پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچوں کا  سکول سے باہر ہونا بڑا چیلنج ہے،شہباز شریف 

   پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچوں کا  سکول سے باہر ہونا بڑا چیلنج ہے،شہباز ...
   پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچوں کا  سکول سے باہر ہونا بڑا چیلنج ہے،شہباز شریف 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”پاکستان میں اڑھائی کروڈ بچوں کا سکول سے باہر ہونا بڑا چیلنج ہے جبکہ ہم تو کسی چھوٹے چیلنج کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے،یہ تو پھر بڑا چیلج ہے اور یہ بچے سکو ل سے باہر اِس لیے ہیں کہ اِن کے لیے سکول اور ٹیچر زنہیں ہیں جبکہ سکول تعمیر کرنے اور ٹیچرز کو تنخوائیں دینے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں جبکہ ہمارا تو پہلے مانگے تانگے پر گزار ا ہے اور اب تو مانگے تانگے سے بھی کچھ نہیں ملتا جبکہ بھیک دینے والے بھیک دے دے کر تنگ آگئے ہیں اِس لیے یہ بچے سکول سے باہر ہی رہیں گے اور اسی طرح محنت مزدوری کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں گے جبکہ ہمارا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اور ہم نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کبھی کوشش بھی نہیں کی ہے اور اب اگر کھڑے ہونا چاہیں بھی تو ہمارے  پاؤں ہمارا بوجھ سہار ہی نہیں سکتے کیونکہ انہیں اِس کی عادت ہی نہیں ہے اور ہمارے پاؤں کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ ہم اِ ن کے ذریعے چل کر بھیک مانگنے کے لیے جا سکتے ہیں اور اب تو یہ کام بھی تقریباََ مشکل ہو کر رہ گیا ہے جبکہ پہلے ہم اپنے پاؤں کی بجائے کسی اور کے پاؤں پر کھڑے تھے اورا ب اُنہوں نے بھی اپنے پاؤں سمیٹ لیے ہیں کیونکہ اب وہ بھی ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر سکتے کہ آخر اُنہوں نے اپنے پاؤں پر خود بھی کھڑا ہونا ہے اِس لیے بھی کھڑے ہونے کے لیے اُن کے پاؤں دستیاب نہیں ہے آپ اگلے روز لندن میں پائیدار ترقی کے حوالے سے ایک پینل گفتگو میں شریک تھے۔

حکومتی کشتی ڈوبے یا تَیرے،اِس کا حصہ رہیں گے۔گورنر پنجاب 

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خاں نے کہا ہے کہ ”حکومتی کشتی ڈوبے یا تَیرے ہم اِس کا حصہ رہیں گے کیونکہ ڈوبنے کا پتا ہی اُس وقت چلے گا جب ہم بھی اُس کے ساتھ ہی ڈوبے رہے ہوں گے اور اگر ہمیں اُس سے پہلے پتا چل بھی گیا تو چونکہ ہمیں تَیرنا نہیں آتا اِس لیے ہم ویسے ہی ڈوب کر مر جائیں گے اور مجھے تو اِس بات کا اُس وقت بھی علم تھا جب میں نے گورنر شپ کا حلف اُٹھایا تھا حالانکہ آدمی کو تَیرنا تو آنا ہی چاہیے چنانچہ ہم اب میں نے سوچا ہے کہ چند دنوں کی چھٹی لے کر تَیرنا سیکھ لوں تاکہ وقت پڑے تو ہاتھ پاؤں مار کر پانی سے باہر نکل سکوں کیونکہ ڈوب کر مر جانا مرنے کا کوئی اچھا طریقہ تو نہیں ہے بلکہ بدقسمت کشتی کے جتنے بھی سوا ر ہوں گے اُنہیں تَیرنا آنا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کشتی ڈوبے تو باقی سب کو بھی ساتھ لے ڈوبتی ہے اور ڈوب کر مرنے والے مگر بچوں وغیرہ کی خوراک بنتے ہیں جن کی یاد میں بعد ازاں مگرمچھ کے آنسوں بھی بہائے جاتے ہیں اور مگر مچھ کے یہی وہ آنسو ہیں جو ایک مقبول محاورے کی صورت اختیار کر چُکا ہے حالانکہ اِن آنسوؤں کو مگر مچھ نہیں کوئی اور بہاتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مگر مچھ کے آنسوں بہا رہا ہے آپ اگلے روز لاہور میں میاں عمران وقار کی وفات پر فاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔

