زیورخ اور سود

زیورخ اور سود

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زیورخ کا زائر، زیورخ کی بلندی اورعلم کی چوٹی سے مخاطب ہے:”زیورخ میں ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اس جنت نما شہر کی وجہ شہرت سودی بنکاری نظام ہے، ہمارے مذہبی دانشوروں کی منطق کی رو سے تو اب تک اس شہر کا دیوالیہ نکل جانا چاہئے تھا، مگریہ شہر دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے دانشور عوام کو تصویر کا وہ رُخ دکھانا چاہتے ہوں، جس رُخ سے تصویر ہی نہ بنائی گئی ہو!“
زائر کے خیالات میں پائی جانے والی ”فکر کی ندرت“ اور ”دانش کی کثرت“ پر طالب علم حیرت کے سمندرمیں ”گوڈے گوڈے“ ڈوب چکا ہے۔ جناب! اللہ رب العالمین اور رحمت للعالمین( نبی پاک) کی طرف سے سود خوروں کے خلاف اعلان جنگ کا ذکر قرآن میں ہے۔ سود خور پر لعنت حدیث میں مذکورہے، لیکن کسی مخصوص زمانی مدت میں مالی دیوالیہ ہونےکی لازمی سزا کا ذکر طالب علم نے ان دونوں مصادر میں نہیں پایا۔ نجانے آپ نے کس دانشور سے یہ بات سنی، مان لی اوردھواں دار تحریر لکھ ڈالی؟ سود نتائج کے اعتبارسے مالی دیوالیہ کا سبب ہوسکتا ہے، جیسے فضول خرچی، لیکن اسے لازمی سزا قرارنہیں دیا جا سکتا۔ استحصالی سود کی حرمت کے جناب قائل ہیں۔ کیا ماضی و حال کے تمام استحصالی سود خوروں کا مالی دیوالیہ ہونا ثابت ہے؟
زیورخ کا زائر لکھتا ہے: ”شہر کے چپے چپے پر قحبہ خانے ہیں“۔ (اخلاقی دیوالیہ ہونے کا ثبوت توحاضر ہے۔) فرمائیے! یہ رب العالمین کی خوشنودی کا عمل ہے؟ اگر نہیں توپھر زیورخ بہترین شہر کیوں؟ اہل زیورخ رب العالمین کی زمین پرمال ودولت میں لدے پھندے کیوں؟ بہتر و بدتر کا پیمانہ جاننے، ربانی جزا و سزا کا نظام سمجھنے اور قرآن مجید کے مفاہیم کی معرفت کے لئے ”الراسخون فی العلم“ کی قرآنی اصطلاح قابل توجہ ہے۔ دیکھئے آیت 7، سورہ¿ آل عمران۔ اپریل 2012ءمیں موصوف نے لکھا: ”ہم نے اس (قرآن) کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا ہے، تو کوئی ہے جو سوچے اورسمجھے“۔ اس عربی دان سے کوئی پوچھے: ”اے بحرعلم! آپ نے ”ذکر“ کا ترجمہ ”نصیحت“ کی بجائے ”سمجھنے“ کیسے کیا؟ ”شاید کسی انگریزی دان کے مشورے سے، مزید یہ کہ اگراہل زیورخ کا دیوالیہ کیا جانا الٰہی فیصلہ ہے، تو اس کا اولین سبب کفرہونا چاہئے نہ کہ سود خوری! آپ کو ان کے سود کے بارے میں شک ہے کفر کے بارے میں تو نہیں ! تفکرفرمائیے:اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پرہوجائیں گے تو رحمان کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنا دیتے۔۔۔ سورہ¿ الزخرف ، آیات 33 سے 35 )
اب جائزہ لیتے ہیں اس فتوی کا جس کے سہارے ”صاحب“ اڑان پرہیں۔ محمد سید طنطاوی نے1989ءمیں بطورمفتی مصر یہ فتوی دیا۔ 2002ءمیں جب طنطاوی شیخ ازہر تھے تب یہ فتوی دوبارہ جاری ہوا۔ یاد رہے کہ 2002ءمیں طنطاوی شیخ ازہرکی حیثیت سے ادارہ تحقیق اسلامی ازہر (مجمع البحوث العلمی الازہر) کے صدر کے منصب پرفائز تھے۔ پہلی بات: ادارہ تحقیق اسلامی ازہر نے محرم 1385ھ (بمطابق مئی 1965ئ) میں بنک کے سود کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔ ادارہ کے اس اجلاس میں پینتیس مسلم ممالک کے وفود نے شرکت کی تھی۔ ایک سو پچاس کے لگ بھگ فقہا و علماء اس میں شریک تھے۔ گویا یہ عالم اسلام کی نمائندہ کانفرنس تھی۔ 31 اکتوبر 2002ءکو اس ادارہ نے اپنے سابقہ فتوی کو رد کیا اورعالم اسلام کے علماء کے فتوی کے خلاف فتوی دے دیا۔ جیسے 1999ءمیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلٹ بنچ کے سود کے خلاف فیصلہ کو ”نو منتخب کردہ“ بنچ نے 2002ءمیں منسوخ کر دیا۔یہ بھی غور فرمائیے کہ دونوں ممالک میں 2002ءکا سال مشترک ٹھہرا۔

