کاشغرتاگوادر: اقتصادی راہداری!
ملک عزیز کے اہم مسائل دہشت گردی، امن وامان کی خراب صورت حال ،اقتصادی بحران، توانائی کے مسائل، مہنگائی، آبادی کے بے ہنگم اضافے کے علاوہ یہاں کے خراب ذرائع آمد ورفت بھی بہت بڑا مسئلہ ہیں،جس کی وجہ سے ایک شہر سے دوسری جگہ جانا یا مال برداری بہت بڑا مسئلہ ہے، اگر ملک میں ذرائع آمد ورفت بہتر ہوں گے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔شاید اسی لئے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی چین کا پہلا دورہ کیا اور واپسی پر گوادر پورٹ(بلوچستان) سے چین کے شہر کاشغر تک ہائی وے بنانے کا اعلان کردیا اور اب سنا ہے کہ اس پراجیکٹ پر کام بھی شروع ہو گیا ہے۔گوادر سے کاشغر تک تقریباً 3200کلومیٹر سڑک بنے گی، بعد میں اس روٹ کو ریل کے ذریعے بھی ملا دیا جائے گا۔
پاکستان نے برق رفتار ترقی کا خواب پورا کرنے کے لئے کاشغر تا گوادر نئی سڑک بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جو قابل تعریف ہے،جس کی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے منظوری دے دی ہے۔اللہ کرے کہکوئی اس میں حائل نہ ہو، کیونکہ یہ سڑک پاکستان کا مستقبل بنے گا۔اس سڑک کے ذریعے چین اور پاکستان کو مختصر اور زیادہ قابل اعتماد روٹ سے ملا دیا جائے گا۔پہلے مرحلے پر سڑک تعمیر ہو گی ،بعد میں اسی روٹ کو ریل کے ذریعے ملادیا جائے گا۔خنجراب پاس سے شروع ہونے والی سڑک چلاس، بابوسرٹاپ ،کاغان، ناران، بالاکوٹ سے ہوتی ہوئی مانسہرہ پہنچے گی۔اس سڑک کو سارا سال قابل استعمال بنانے کے لئے بابو سرٹاپ کے مقام پر سرنگ بنانے کے احکامات جاری ہوئے ہیں، تاکہ برف باری کے مہینوں میں راستہ بلاک نہ ہونے پائے۔اس سڑک کا فاصلہ مزید کم کرنے کے لئے حویلیاں تا اسلام آباد ایک نئی سڑک بنانے کے احکامات بھی وزیراعظم میاں نوازشریف نے جاری کردیئے ہیں۔
کاشغر، گوادر سڑک مزید کشمیر (آزاد) کی سڑکوں کو بھی بہتر بنانے کے لئے گڑھی حبیب اللہ سے بالاکوٹ اور مظفر آباد کے لئے ایک نئی سڑک بنائی جائے گی۔مظفرآباد اور میرپور کے درمیان بھی ایک نئی سڑک بنائی جائے گی جو ان دونوں شہروں کے فاصلے کو 150کلومیٹر کم کردے گی ،جبکہ ان دونوں شہروں کو دینہ کے مقام پر لاہور، اسلام آباد جی ٹی روڈ سے ملائے گی۔کسی ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے باقی بہت سارے لوازمات کے علاوہ لازم ہے کہ اس ملک کے پاس ذرائع آمد ورفت کے لئے اچھی سڑکیں اور ریل کا نظام موجودہو۔جب ملک کے طول و عرض میں اچھی اور محفوظ سڑکیں اور ریلوے نظام ہو تو ترقی کے راستے خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔ہمارے سامنے اس کی ایک مثال ماضی میں بننے والا لاہور، اسلام آباد موٹروے ہے،جسے موجودہ وزیراعظم ہی نے بنوایا تھا۔بعد میں یہی موٹروے پشاور تک بنی اور اب اس موٹر وے کو برانچ روڈز سے دوسرے کئی شہروں سے منسلک کردیا گیا ہے۔
لاہور اسلام آباد موٹروے بننے سے اگرچہ ان دو شہروں کا فاصلہ 100کلومیٹر بڑھ گیا ہے ، لیکن و قت کا ضیاع کم ہو گیا اور گاڑیوں کی عمروں میں اضافہ ہوا۔اس موٹروے کے بننے سے کتنے لوگوں کو روزگار میسر آیا، اس کا اندازہ اس سڑک پر بننے والے پٹرول پمپ ، ہوٹل اورریسٹورنٹ وغیرہ سے لگایا جا سکتا ہے۔دوسری مثال میں آپ کو جرمنی کی دوں گا۔دوسری جنگ عظےم سے قبل جرمنی کے اس وقت کے حکمران (چانسلر) ہٹلر نے اپنے مشیروں اور اقتصادی ماہرین سے مشورہ کیا کہ جرمنی کو اقتصادی طور پر کم عرصے میں کیسے مضبوط کیا جا سکتا ہے تو تمام ماہرین نے یک زبان ہو کر مشورہ دیا کہ جرمنی میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تا بڑی سڑکوں کا جال بچھا دیا جائے تو بہت جلد ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے اور پھر ہٹلر نے ایسے ہی کیا۔آج بھی جرمنی میں سڑکوں ،ریل کا جال سا بچھا ہوا ہے۔آج انہی سڑکوں ، ریل کے نظام اور بہت ساری دوسری وجوہات کی بناءپر جرمنی مغربی یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی اور سیاسی قوت ہے۔
گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری بننے سے صرف پاکستان اور چین کو بھی نہیں، بلکہ سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں کو بھی بے پناہ فائدہ ہوگا، کیونکہ یہ ریاستیں لینڈ لاکڈ ہیں، انہیں سمندر کا راستہ صرف گوادر پورٹ کے آپریشنل ہونے سے ملے گا۔گوادر کاشغر روٹ بننے سے پاکستان کو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کا نادر موقع نصیب ہوگا، اس روٹ پر اکنامک انڈسٹریل زون بن سکتے ہیں، جو بے روزگاری میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ بے روزگاری کم ہوگی تو خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔خوشحالی ہوگی تو دہشت گردی میں بھی کمی واقع ہوگی۔گوادر بندرگاہ کے اپریشنل ہونے سے جہاں پاکستان کی معیشت ترقی کرے گی،وہاں چین کو اپنے مال کی سپلائی میں 3000کلومیٹر کم فاصلہ کی بناءپر اربوں ڈالر کا منافع ہوگا۔اس روٹ کے آپریشنل ہونے سے ہمارے شمالی علاقہ جات میں ٹورازم انڈسٹری کو ترقی ملے گی۔اس سڑک کے بننے سے گلگت بلتستان، کے پی کے پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے عوام کے لئے ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی۔وزیراعظم پاکستان کا یہ اقدام بہت ہی قابل ستائش ہے، اللہ انہیں یہ کام کرنے کی ہمت دے، کیونکہ یہ کام بہت بڑا اور مشکل ہے، کیونکہ یہ پاکستان کا مستقبل ہے اور پاکستان کا مستقبل بہت ساری قوتوں کو اچھا نہیں لگتا۔میری دعا ہے کہ یہ کام بہت جلد پایہ تکمیل کو پہنچے۔ ٭