ریاست کے خلاف بغاوت
جس رات ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنے کے شرکاءکو آرمی چیف کے بلاوے اور ان کے ثالث اور ضامن بننے کا مژدہ سنایا تو مَیں ان کے پیچھے کھڑے ایک ”صاحب“ کو پہچاننے کی کوشش کرتا رہا، یہ لندن میں ہوتے ہیں۔ ایک معروف ”درگاہ“ کے خانوادے کے ساتھ ان کے بہت گہرے مراسم ہیں یہ ”صاحب“ اس خانوادے کے زیر اہتمام چلنے والے ایک بہت بڑے ”خیراتی ادارے“ کے کرتا دھرتا ہیں۔ یہ ادارہ پاکستان میں ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی خیراتی خدمت کا کام کرتا ہے۔ ان صاحب کو دھرنے میں اور پھر سٹیج پر ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کھڑے دیکھ کر مجھے خاصی حیرانی ہوئی اور مجھے مزید حیرانی اس وقت ہوئی، جب یہ ”صاحب“ وقفے وقفے سے ڈاکٹر طاہر القادری کے کان میں کوئی ”اطلاع“ دیتے نظر آئے، اور پھر ڈاکٹر طاہر القادری جب آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کے لئے روانہ ہوئے تو یہ”صاحب“ بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی گاڑی میں ان کے ساتھ تھے۔ خیر ”باخبر“ لوگوں کا اصرار تھا کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کا پلان لندن میں بنایا گیا تھا اور اسے لندن پلان کا نام دیا تھا۔
اس لندن پلان کو تشکیل دیتے وقت ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے درمیان ملاقات بھی ہوئی تھی اور دونوں رہنماﺅں کے درمیان ایک بات پر اتفاق ہوا تھا کہ وہ بظاہر علیحدہ علیحدہ مگر ایک ہی ”ایجنڈے“ کے ساتھ آگے بڑھیں گے، دونوں رہنماﺅں کا خیال تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ”مریدین“ اور عمران خان کے ”جانباز“ سڑکوں پر نکل آئے تو نواز شریف اپنی کرسی چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے، ان دونوں رہنماﺅں کو ایم کیو ایم کی طرف سے امید دلائی گئی تھی خاص طور پر ڈاکٹر طاہر القادری کو کہ کسی بھی مشکل وقت میں ایم کیو ایم ان کی مدد کے لئے ان کے ساتھ ہو گی۔14اگست کو حکومت نے عمران خان کو اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی، مگر عوامی تحریک کو اسلام آباد جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو امید تھی کہ عمران خان اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے، ان کی مدد کے لئے پہنچیں گے، مگر عمران خان اسلام آباد روانہ ہو گئے۔
اس مشکل صورت حال میں ڈاکٹر طاہر القادری نے ایم کیو ایم سے رابطہ کیا اور الطاف حسین کی درخواست پر حکومت نے ڈاکٹر طاہر القادری کو اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی۔ دونوں جماعتوں کے قائدین نے تحریری طور پر حکومت سے وعدہ کیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر ”ریڈ زون“ کے اندر داخل نہیں ہوں گے، مگر اسلام آباد پہنچ کر ایک نئی سیاسی صورت حال پیدا ہو گئی۔ عمران خان کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ لاکھوں لوگ ہوں گے، مگر جب انہیں احساس ہوا کہ لوگ ان کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ رابطہ بڑھایا اور اپنی سیاست ڈاکٹر طاہر القادری کے تابع کر دی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی عمران خان کی ”سیاسی مجبوریوں“ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں عملاً اپنا پابند بنا دیا۔ ریڈ زون کو عبور کرنے کا فیصلہ بھی ڈاکٹر طاہر القادری کا تھا، مگر پہل عمران خان نے کی۔
