وہ پاکستانی جس نے 10ہزار روپے کودیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں کے کاروبارمیں بدل ڈالا، تمام پاکستانیوں کیلئے مثال بن گیا
اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک)یہ بات ماضی قریب کی ہے جب تین بچوں کے باپ گووند کا شماربھی پاکستان کے ان لاکھوں لوگوں میں ہوتا تھا جو اپنی زندگی غربت میں گزار رہے تھے۔ صوبہ سندھ کے شہر بدین کے اس رہائشی کی زندگی اپنے خاندان کوفقط تین وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کی جدوجہد میں ہی گزر رہی تھی۔ گووند کی زندگی میںپیٹ کی آگ کو بجھانے کے لئے کوششوں کو کرنا کوئی نئی بات نہ تھی۔ اس نے بچپن ہی میں غربت کے ساتھ آنے والی مایوسی اور جدوجہدکے سبق کوسیکھ لیا تھا لیکن معاشی مشکلات اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے سکول ٹیچر بننے کا خواب بھی پورا نہ ہوسکا۔ وہ اس بات سے باخوبی واقف تھا کہ اگر اس نے جلد کوئی صحیح قدم نہ اٹھایا اوراسکے بچوں کو تعلیم نہ ملی تو وہ بھی ہمیشہ غربت کی چکی میں پستے رہیں گے ۔ گووند کے والد کے پاس چپل بنانے کے ہنر کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی لیکن پھر اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے خوشحالی بینک نے USAIDکے تحت اُنہیں 10ہزار روپے قرض دیا اور پھر بروقت ادائیگیوں کی وجہ سے یہ رقم بڑھتی گئی اور سوالاکھ روپے تک قرض ملا لیکن آج وہ خود اپنے کاروبار کامالک ہے اور کراچی تک کاروبار کا دائرہ پھیل چکاہے ۔
حال ہی میں شائع ہونے والیMultidimensional Poverty Index (MPI)1 رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا انتالیس فیصد مختلف اقسام کی غربت میں مبتلا ہے۔Multidimensional Poverty ایک نیا تصور ہے جسے 2010ءمیں متعارف کروایا گیا جو کہ مختلف محرکات کی روشنی میں آمدنی کی بنیاد پر بنی فہرستوں سے ہٹ کر غربت کا تعین کرتی ہے جس میں صحت کی ناکافی سہولیات، تعلیم کی کمی، غیر معیاری زندگی، کم آمدنی (جوکہ بہت سے اہم وجوہات میں سے ایک ہے)، اختیارات کی کمی، غیرمعیاری کام اورتشدد کے خوف جیسے عوامل شامل ہیں۔ ملک کی آبادی کا پچاس فیصدسے زیادہ افراد جو کہ مختلف قسم کی غربت کا شکار ہیںدیہی علاقوں میں مقیم ہیں۔حالانکہ بہت سے اقدامات کی بدولت پاکستان میں غربت کی سطح میں کمی لائی گئی ہے مگر یہ اب بھی ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے جوکہ سماجی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
”میرے والدنے پوری زندگی سخت محنت کی۔ اس نے خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنی بھرپور کوششیں کی۔ گوکہ انھوں نے پینتیس سال ایک جوتے بنانے والی دکان پر کام کیا مگر اپنی تنخواہ میں سے کچھ بھی اپنے یا اپنے خاندان کے لئے بچا نہ سکے۔،، گووند نے اپنے ماضی کے جھروکے میں جھانکتے ہوئے بتایا۔
”جب ہم اپنے گاﺅں سے دوسری جگہ منتقل ہوئے تو ہمارے پاس صرف ستر روپے اور والدکے جوتے بنانے کا ہنر ساتھ تھا۔ شروع شروع میں ہمارے کچھ رشتے داروں نے ہماری مدد کی لیکن وہ بھی غریب لوگ تھے۔یہ وہ وقت تھا جب مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اب مجھے کچھ کرنا ہے اور پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں چپل بنانے کا اپنا کاروبار شروع کرونگا اور اپنے والد کو مدد کے لئے آمادہ کیا۔میرے اس ارادے میں سب سے بڑی رکاوٹ سرمایہ کا نہ ہونا تھا۔،، اس نے مسکراتے ہوئے اپنے ماضی کے ناممکن نظر آنے والے منصوبے کا ذکر کیا۔
2007ءمیں خوشحالی بینک کے ایک قرضے کے حصول میں معاونت کرنے والا آفیسر گووند سے ملا جسے اپنے جوتے بنانے کے کاروبار میں کئے محنت کا پھل ملنے والا تھا۔ ایک امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی(USAID) کے شراکتدار نے US-Pakistan Partnership for Access to Credit, Khushhali Bank میں فنڈز مہیا کیں جو کہ Pakistan's Poverty Reduction Strategy اور اس کے Microfinance Sector Development Program کا حصہ ہے۔مائیکرو فنانس پروگرام نے غربت کے نچلے حصے میں پھنسے آبادی کی معاشی اور اقتصادی ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا اور یہ سب ممکن ہواکاروباری حضرات کو چھوٹے پیمانے پر دی جانے والی قرضہ کی سہولیات سے جو کہ کمرشل بینکنگ کے تحت کافی حد تک ناممکن سمجھا جاتا ہے۔قرضہ کی سہولت تک رسائی کے بغیرگووند اور اس جیسے دوسرے افراد کے لئے منافع بخش کاروبار کا کرنا ناممکن ہے۔
