جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر76

Sep 01, 2017 | 03:13 PM

خون میری رگوں میں ٹھوکریں مارنے لگا۔ سوچ سوچ کر دماغ شل ہوگیا۔ اچانک مجھے خیال آیا
’’کیوں نہ رادھا سے اس مسئلے پر بات کی جائے‘‘ لیکن صائمہ کے ہوتے ہوئے اس سے ملنا ممکن نہ تھا۔ اور صائمہ کو تنہا چھوڑکرباہر جانا بھی نہ چاہتا تھا کیا خبر وہ حرامزادہ پھر آجاتا۔
’’کالی داس‘‘ میرے ذہن میں بجلی سے چمکی۔ ہو سکتا ہے وہ بدبخت اپنا بدلہ لینے کے یے میرا ہمشکل بن کر آگیا ہو،صائمہ کے سونے کے بعد ضرور رادھا کو بلاؤں گا وہی اس گتھی کو سلجھا سکتی ہے۔‘‘ یہ سوچ کر مجھے کچھ اطمینان ہوا۔
’’فاروق ! ما شااللہ آپ خود بھی بہت کچھ جانتے ہیں پھر کیوں معلوم نہیں کر لیتے؟‘‘ تھوڑی دیر بعد صائمہ نے آکر کہا۔
’’تم فکر نہ کرو میں آج رات وظیفہ کروں گا‘‘ میں نے اسے تسلی دی اس کے بعد میں گھر پر ہی رہا۔ رات کو تقریبا بارہ بجے جب میں نے دیکھا صائمہ سو گئی ہے تو دراز سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر باہر آگیا۔ دن کی تپش کے بعد رات خوشگوار محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے لان میں آکر آہستہ سے رادھا کو پکارا۔

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر75  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’میں یہاں ہوں پریم‘‘میرے پیچھے سے اس کی سریلی آواز سنائی دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ آج رادھا نے بالکل بسنتی کی طرح پھولوں کا زیور پہن رکھاتھا۔ دراز گیسوؤں میں موتیا کے پھول گندھے ہوئے تھے۔ ہاتھوں میں بھی نہایت خوشنما اور خوشبودارپھولوں کے گجرے پہنے وہ ایسی پری دکھائی دے رہی تھی جو پرستان سے راستہ بھول کر ادھر آنکلی ہو۔چاندنی نے اس کے حسن میں اضافہ کر دیا تھا۔ میں یک ٹک اسے دیکھتا گیا۔
’’پریم‘‘ اس کی جانی پہچانی خمار آلود سرگوشی فضا میں بکھر گئی۔ باد صباکی طرح چلتی وہ میرے قریب آگئی۔
’’کس کارن داسی کو یاد کیا ہے؟‘‘ حسین آنکھوں میں پیار کی جوت جل رہی تھی۔
’’کاش میں شاعر ہوتا تو تمہارے حسن میں کوئی قصیدہ لکھتا‘‘ مجھے خود اپنی آواز اجنبی لگی۔
’’تم توکھد ایک کویتا ہو‘‘ وہ میرے سینے سے لگ کر بولی۔ سب وعدے و عید بھول گئے۔ میں ایک بار پھر بہکنے لگا تھا۔ میری بانہوں کا حلقہ اس کے گرد تنگ ہوگیا۔ میری پشت پر اسکی مخروطی انگلیاں گردش کرنے لگیں۔ دل کی دھڑکنیں ہم آہنگ ہوگئیںَ سب سے بے نیاز ہم ایک دوسرے میں کھو گئے۔
’’پریم ! تم اتنے کھٹور نہ بنا کرو۔ تمری یہ داسی تمرے بن رہ نہیں پاتی۔ سنسار میں اب میرے واسطے تمرے بن کچھ نہیں۔ یدی تم اس بار مجھ دے دور ہوئے تو بھگوان کی سوگندکھا کر کہتی ہوں آتم ہتھیا کر لوں گی‘‘ وہ میرے سینے سے اپنا چہرہ رگڑکربولی۔ اسکی ادائیں بے تابیوں کا پتا دے رہی تھیں۔ بوجھل پلکیں اٹھا کر اسنے میری طرف دیکھا۔
’’پریم! آج میرے من کو جو شانتی ملی ہے میں تمہیں بتانہیں سکتی۔‘‘ وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی۔ میرا حوصلہ ختم ہوتا جارہاتھا۔ میں چاہتا تھا کہ اسے اصل موضوع کی طرف لاؤں لیکن وہ تھی کہ اپنی بیتابیوں کی داستان سنا رہی تھی۔
