ذرا ’پاکستان‘ تک
اپنی طرز کے جداگانہ ہٹیلے رہنما شورش مرحوم کی ایک کٹیلی کتاب کا نام ہے ، ’’ اس بازار میں ۔‘‘ شورش کو اِس کتاب کے لئے شاہی مسجدکے سائے تلے خوابیدہ ’اُس بازارمیں‘ جاناپڑا اور صد شکر کہ جیسے گئے تھے ویسے ہی آپ لوٹ بھی آئے ، ایمان و عمل کے اس پل صراط سے صحیح سالم گزر آنے کی وجہ بھی شورش صاحب نے خودہی لکھ دی ۔ فرمایا، میری محرومی ہی یہاں میرے کا م آئی۔ اگر کسی کی اچھلتی دولت اسے یہاں ڈبوتی ہے تو میری سسکتی عسرت ہی مجھے یہاں سے بچا لائی۔فی الاصل خامی ہی کبھی خوبی اور خوبی بھی کبھی خامی بن جاتی ہے ۔ کچھ ایسی ہی اس خاکسار پر بھی بیتی۔ نصابی کتاب کے بجائے غیرنصابی مطالعہ کی عادت گویااس عاجز میں مینوفیکچرنگ فالٹ یا built in خامی تھی ۔ سکول میں یہ ہوا کہ اردو پڑھنے کی لت نے جلد ہی سب درجوں کی اردوکی نصابی کتب پڑھوا ڈالیں ۔اس کا نقصان مگر یہ ہوا کہ اب نصاب پڑھنا مشکل ہو گیا۔عذر خواہ ہوں کہ مشکل کے لفظ سے یہاں مجھے کچھ اور یاد آگیا اور کچھ اورسے قاسمی صاحب ۔کسی نے پوچھا ، اگر میاں جوان ہو اور بیگم ریٹائرڈ تو اس مشکل کا حل ؟ فرمایا:’’بیرونی امداد!‘‘ تو اس خامی کے خمیر سے اٹھی مشکل کا ہومیوپیتھک حل میں نے بھی خارجی مطالعہ نامی’’بیرونی امداد‘‘ میں ڈھونڈلیا۔ گو ابتدا میں ڈرتے ڈرتے مگر جب دیکھا کہ علاج ہومیوپیتھک ہی سہی مگر ناصرف اس طریقۂ علاج سے استاد جی کے ڈنڈے سے لاحق ہوتے مرض سے بچ نکلتاہوں بلکہ اساتذہ میں قابلِ تذکرہ و تحسین بھی ٹھہرتاہوں تو تمام دیگرعلاج منسوخ کرکے اسی ایک ہومیو پیتھی پر صاد کر لیا ۔مہربا ن اساتذہ میرا جوابی پرچہ کلاس کے انچارج صاحب سے لے کے پڑھتے اور کہتے یہ بچہ وہ نہیں لکھتا جو گائیڈ میں لکھا ہے۔ یوں جب میری نصابی کتاب نہ پڑھنے کی یہ خامی خوبی سمجھی جانے لگی تو شہ پا کر میں اور شیرہو گیا۔ آج میرا احساس یہ ہے کہ سکول سے یونیورسٹی تک جو پڑھا گو اس کی ڈگری بھی پڑی ہے مگر جو اس سے بچ کے پڑھا ،اسی نے آج تک ڈگری الماری سے نکالنے نہیں دی ۔
سکول مڈل تھااوراس کے بعد کی اردوکی کتابیں گاؤں میں دستیاب نہ تھیں ، چنانچہ جلد ہی عمرو عیار اور ٹارزن سے ہوتی ہوئی بات جاسوسی اور سسپنس ڈائجسٹ تک جا پہنچی ۔ ایک دن بیگ میں ڈال کے ڈائجسٹ سکول بھی لے گیا۔خالی پیریڈ کے دوران ڈائجسٹ پڑھنے کی خبر کسی نے ہیڈ ماسڑ صاحب کو کردی ۔ پہلا ہی موقع تھا سو اناڑی پن نے ہیڈ ماسٹر صاحب کے حضور مجرمانہ پیشی ڈلوا دی ۔ دفتر کو محشر بنائے بیٹھے آنجناب جاننا چاہتے تھے کہ میں اس میں سے کیا پڑھتا تھا۔بہت کوشش کی مگر گھبراہٹ میں وہ صفحہ نہ ملا ۔ خیریہ مشکل رخسار پر پڑتے ہیڈ ماسٹر صاحب کے فولادی تھپڑ نے آسان کر دی۔ اس دن یہ سیکھا کہ کچھ چیزیں چھپا کر پڑھنے کی بھی ہوتی ہیں۔الحمدللہ پھر اس سلسلے میں کبھی مار نہیں کھائی ۔پہلا رسالہ پیغام ڈائجسٹ سکول کے ہم تین ساتھیوں نے پیسے ڈال کے لگوا یااور پہلی کتاب شورش کی فنِ خطابت اور الجہاد و الجہاد خریدی ۔الجہاد والجہاد 65ء میں لکھے گئے موصوف کے ملی نغموں کے جنوں خیزاور آتش فشاں جذبات کی شعری داستان تھی۔ یہ خریدنے کی بات ہے ورنہ گاؤں کی مسجد کے پہلومیں واقع ایک کتاب دوست شخصیت عبدالوحید صاحب کے دارالمطالعہ سے شورش ہی نہیں ،بہتیرے دوسرے مصنفوں کی کتابیں بھی چاٹ ڈالیں ۔ اتفاق سے یہاں مذہبی کتابوں کے ساتھ ساتھ ادبی کتابیں بھی حسبِ ذائقہ و ضرورت وافر مل گئیں۔ پہلا اخبار ’دن‘ تھا اورپورا دن بھی بھلاکب تھا ۔ اس عاجز کے لئے توبس ایڈیٹوریل کے ایک صفحے کا نام ہی اخبارہوتا تھا۔ تو ہوا یہ کہ دن نکلتے ہی اس عاجزکا شعور حافظ شفیق الرحمٰن صاحب کے زورِ قلم نے اغوا کر لیا ۔ لفظوں کی وہ ژالہ باری ہوتی کہ بن سمجھے بھی محض ردھم ہی لطف دیتا ۔ بلکہ جہاں سمجھ کم آتی وہاں لطف کچھ اوربڑھ جاتا۔ خود تو ہمت کم تھی مگر ایک ساتھی ڈھونڈ نکالا تھا جو چائے والے کی نظر بچا کر میرے لئے دن کا ایڈیٹوریل پیج اڑا لاتاتھا۔پڑھنے کے بعد بھی کالم سے میں بے وفائی نہ کرسکتاسو کاٹ کے تراشہ سنبھال لیتا۔ سلطنتِ کالم نگاری کے بھٹو ،حسن نثار کی’ بچپن بھومی‘ میاں چنوں کے چوک میں ایک دن اخبار فروش سے ’دن‘ طلب کیاتووہ کہنے لگا، دوپہر ہو چلی اور ابھی تک آپ کودن کی تلاش ہے؟ دراصل ’دن‘ اس کے پاس نہیں تھا۔ دن نہیں تھا تو گویا آئینہ خانہ کالم نہیں تھا اور یہ نہیں تھا تو میرے لئے اب کوئی اخبار اخبار ہی نہیں تھا۔ اخبار اور کالم کی یہ چاٹ پھر ایسی لگی کہ کئی صاحبِ اسلوب کالم نگار رزق و ذوق کا حصہ اورزندگی کا دل پسند قصہ ہو گئے۔ جاوید چودھری ، حسن نثار،عبد القادر حسن،سرِ راہے، عطاالحق قاسمی پھر عرفان صدیقی ، بعد ازاں عبداللہ طارق سہیل ، عامر ہاشم خاکوانی ،سعداللہ جان برق اور خورشید ندیم سب میرے قضا نہ ہونے والے ناشتے کا نام ہوگئے۔ مقامی دارالمطالعہ سے بعد میں ہارون الرشید صاحب کے کالموں کا انتخاب ’روشنی اے روشنی!‘ پڑھی تو بس یوں سمجھئے لٹ کے رہ گیا۔پھرایک زمانہ مجنوں ہوکے اس لیلائے ’ناتمام‘ کوڈھونڈا کیا۔روزانہ ایک کالم سے بھلا کیا بنتا،ا نٹرنیٹ پر اخبار کے آرکائیو سے جو میسر آسکا،وہ سب بھی مالِ مفت کی طرح اڑا لیا۔ذوقِ طلب کا کوئی دریا بپھرجائے تو پھر محض کالم کا کنارہ اسے سہار اکیونکردے سکتاہے ؟ چنانچہ اردو لڑیچر کا جتنا اورجوحصہ بھی ہاتھ لگا ،مقصدِ زندگی ، محبوب کا خط یا ثوابِ دارین سمجھ کے پڑھ ڈالا۔ اتنا اوریوں کہ اب توتمیز ہی مشکل ہے کہ زندگی میں جھوٹ زیادہ بولایا کتابیں زیادہ پڑھیں؟ (معلوم نہیں کسی چیز کے وفور کو جھوٹ کے مقابل رکھ کرہی کیوں تولا جاتاہے)۔یہ اتفاق تھا یا کیا تھاکہ حافظ شفیق الرحمٰن کے کالم سے لے کر شورش کی کتاب تک اور احسان دانش کی ’جہانِ دانش‘ سے ابوالکلام کی’ غبارِ خاطر‘ اور ’تذکرہ‘ تک میرے مطالعہ کو بغیر مکھن نکالے والی گاڑھی لسی کا سا مواد ہی میسر آیا۔پھر یوں ہوا کہ ادنیٰ نثر پڑھنے کی کوشش کبھی کامیاب نہ ہو سکی۔ فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں ایڈمٹ ایک دوست کے ہم کچھ کلاس فیلواٹینڈنٹ تھے۔ ا دویات سے رچی بسی اس فضا میں بھی میں ابوالکلام کو ساتھ گھسیٹ لایاتھا۔ پرنسپل یاسین ظفر صاحب عیادت کوآئے تو میرے ہاتھ میں ’تذکرہ ‘دیکھ کر فرمایا ، یہ کتاب سمجھ بھی آتی ہے ؟ تب مجھے یہ سوال سمجھ میں نہیں آسکا تھا۔