روائیتی طور پر کمرشل بینکس چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں سرمایہ کاری کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔ کمرشل بینکاری کی محدود شرائط سے مخصوص قسم کی سرمایہ کاری کے ذرائع کوہی فائدہ پہنچتا ہے جوکہ مائیکرو اور چھوٹے کاروباری افراد کے لئے منافع بخش ثابت نہیں ہوتا۔یہ بینکاری قرضہ لینے اور دینے کے لئے زیادہ تر غیر رسمی طریقیوں کا استعمال کرتی ہیں۔ پاکستان میں 3.2 ملین کاروبار میں سے تقریبا ً 3ملین کا تعلق مائیکرو اور چھوٹے درجے کے کاروباری اداروںسے ہے جوکہ مجموعی معاشی پیداوار(GDP) کا 30 فیصد سے بھی زیادہ حصہ پیدا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے کاروبار کے لئے قرضہ تک رسائی نہ ہوناملک کی معاشی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 80 فیصد پاکستانی آبادی کوکمرشل بینکوں میں مالیاتی سہولیات ہی میسرنہیں ہیں۔مائیکرو فنانس کے سوچے سمجھے حکمت عملی کے تحت اس بات کی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ لاکھوں لوگوں کو ایسے مواقع مہیا کی جائیں تا کہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکیں اور ترقی کر سکیں۔
مائیکرو کریڈٹ سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہر ایک کو اپنے ذہن میں کچھ چیلنجز بھی رکھنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر لوگ جو قرضہ کی سہولت حاصل کرنا چاہتے ہیں دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جن میں سے بعض تک پہنچنا بھی تقریباً ناممکن ہے۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کا اپنا مستقل رہائشی پتہ بھی نہیں ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر یا تو غیر تعلیم یافتہ ہیں یا صرف تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا جانتے ہیں۔کیونکہ مائیکرو فنانس کے اداروں کا مقصد منافع حاصل کرنا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ادارے قرض خواہوں کی مدد کرنے کے لئے اضافی اخراجات کو بھی برداشت کرلیتے ہیں۔
خوشحالی بینک نے گووند ، جو کہ پہلی بار قرض کی سہولت حاصل کر رہا تھا، کو اس کے جوتے کے کاروبارکو شروع کرنے کے لئے دس ہزار روپے قرض دیئے۔ اس سہولت کے بدولت اسے اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے کا بہترین موقع ملا۔
”اب ہم اپنے کاروبار کے خود مالک ہیں۔ ماضی میں ہم صرف اتنا ہی کما پاتے تھے کہ بڑی مشکل سے ایک ہفتہ تک گزارا کر سکیں۔ قرضے سے حاصل ہونے والی رقم لے کر میں حیدرآباد گیا تاکہ روزانہ ایک سے زیادہ جوڑے جوتے بنانے کا سامان خرید سکوں ۔ میں نے ایک مشین بھی خرید ی اور دو ملازم بھی رکھے اورجوتے کے دس جوڑے تیار کر لئے اور ہر جوڑے کو سو روپے میں بیچے۔ گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کے بعد بھی میرے پاس پانچ سو روپے بچ گئے جس سے میں نے چمڑا خرید کراپنے کاروبار میں مزید سرمایہ کاری کی،، گووند نے کہا۔
USAID جس کی لوکل بینکوں میں شراکتداری ہے نے تقریباً ساٹھ ملین ڈالرز مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو قرض کی سہولت فراہم کرنے کے لئے فنڈز دیئے۔ پچھلے تین سالوں میں USAID کے مختلف پروگراموں کی بدولت 33000لوگوں کو نوکریاں ملی اس کے ساتھ ساتھ 78000مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو چار چاند لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔
”پہلی مرتبہ خوشحالی بینک سے مجھے فقط دس ہزار روپے ملے تھے۔وقت پر قرضہ کی ادائیگی نے میری بینک کے ساتھ اچھے روابط استوار کر دیئے تھے۔ جس کی وجہ سے حال ہی میں بینک نے میرے قرضے کی حد کو بڑھا کر سوالاکھ کر دی،، گووند نے کہا۔ ”اب میرا کاروبار بہت اچھا چل رہا ہے۔اب میں نہ صرف اپنے علاقے بلکہ کراچی کی مارکیٹوںمیں بھی اپنے چپلوں کو فروخت کر رہا ہوں جس سے مالی طور پر مجھے بہت ترقی مل رہی ہے۔کیا ہوا اگرمیں تعلیم حاصل نہ کر پایا۔ میرے بچے سکول جا رہے ہیں۔ میری بیٹی ساتوں اور بیٹا دوسری جماعت میں پڑھ رہے ہیں۔ میرا تیسر ا بچہ جلد ہی ایک سال کا ہو جائے گا میں اسے بھی اسکول میں داخل کرواﺅں گا۔ میرا خواب ہے کہ میرے بچے اعلی تعلیم حاصل کریں،، اس نے مسکراتے ہوئے اپنی بات کو مکمل کیا۔
گووند ایک مثال ہے کہ اگر محنت کش پاکستانیوں کو کاروبار شروع کرنے کی سہولیات فراہم کی جائیں تو وہ خودغربت سے چھٹکارہ پالیں گے۔صحیح مددکی بدولت نہ صرف فرد واحد بلکہ پورا خاندان اپنا مستقبل سنوار سکتا ہے۔ گو کہ غربت ابھی بھی ملک میں اہم سماجی مسئلہ ہے لیکن گووند کی کہانی اس کا ممکنہ حل ہے۔