دوسری بات: 2002ءکے فتوی کی مخالفت جامعہ ازہر کے سکالرز فرنٹ ( علمائے ازہر) کے سینکڑوں اساتذہ نے کی، جس کی تفصیل مجتمع میگزین کی 16 نومبر 2002ءکی اشاعت میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ ان میں ڈاکٹرمحمد رافت عثمان (ممبر ادارہ تحقیق اسلامی ازہر) ڈاکٹر حامد جامع (ممبرادارہ وسیکرٹری جامعہ ازہر) اور ڈاکٹر احمد طہ ریان (سیکرٹری شریعت فیکلٹی ازہر) اہم ہیں۔ جامعہ قاہرہ مصر کے ڈاکٹر عبدالحمید الغزالی جو کہ اسلامک اکنامکس کے استاد ہیں نے بھی فتوی کی مخالفت کی۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے بھی فتویٰ سے موافقت نہیں کی۔
تیسری بات: ڈاکٹر محی الدین فیکلٹی آف فقہ (قطریونیورسٹی) کے ڈین اوریورپین مجلس علمی وافتاء کے ممبرہیں۔ آپ فتوی کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”ادارہ نے 1965ءکی طرح عالمی اجلاس کا انعقاد کیوں نہ کیا ؟ ادارہ نے 2002 ءمیں فتویٰ کو ادارہ کی مجلس فقہی کے سامنے پیش کرنے سے گریز کیوں کیا ؟ چوتھی بات: 2002ءمیں منعقدہ اجلاس کے ممبران میں فقہ اسلامی کے دو ماہرین تھے اور دونوں نے فتویٰ کی مخالفت کی۔ فلسفہ کے ماہرین ،غیر متعلقہ متخصصین اور فتویٰ طلب کرنے والے ڈاکٹر حسن عباس زکی کی اجلاس میں بطورممبرموجودگی کی نجانے کیا وجہ تھی ؟ ذہن نشین رہے کہ ڈاکٹر حسن عباس زکی مصر کے وزیرخزانہ (اقتصادی) اور عرب بینکنگ کارپوریشن کے صدررہے ہیں۔

پانچویں بات: یہ فتویٰ او آئی سی کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی (مجمع الفقہ الاسلامی الدولی) کے دسمبر1985ءبمطابق ربیع الثانی 1406ھ کے فتویٰ کے مخالف ہے۔ یاد رہے کہ اس اکیڈمی میں تمام اسلامی ممالک کے نمائندے شامل ہیں۔ چھٹی بات: رابطہ عالم اسلامی کے ذیلی ادارے اسلامی فقہ اکیڈمی (مجمع الفقہی الاسلامی) نے رجب 1406ھ میں جو فتویٰ جاری کیا یہ اس کے بھی مخالف ہے۔ ساتویں بات: یہ فتوی سعودی عرب کی مجلس فتوی کے فتویٰ کے بھی مخالف ہے۔ آٹھویں بات: یہ فتویٰ اسلامی نظریاتی کونسل کی 1969ءکی رپورٹ کے مخالف ہے۔ وفاقی شرعی عدالت 1991ءکے فیصلہ کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپلیٹ بنچ 1999 ءکے فیصلہ کے خلاف ہے۔
آتے ہیں سوال کی عبارت اور فتویٰ کے متن کی طرف۔ سوال وجواب کا عربی ٹیکسٹ اس طالب علم کے سامنے ہے۔ پہلی بات: سوال میں بینکنگ کی اصل حقیقت کوبیان ہی نہیں کیا گیا۔ کلب شراب خانہ کے طور پر معروف ہو، اور حلال مشروبات بھی دستیاب ہوں۔ کلب کا مالک حقیقت کو پردہ میں رکھتے ہوئے سوال پیش کرے: “کلب میں کسٹمرز کو حلال مشروبات فروخت کئے جاتے ہیں، کیا کلب میں سرمایہ کاری جائز ہے“؟ مفتی سوال کے ظاہری الفاظ کو مد نظر رکھتے ہوئے جواب دے: ”جائزہے“۔اس کے بعد شہرت یہ ہو کہ فتویٰ کے مطابق شراب خانہ میں سرمایہ کاری اوراس کا نفع جائز ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال مذکورہ معاملہ میں دکھائی دیتی ہے۔
بنک تجارتی قرض پر نفع، کنزیومرفنانسنگ پر نفع، ہیجنگ، تخلیق زر، انڈیکسیشن، رہن، فارن ایکسچینج ٹریڈنگ، کریڈٹ کارڈ، انٹرسٹ ریٹ، کریڈٹ رسک اور اس جیسے بیسیوں امور کا مرکز ہے، ان سب کا سوال میں کوئی ذکر نہیں۔ سوال میں بنک کو بے ضرر،بے خطا اور معصوم سا کاروباری ادارہ باور کروایا گیا ہے، سو ویسا ہی فتویٰ سامنے آیا۔ دوسری بات:جناب! اگر آپ ادارہ تحقیق اسلامی ازہر کے پہلے اوردوسرے دونوں فتاویٰ کوحرفا حرفا ”ڈسکس“ کرنا چاہتے ہیں تویہ طالب عالم حاضرہے۔ یوں ربا کی حقیقت، ربا الفضل وربا النسی میں فرق اورتجارت کی جائز و ناجائز صورتیں وغیرہ، سب نکھر کر سامنے ہو گا۔ صاحب! اگر ربا کی تعریف پراتفاق نہیں تونمازوروزہ ، چوری وشراب نوشی کی تعریف پر بھی اتفاق نہیں،بلکہ دلچسپ بات یہ کہ ”تعریف“ کی تعریف اور جناب کی تعریف پربھی اتفاق نہیں! مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ ان تمام قابل ذکرفتاوی کے باوجود جناب وہیں اٹکے رہیں گے، جہاں اب اٹکے ہیں۔ کاش میرا گمان غلط ثابت ہو۔
رہا وہ نکتہ جوایک اورمعروف کالم نویس نے ذکر کیا کہ سود خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پرباطل قراردیا گیا۔ رجل رشید اوردیگرکی خدمت میں عرض ہے۔ رحمت للعالمین ( نبی کریم ) حیات مبارکہ کے آخری سال حج کے لئے تشریف لے گئے۔ بتائیے کیا ہرمسلم زندگی کے آخری سال حج کو روانہ ہوئے اور آخری سال کا اندازہ کیسے ہوا۔ نماز، روزہ ،حرمت شراب وغیرہ کے احکامات تدریجانازل ہوے۔ کیا ان کا نفاذ ہرحکومت کے پانچ سالہ دور میں ازسرنو ہوگا، اور تدریجا ہوگا؟

مزید :

کالم -