دراصل جو کتابیں میں نے عیاشی سمجھ کے پڑھ لی تھیں یہ تو بعد میں پتا چلا کہ ایم اے والوں کو زبردستی یہی کتب بطور سزاپڑھائی جاتی ہیں ۔ عادت ہوچکی بے دھیانی سے دئیے بی اے کے امتحان کا رزلٹ آیاتوبے حد افسوس ہوا، دراصل یونیورسٹی میں تیسری سے گلے ملتی چوتھی پوزیشن آگئی تھی ۔ افسوس یہ ہواکہ اگر پوزیشن سے یوں بال بال بچنے کا خدشہ کچھ پہلے ہی محسوس کرلیا ہوتاتو ذرا سا دھیان ہی دے لیا ہوتا۔ ا یم اے او کالج لاہور میں ایم اے انگلش کے سالِ اول کے داخلے جا چکے تومیں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اگراس کلاس سے کچھ طالب علم پاس ہو بھی جاتے ہیں تو اس سلسلے میں اساتذہ کوموردِ الزام ٹھہراناہرگزقرینِ انصاف نہ ہوگا، چنانچہ بہاولپوریونیورسٹی میں ایم اے اردو کا پرائیویٹ داخلہ بھج دیا، یوں سارا سال بیکن اور ہارڈی وغیرہ پڑھنے کے بعد میر و غالب کو مشکل میں ڈال کے میں ایم اے اردو میں کامیاب ہو گیا۔ پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان سے لے کر دہلی تک اپنی شاعری کی خوشبوپھیلادینے والے میرے ہم جماعت وشاعرِ شمال زاہد سعید صاحب انگلش کا نتیجہ آنے کے بعد ناصر کاظمی صاحب کے شاعر بیٹے اورجواز جعفری کے حضور زانوئے تلمذیا تلذذطے کرتے رہے ۔ جہیز میں ساتھ آئے بچوں کی طرح ،لکھنے کی علت بھی پڑھنے کے ساتھ ہی چلی آئی تھی۔
پرائمری میں گھر کی دیواروں کے ساتھ ساتھ کلاس کے تمام کام چور ہم جماعتوں کی(جماعتیو ں کی نہیں!) تختیاں لکھیں۔اس سے خط بھی اچھا ہو گیا۔ اتنا کہ بعد کے میرے ایک دینی تعلیمی ادارے نے اس اچھے خط سے ایوبیہ کی پرفضا وادی میں وال چاکنگ کا فائدہ بھی اٹھایا ۔ ایک عرصے تک وہاں کہسار کے سینے پر کسی نیازی کی طرح سرو قدیاسرحدِ وطن پر کسی مجاہد کی طرح چوکس کھڑے شاداب درخت ،جھک جھک کر اس اجنبی کا نوشتۂ دیوار پڑھنے کے لئے حفظ کے بچے کی طرح جھولتے رہے تاآنکہ وہ مدھم ہوکے مٹ گیا اور تب تک اخبار اس عاجز کو اس کے دل پسند صفحے پر جگہ دے چکا تھا۔ پرائمری ہی میں اس طالب علم سے لوگوں نے ایسے مضامین کے بھی خط لکھوا ئے کہ جو اس نے آج تک اپنے حق میں بھی کسی کے لیے نہیں لکھے۔ میٹرک کے بعد ڈائری لکھی اوربساط بھر ادبی اور فکاہی انداز میں روزانہ کی روداد لکھی ۔یوں کہ ہوسٹل فیلو الماری سے ڈائری اڑا کے پڑھ لیتے اور یوں میر ا راز اخبار کے صفحۂ اول پر آیااشتہار ہوجاتا۔میڑک میں ایک مقابلہ مضمون نویسی میں مضمون بھیجا۔ مضمون تین زاویوں پر تھا ۔میں نے ایک ہی پہلو پرزورِ فکر سے زیادہ زور قلم صرف کر دیا تھا۔ انعام تو نہ ملا مگر ممتحن نے لکھا’’ مضمون خوب ہے بشرطیکہ طالب علم نے خود لکھا ہو۔‘‘یعنی ممتحن صاحب کو اندیشہ تھا کہ میں نے بصد احتیاط یہ مضمون کہیں سے اڑا لیا ہے۔شک کی اس زد سے میں ابھی پرلے پچھلے دن تک نہیں نکل سکا تھا۔نئی بات میں چھپنے کی راہ ملی تو ایک کالم پر ذوالقرنین صاحب نے حافظ شفیق الرحمٰن صاحب سے یہ کہا:’’ ناممکن ! یہ کسی اور کی تحریر ہو ہی نہیں سکتی ، یہ تو ابوالکلام آزاد کی تحریر ہے۔‘‘ حافظ صاحب نے فرمایا، جہاں تک میں جانتاہوں ، سرقہ تو وہ نہیں کر سکتا۔ (گویا موصوف اس فقیر کو واقعی ہی نہیں جانتے!)۔ (جاری)