وزیراعظم کا قوم سے خطاب

وزیراعظم کا قوم سے خطاب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جون میں بطور وزیراعظم حلف اٹھانے والے میاں محمد نواز شریف نے بالآخر اگست کے دوسرے عشرے میں لب کشائی کر ہی لی اور قوم سے اپنے دل کی باتیں کر ڈالیں۔ وزیراعظم کے پہلے خطاب کا بھاری مینڈیٹ دینے والے عوام کو نہایت شدت سے انتظار تھا۔ اپنی تقریر میں نواز شریف نے لوڈشیڈنگ اور دوسرے انتظامی مسائل میں مصروفیت کو عوام سے رابطے میں دیر کی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ قوم کو تقریروں سے زیادہ مسائل کے حل کی ضرورت ہے اور یہ بات ہے بھی درست۔ مشہور انگریزی مقولہ ہے کہ:
''Action speaks louder than words''
وزیراعظم نے بھی قوم کے سامنے آ کر لفظوں کا جال بچھانے کی بجائے عملی کام کرنے کو فوقیت دی۔ اقتدار میں آ کر روزِ اول ہی سے وزیراعظم بجلی کے بحران کے حل کے سلسلے میں کمر بستہ ہو گئے۔ انہوں نے 480 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا، نندی پور و چیچو کی ملیاں پاور پلانٹ کی بحالی کے احکامات جاری کئے اور عوام سے داد تحسین وصول کی۔ ہماری ناقص رائے میں وزیراعظم کا یہ اقدام واقعتا قابل تعریف ہے۔ پہلے دن حلف لے کر خالی خزانے اور بدحال معیشت کے ساتھ وزیراعظم قوم کو لفظوں کی حد تک امید ہی دے سکتے تھے، مگر انہوں نے ناقابل ِ عمل خواب دکھانے کی بجائے بجلی کی بُری حالت دیکھتے ہوئے چین کا دور کیا اور بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لئے کئی معاہدے کئے۔ اس کے علاوہ انتظامی مشینری میں بھی جان ڈالی اور سرکلر ڈیٹ بھی ادا کیا۔ حکومت کے پہلے چند ہفتوں میں اتنا زیادہ کام اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ نئی حکومت معاملات کو خوش اسلوبی اور تن دہی سے سرانجام دینے میں واقعی سنجیدہ ہے، چنانچہ یہ سنجیدگی لے کر وزیراعظم نے اڑھائی ماہ بعد قوم سے خطاب کیا۔
اگر ہم تقریر کے متن پر نظر ڈ الیں تو احساس ہوتا ہے کہ جو بات کی گئی، وہ دل سے کی گئی، اس میں کوئی لگی لپٹی نہیں تھی۔ وزیراعظم نے نہ تو قوم کو سبز باغ ہی دکھائے اور نہ ہی انہیں بند گلی میں پھینکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے نہایت متوازن انداز سے قوم کو موجودہ حالات کے بارے میں بتایا اور یہ باور کرایا کہ حالات جیسے دکھتے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ گھمبیر ہیں۔ میاں نواز شریف کی تقریر میں بناوٹ دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس میں ایسا جوش نہیں تھا، جو بعد میں شرمندگی کا باعث بنے، بلکہ جو بھی کہا گیا ،پورے ہوش و حواس میں کہا گیا۔ اپنی تقریر میں وزیراعظم نے ملک کے تمام بڑے مسائل کا ذکر کیا۔ انہوں نے دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ہر شہری ان کے لئے اولاد کی مانند ہے اور وہ آئے روز اپنے بچوں کا جنازہ اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے وزیراعظم نے یہ الفاظ کہے کہ ہمارے پاس اس کے خاتمے کے لئے ایک سے زائد آپشن موجود ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاملات افہام و تفہیم سے حل ہو جائیں، بصورت دیگر ریاستی قوت کا راستہ کھلا ہے۔
 اِن باتوں سے وزیراعظم نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ سیاسی سطح پر اپنے پچھلے دور کے مقابلے میں مزید میچور ہو چکے ہیں، انہیں حالات کا اندازہ بھی ہے اور ان کے حل کا طریقہ کار بھی ان پر وضع ہے۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے ایک نہایت اہم بات یہ کی کہ وہ انتظامی مشینری کے کام سے مطمئن نہیں ہیں اور افسران جو جمود کا شکار ہیں یا اپنی نااہلی سے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں، انہیں بالکل بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ ملک کو جتنا نقصان کرپٹ سیاست دانوں نے پہنچایا، نااہل اور راشی افسران بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ ہمیں قومی امید ہے کہ نواز شریف اپنے دورِ حکومت میں بددیانت افسران کی چھٹی کر دیں گے، لیکن اس کے لئے وزیراعظم کو کئی سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ گمان تھا کہ ان کے راستے میں کئی سفارشیں آئیں گی، کئی قرابت داریاں بھی ان کا راستہ روک سکتی ہیں، مگر اپنے خطاب میں انہوں نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کرنا ہے، ملک و قوم کے لئے کرنا ہے اور فیورٹزم، یعنی اقرپروری کو بالکل بھی برداشت نہیں کریں گے۔
وزیراعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ملک کے تمام صوبوں سے یکساں سلوک کیا جائے گا اور ہر صوبے کی حکومت ان کی اپنی حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنروں سے بھی ان کی بات ہوتی ہے اور کسی بھی صوبے کو یہ احساس نہیں ہو گا کہ وہ اکیلا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ بلوچستان میں اپنی جماعت کی حکومت بنا سکتے تھے، لیکن یہ وقت حکمرانی کا نہیں، بلکہ ملک بچانے کا ہے۔ ملک سلامت تو حکومتیں رہیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر مالک کو صوبے کا وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ یوں بغاوت کا سر اُٹھانے والی تمام ملک دشمن قوتوں کا قلع قمع کر دیا گیا۔ بلاشبہ وزیراعظم کا یہ اقدام لائق تحسین ہے اور اس نے بلوچستان کو پاکستان سے مزید دُور ہونے سے بچا لیا ہے۔
حکمران جماعت کے مخالفین پچھلے کئی ماہ سے یہ راگ الاپنے میں مصروف تھے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دے گی اور بھارت نواز حکمت عملی اپنائے گی، لیکن اپنے خطاب میں وزیراعظم نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور ہم اپنے موقف کا دفاع کرتے رہیں گے۔ بھارت سے برابری کی سطح پر بات چیت کا اظہار بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکمران اس ملک کو اس کی کھوئی ہوئی عزت و شان واپس دلانے میں تہہ دل سے کوشاں ہیں۔
وزیراعظم کا برسر اقتدار آنے کے بعد کسی بھی جماعت پر تنقید سے اجتناب ان کی سیاسی بصیرت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے ملک کی خاطر تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا عہد کیا ہے، جو نہایت خوش آئند ہے۔ عوامی مسائل کے حوالے سے نواز شریف نے کہا کہ انہیں صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی اور دیگر اقدام مسائل کا بخوبی اندازہ ہے۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر مسائل کا تعلق صوبائی حکومتوں سے ہے، مگر پھر بھی وفاقی حکومت کی طرف سے وہ عوام کو ان کے متعلق ہونے والی پیش رفت سے آگاہ رکھیں گے۔
بے گھر لوگوں کے لئے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ایک خوشخبری یہ دی کہ ان کی حکومت سستے گھروں کی فراہمی کا منصوبہ بنا رہی ہے، جس سے ملک کے چاروں صوبوں میں ہزاروں لوگوں کو رہنے کے لئے محفوظ چھت میسر ہوگی، اس سکیم کی مزید تفصیلات انہوں نے اکتوبر میں دینے کا وعدہ کیا۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ جو باتیں انہوں نے الیکشن مہم کے دوران کہی تھیں ،وہ ان کے دل و دماغ میں بسی ہوئی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کا ہر نوجوان اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو اور اسے اپنے روز گار کے لئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔ انہوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ وہ ملک کی عوام کو غربت کے شکنجے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ الغرض ملکی مسائل کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے، جس سے وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں تہی دامنی کی ہو۔ وہ اپنے ملک اور عوام کے ہر مسئلے سے نہ صرف بخوبی طور پر آگاہ ہیں، بلکہ اتنا ہی عزم، حوصلہ اور ہمت بھی رکھتے ہیں کہ ملک کو سازشوں اور مسائل کی دلدل سے نکال سکیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ قوم نے جس طرح میاں نواز شریف کی جماعت پر اعتماد کیا ہے، وزیراعظم بھی اس اعتماد پر مکمل طور پورا اُتریں گے۔    ٭

مزید :

کالم -