آئین کا راستا اپنائیں ملک چل پڑے گا۔شاہد خاقان عباسی 

سابق وزیرِ اعظم اور سربراہ عوام پاکستان پارٹی شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ”آئین کا راستا اپنائیں،ملک چل پڑے گا لیکن آئین کا راستا اپنانے کی بجائے ہم خود آئین پر ہی لاٹھیاں برسانے میں لگے ہوئے ہیں اور آئینی ترمیمات پر کمر باندھ رکھی ہے اِس لیے ملک آگے چلنے کی بجائے زمیں جنبد نہ جنبد گُل محمد کی طرح اپنی جگہ پر کھڑا ہے بلکہ آگے بڑھنے کی بجائے ہم مزید پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے ہیں اور آگے بڑھنے کا کام کبھی شرمندہ ئ تعبیر نہ ہو سکے گا اور اگر مولانا فضل الرحمٰن کسی طرح اِس کی تائید پر آمادہ کر لیے جاتے ہیں تو آئین کا ویسے ہی بولو رام ہو جائے گا کیونکہ اپنی مرضی کے جج ہوں گے اور اپنی مرضی کے فیصلے لیے جائیں گے اور آئین گھر کی باندی بن کر رہ جائے گا اور وہ حکومت جس کو دیکھنے کے لیے خورد بین کا بندو بست کرنا پڑتا تھا ع

جدھر دیکھتاہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے

اور بعد میں پتا چلے گا کہ ملک آگے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہا تھا آپ اگلے روز لاہو ر میں ایک سمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ 

شاید!

کسی شخص کو قتل کے جُرم میں سزائے موت ہو گئی تو ایک سکھ پولیس افسر کو حکم دیا گیا کہ مجرم کو شہر سے پانچ میل دور لے جاکر گولی مار دے۔دونوں جا رہے تھے او ر مجرم بار بار یہ کہتا چلا جا رہا ہے کہ لگتا تو نہیں پر شاید ہو، افسر نے اُ س سے پوچھا کیا کہہ رہے ہو تو اُ س نے کہا کچھ نہیں لیکن جب و ہ پھر وہی فقرہ دھرانے لگاتو افسر رُک گیا اور اُس سے سختی سے پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے جس پر وہ بولا، 

”ایک نجومی کو میں نے ہاتھ دکھایا تھا جس نے بتایا تھا کہ تمہاری موت کسی حرامی کے ہاتھوں ہو گی تو میں اُس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ سردارجی حرامی لگتے تو نہیں،پر شاید ہوں۔ اِ س پر افسر نے اُسے وہیں چھوڑ دیا 

او ر اب آخر میں اوکاڑہ سے مسعود احمد کی یہ غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ستارے بھی ہمیں پہچانتے ہیں 

ہم اپنے رفتگاں کو جانتے ہیں 

ہمارا تو یہی جھگڑ ا ہے اُن سے 

غلط کو کب غلط گردانتے ہیں 

شجر کچھ دیر سُکھ کا سانس لے لیں 

ہم اپنے سر پہ سورج تانتے ہیں 

گلہ کیسا ہمیں اِ ن مینڈکوں سے 

.کنوئیں کو ہی سمندر جانتے ہیں 

زمیں ساری کی ساری چھان لی ہے 

چلو اب آسماں کو چھانتے ہیں 

ہمارے بس میں کیا اُڑنا اُڑانا 

مگر اُ ڑنے کی تو ہم ٹھانتے ہیں 

اب اِ س غلطی میں کیا غلطی ہماری 

کنارے کو کنارہ جانتے ہیں 

آج کا مقطع 

جن کو محفوظ سمجھتا رہا میں دل میں بہت 

چل دیے وہ بھی،ظفر، توڑ کے گھیرے میرے 

مزید :

رائے -کالم -