’’اونہوں۔۔۔‘‘ وہ کسی طور علیحدہ ہونے پر تیار نہ تھی۔
’’میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے‘‘ میں نے اسے ہاتھ سے پکڑکر گھاس پربٹھا لیا۔
’’پریم سے جیادہ جروری تو سنسار میں کچھ بھی نہیں‘‘ اس پر محبت کا بھوت سوار تھا۔ خودمیری حالت بھی غیر ہوتی جارہی تھی۔
’’ہاں۔۔۔ٹھیک کہتی ہو لیکن اس وقت اس سے بھی زیادہ ضروری مسئلہ درپیش ہے‘‘ میں نے کہا۔
میرے چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
’’کیا بات ہے پریم؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔ میں نے اسے ساری بات بتا دی۔ وہ حیرت سے سنتی رہی۔
’’مجھے لگتا ہے یہ شرارت کالی داس کی ہے‘‘ میں نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’پرنتو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ایک منش کیسے دوجے منش کا روپ دھارن کر سکتا ہے؟ نہیں یہ کوئی اور ہے‘‘ اس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔
’’میں نے تمہیں اسی لئے تکلیف دی ہے کہ تم پتا لگاؤ وہ حرامزدہ کون ہے؟‘‘
کچھ دیر وہ آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی پھر آنکھیں کھول کر کہنے لگی۔
’’یہ کوئی بڑی شکتی ہے۔ مجھے اس کارن جاپ کرنا ہوگا‘‘ اسکی بات سن کر میں دہل گیا۔ پچھلی بار بھی جب وہ جاپ کرنے گئی تھی مجھ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔
’’کتنے دنوں کاجاپ کرنا ہوگا؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
’’کیولایک دن سوریہ دیوتا کا جاپ کرناہوگا؟‘‘
’’پھرٹھیک ہے لیکن دھیان رکھنا پہلے کی طرح کہیں اس بار بھی تمہیں کوئی مجبوری آڑے آگئی تومیں غریب مفت میں مارا جاؤں گا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’پھر کیا ہوا اپنے متروں کو بلا لینا پہلے بھی تو انہوں نے تمری سہائتا کی تھی‘‘ اس نے بھی جوابی وار کیا میں خاموش ہوگیا۔
’’ناراج ہوگئے مہاراج؟‘‘ وہ شوخ ہوگئی۔
’’تم سچ کہتی ہو میری غلطی تھی جس پر میں نادم ہوں‘‘میں نے آہستہ سے کہا۔
’’ارے تم توجراسی بات پر ناراج ہوجاتے ہو میں تویونہی تمہیں چھیڑ رہی تھی‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے مجھے اپنی گود میں گرا لیا حسین چہرہ میرے قریب آنے لگا۔ سانسوں کی تپش نے مجھے بے حال کر دیا۔ قریب تھا کہ میں بے خود ہوجاتا۔
’’صائمہ جاگ رہی ہے‘‘ میں نے بمشکل کہا۔ اس نے ایک آہ بھر کر مجھے چھوڑ دیا۔
’’اچھا چلتی ہوں‘‘ وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’ناراض ہوگئیں؟‘‘ میں نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔
’’نہیں پریتم تم سے ناراج ہونے کا وچار میں من میں لا ہی نہیں سکتی۔ نہ جانے تم نے کیا کر دیا ہے۔ ہرپل تمرا دھیان من کو بیاکل رکھتا ہے‘‘ اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’تم یہ جاپ کر لو اس کے بعدہم ملیں گے‘‘ میں نے اس کا دل رکھنے کی خاطر کہا۔ وہ مجھے گہری نظروں سے دیکھتی رہی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ایک پرشن پوچھنا ہے پرنتو ڈرتی ہوں یدی تم نے اتر نہ دیا تو میرا مان ٹوٹ جائے گا‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’ایساکیا پوچھنا چاہتی ہو کہ تمہیں اس بات کا خوف ہے میں جواب نہیں دوں گا‘‘ اسکی بات سن کر میں حیران رہ گیا۔
’’جاپ پرجانے سے پہلے میں تمرے من میں آئی ہر بات کوپڑھنے کی شکتی رکھتی تھی۔ پرنتوواپس آنے کے بعد ایسا کرنا میرے بس میں نہیں رہا ،اسکا کیا کارن ہے؟‘‘ وہ میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔
’’رادھا! میرا یقین کرو میں اس کی وجہ خود بھی نہیں جانتا؟‘‘ میں نے صاف گوئی سے کہا۔
’’ستیہ(سچ) کہہ رہے ہو؟‘‘ اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
’’تمہارے سر کی قسم سچ کہہ رہا ہوں میں واقعی نہیں جانتا‘‘ میں نے اسے یقین دلایا۔
’’تم تو بہت طاقتور ہو،تم بھی نہیں جان سکتیں کہ یہ سب کس وجہ سے ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’میں نے اوشکتا کی تھی پرنتو کوئی اتر نہیں ملا‘‘اس کے لہجے میں مایوسی تھی۔
’’موہن! یدی اس بار کسی نے تمہیں مجھ سے جدا کرنے کی اوشکتا کی تو اسکا حال بسنتی سے برا بھی ہوگا‘‘ اسکے لہجے میں سختی تھی۔
’’اچھا پہلے تو تم میری مشکل حل کرو اسکے بعد دیکھتے ہیں یہ کس کی شرارت ہے؟‘‘ میں نے اس کا دھیان ہٹایا۔
’’چلتی ہوں۔۔۔کل میں اسی سمے آؤں گی تو تمرے پرشن کا اتر میرے پاس اوش ہوگا‘‘ اس نے بڑے یقین سے کہا۔
’’رادھا! میں اس مسئلے پر بہت پریشان ہوں اگر پتا نہ چل سکا توکیا ہوگا؟‘‘ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ارے ایسا کیوں کہہ رہے ہو کیا تمہیں رادھا کی شکتی پروشواس نہیں؟‘‘ اس نے میرے بالوں میں اپنی مخروطی انگلیاں پھنساکر پوچھا۔
’’اعتبارہے تو تمہیں اس مسئلے کے لیے بلایا ہے‘‘
’’تمری ہر سمسیا میری ہے نشچنٹ رہو۔۔۔اس سمسیا کا سمدھان اوش ہوگا‘‘اس نے مجھے تسلی دی اور کھڑی ہوگئی۔
’’اچھا پریتم! کل آؤں گی اسی سمے‘‘ اتنا کہہ کر وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ جیسے ہی میں اندر داخل ہوا میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ صائمہ نہ صرف جاگ رہی تھی بلکہ اس کا چہرہ غصے سے سرخ انگارہ بنا ہوا تھا۔ وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھور رہی تھی۔ چورکی داڑھی میں تنکا۔۔۔میں بری طرح بدحواس ہوگیا۔
’’کیا بات ہے صائمہ تم سوئی نہیں؟‘‘ میں نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’فاروق! کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ میں دنگ رہ گیا۔ اس انداز سے اس نے کبھی میرے ساتھ بات نہ کی تھی۔
’’صص۔۔۔صائمہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو ۔میں نے تمہیں بتایا تو تھا کہ میں آج رات وظیفہ کروں گا تاکہ پتا چل سکے وہ منحوس کون تھا‘‘ میں نے کہا۔ اس کی گھورتی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور دوسری طرف منہ پھیر کر لیٹ گئی۔
