دی گئی، تین ججز کی اجتماعی دانش کے بعد ہی بینچ کی تشکیل اور مقدمات کی سماعت کی جا سکتی ہے۔درخواست میں مزید کہا گیاکہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ 23 ستمبر کو جسٹس منصور علی شاہ نے تین رکنی کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی، جسٹس منصور علی شاہ کی عدم موجودگی کے بعد چیف جسٹس اور ان کے نامزدکردہ جج نے نظرثانی درخواست مذکورہ بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ دو ججز کے فیصلے کو تین رکنی کمیٹی کا فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ حقیقت ہے کہ کمیٹی اجلاس میں تین ممبران کی بجائے دو نے شرکت کی، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت نامکمل کمیٹی مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے اور بنچز تشکیل نہیں دے سکتی۔دوسری طرف پانچ رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت کرنی تھی، چار رکنی بینچ عدالت میں بیٹھ کرآرٹیکل63اے سے متعلق نظرثانی کیس نہیں سن سکتا،سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک اور خط لکھ دیا جس میں پیر کو ہونے کو سماعت اور اس کے جاری ہونے والے حکم نامے کو غیرقانونی قراردے دیاہے۔۔خط میں جسٹس منیب اختر نے سماعت کے حکم نامے کوغیرقانونی قرار دے دیا۔ جسٹس منیب نے خط میں کہا کہ پانچ رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت کرنی تھی، چار رکنی بینچ عدالت میں بیٹھ کرآرٹیکل63اے سے متعلق نظرثانی کیس نہیں سن سکتا۔انہوں نے کہا کہ سماعت کا حکم نامہ مجھے بھیجا گیا، حکم نامے میں میرا نام لکھا ہوا ہے مگر آگے دستخط نہیں، بینچ میں بیٹھنے والے4ججز قابل احترام ہیں مگر سماعت قانون اور رولز کے مطابق نہیں۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس (آج)منگل کی صبح بلالیا۔ذرائع کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس آج منگل کی صبح 9بجے سپریم کورٹ میں ہوگا۔اجلاس آرٹیکل 63اے کی نظرثانی درخواستوں کی سماعت میں جسٹس منیب اختر کے بینچ میں نہ بیٹھنے کے خط کے بعد بلایا گیا ہے۔
نظر ثانی کیس