پاکستان کے ناظرین سُن اور دیکھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان آئین ، قانون اور تمام سیاسی اخلاقیات کو اپنے پاﺅں تلے روندتے ہوئے پارلیمنٹ کے احاطے میں داخل ہوئے اور ایوان وزیراعظم پر چڑھائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عمران خان اس وقت ایک سیاسی لیڈر سے زیادہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ”بچہ جمورا“ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کل رات جب ڈاکٹر طاہر القادری دھرنے کے شرکاءکو ایوان وزیراعظم پر چڑھائی کرنے کا حکم دے رہے تھے، اس وقت تمام ٹی وی چینل تحریک انصاف کے مذاکراتی رہنماﺅں کی یہ گفتگو سُنا رہے تھے کہ حکومت کے ساتھ ان کے مذاکرات جاری ہیں اور کل پھر ملاقات ہو گی.... ان رہنماﺅں کے ان بیانات سے تمام جمہوریت پسند خوش تھے کہ ایک سیاسی ماحول کے اندر رہتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو یہ ایک خوش آئند بات ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری جو سیاسی سے زیادہ ”ذاتی ایجنڈے“ کے ساتھ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ انہیں مسائل کا حل درکار نہیں، بلکہ وہ نوازشریف کی اقتدار سے رخصتی اور پھر ”رہبر پاکستان“ کے طور پر انہیں سر عام پھانسیاں دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایوان وزیر اعظم پر چڑھائی کا اعلان کر دیا۔ ادھر پورے پاکستان کے عوام نے عمران خان کے کنٹینرز پر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جاوید ہاشمی انہیںایوان وزیراعظم پر چڑھائی سے روکنے کی کوشش کی کر رہے ہیں، مگر شیخ رشید عمران خان کے بازو کو پکڑ کر انہیں اعلان کرنے پر زور دیتے رہے۔ اس مرحلے پر تحریک انصاف کے چند کارکنوں نے جاوید ہاشمی کو عمران سے دور کر دیا.... اور شیخ رشید کا رویہ یہ تھا کہ جیسے وہ عمران خان کو کہہ رہے ہوں کہ جاوید ہاشمی کو چھوڑ دیں اس کا دماغ کام نہیں کرتا.... عمران خان جب ایوان وزیراعظم پر چڑھائی کا اعلان کر رہے تھے تو ان کے کنٹینر پر کوئی قابل ذکر رہنما موجود نہیں تھا۔
ان دونوں رہنماﺅں ڈکٹرطاہر القادری اور عمران خان نے ایوان وزیراعظم پر چڑھائی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ کارکنوں کے آگے ہوں گے، اور کارکن کسی بھی قسم کی توڑ پھوڑ نہیں کریں گے، مگر دونوں رہنماءاپنی اپنی جگہ پر اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے رہے، اور ان کے کارکن ایوان وزیراعظم کی طرف نکل گئے.... ان کارکنوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ پُرامن اور نہتے لوگ ہیں، مگر جب میدان لگا تو ان پُرامن اور نہتے کارکنوں نے ہتھوڑوں، ڈنڈوں، کلہاڑیوں، ہتھوڑیوں کے ساتھ پولیس کو للکارتے ہوئے پارلیمینٹ پر دھاوا بول دیا.... ہم پولیس پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ لوگوں پر تشدد کرتی ہے یہ بات درست ہے کہ پولیس کا رویہ ٹھیک نہیں ہے، مگر عجیب بات ہے کہ جب یہ پولیس ”ریاست“ کے تحفظ کے لئے ایکشن میں آئے تو ہم اسے ظالم قرار دے دیتے ہیں اور اگر یہی پولیس ریاست کے باغیوں کو آگے جانے کا رستہ دے تو پھر اعتراض کیا جاتا ہے کہ پولیس ”بزدل“ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پولیس کیا کرے، کیا وہ ریاستی اداروں کو لوٹنے، آگ لگانے، اور تباہ و برباد کرنے کی اجازت دے دے، سیاسی کارکنوں پر تشدد نہیں ہونا چاہئے، مگر کیا ریاستی اداروں پر قبضہ کرنے والے سیاسی کارکن کہلوا سکتے ہیں، حکومت ریاست کو بچانے کی ذمہ دار ہے، ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان اس وقت نواز شریف، کی حکومت پر نہیں، ریاست پر حملے کر رہے ہیں، ریاست پر حملہ بغاوت ہے اور ریاست کو باغیوں کے ساتھ باغیوں کے لب و لہجے میں بات کرنی چاہئے، اعتزاز احسن نے بالکل درست کہا ہے کہ نوازشریف کو ان باغیوں کے خوف سے استعفیٰ نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی ان کا کوئی مطالبہ ماننا چاہئے۔ عاصمہ جہانگیر نے بھی گزشتہ رات ایک نیوز چینل پر روتے ہوئے کہا دونوں لیڈر خون اور آگ کا کھیل کھیل رہے ہیں، یہ اپنے انقلاب کو لانے کے لئے، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا خون چاہتے ہیں۔ حکومت انہیں مزید لاشیں دینے سے گریز کرے، آخر میں گزارش ہے کہ پولیس میڈیا کے لوگوں پر تشدد سے باز رہے۔ یہ لوگ اپنے فرائض کے لئے میدان میں مصروف ہیںان کا کسی پارٹی یا گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہ اپنے اپنے اداروں کی پالیسی بناتے ہیں۔