’’کہیں صائمہ نے مجھے رادھا کے ساتھ دیکھ تو نہیں لیا؟‘‘ میرے ذہن میں خیال آیا۔ میں نے اس کے بازو پرآہستہ سے ہاتھ رکھا۔ وہ بے حس و حرکت لیٹی رہی۔
’’صائمہ!‘‘ میں نے آہستہ سے پکارا۔ کوئی جواب نہ ملا۔
’’صائمہ! میں نے اسکا کندھا بلایا۔ اس نے کسمسا کرکروٹ بدلی اور آنکھیں کھول دیں۔ جیسے ابھی نیند سے جاگی ہو۔
’’آپ آگئے۔۔۔؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ اب اس کے چہرے پر غصے کا نام و نشان نہ تھا۔ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’چائے بنا دوں؟‘‘ اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔
’’نن۔۔۔نہیں چائے پی لی تو نیند اڑ جائے گی‘‘ میں نے کہا۔ حیرت مجھے اس بات پرتھی کہ یہ سب کیا ہے؟ کہیں صائمہ نیند میں تو نہ تھی؟ میرے ذہن میں خیال آیا۔
’’فاروق !کیا بات ہے، آپ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’کچھ پتا چلا وظیفے سے؟‘‘ وہ بیٹھ کر اپنے لمبے بالوں کو جوڑے کی صورت لپیٹنے لگی۔
’’وظیفہ تو کرلیا ہے امید ہے چوبیس گھنٹوں کے اندر پتا چل جائے گا‘‘ میں صائمہ کے رویے پر حیرت زدہ تھا۔ اسکی حالت بتا رہی تھی وہ میرے جگانے سے اٹھی ہے لیکن جب میں کمرے میں داخل ہوا تھا تو وہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں غصے سے سرخ تھی۔ لیکن میں نے اس پر ظاہر نہ ہونے دیا کہ معاملہ ہے؟ نیند سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں اس لئے میرے کہنے پر وہ فوراً ہی سوگئی۔ دوسرے دن میں بچوں کو سکول چھوڑتا ہوا بینک پہنچ گیا۔ ابھی مجھے بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ عمران اندر آگیا۔ سلام دعا کے بعد وہ کہنے لگا۔
’’خان بھائی! وہ فائل مکمل ہوگئی جو آپ کل گھر لے گئے تھے؟‘‘ بینک سے واپس آتے ہوئے میں ایک نامکمل فائل گھر لے آیا تھا جو واپس لانا یاد نہ رہی۔
’’تم بیٹھو میں ابھی لے کر آتا ہوں دراصل آتے ہوئے مجھے یاد ہی نہ رہا‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ فائل بہت اہم تھی اس لئے اسے لانا ضروری تھا۔ میں نے گھر پہنچ کر ہارن دیا۔ صائمہ کی عادت تھی وہ دو تین منٹ میں گیٹ کھول دیا کرتی۔ لیکن پانچ منٹ گزرنے کے بعد بھی گیٹ نہ کھلا تو میں نے دوبارہ ہارن بجایا۔ اس بار بھی کافی دیر انتظار کرتا رہا۔ تیسری بار زیادہ دیر تک ہارن بجاتا رہا۔اس بار بھی گیٹ نہ کھلا تو میں فکر مند ہوگیا۔ بیل بجانے پر بھی نتیجہ حسب سابق رہا۔ اب ایسا بھی نہ تھا کہ اتنی زور سے ہارن اور بیل کی آواز اسے سنائی نہ دی ہو۔میں نے گیٹ کے پاس جا کر اندر جھانکا مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ دل میں طرح طرح کے خدشات جنم لینے لگے۔ زور سے گیٹ بجانے پر بھی صورت حال وہی رہی تو میری پریشانی بڑھ گئی۔ سبین والے واقعے کے بعد لوگوں نے مجھے بے قصور تو تسلیم کر لیا تھا پھر بھی پہلے والے تعلقات نہ رہ پائے تھے۔ صرف رسمی سلام دعا باقی رہ گئی تھی۔(جاری ہے )

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر77 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں