یہ آٹھ گھنٹے

یہ آٹھ گھنٹے
یہ آٹھ گھنٹے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کشیدہ تعلقات کی ایک لامتناہی تاریخ رکھنے والے سول ملٹری تعلقات میں وزیراعظم عمران خان کے دورۂ جی ایچ کیو کو بڑی خوشگوار حیرت کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ وزیراعظم نے آٹھ گھنٹے جی ایچ کیو میں گزارے۔ یہ آٹھ گھنٹے ہماری اس حوالے سے موجودہ تاریخ بدل سکتے ہیں۔ ہم پہلے سے موجود اس مفروضے سے ہی نہیں نکل پاتے کہ فوج سول حکومت کو چلنے نہیں دے گی۔۔۔ کیوں چلنے نہیں دے گی؟ اس بارے میں کوئی ٹھوس دلیل سامنے نہیں لائی جاتی۔یہ دُنیا میں اپنی طرز کی واحد مثال ہے کہ فوج کی قیادت بار بار یہ کہے کہ جمہوریت کے ساتھ ہیں اور جواب میں اسے کہا جائے نہیں آپ جمہوریت کے مخالف ہیں، سازشیں کررہے ہیں اور چلنے نہیں دینا چاہتے۔ دو بار حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرچکی ہیں، حالانکہ حالات ایسے تھے کہ فوج جب چاہتی اقتدار سنبھال سکتی تھی۔ اقتدار نہیں سنبھالا، جمہوریت کا ساتھ دیا، مگر اعتماد پھر بھی بحال نہ ہوسکا۔ فوج اور سول حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کرنا آخر کس کا ایجنڈا ہے؟ یہ صرف بیرونی طاقتوں کا ہو سکتا ہے، کیونکہ حکومت اور فوج کے ایک پیج پر آنے کا سب سے بڑا نقصان بیرونی طاقتوں کو ہی ہوتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے برسراقتدار آنے سے جہاں اور بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، وہیں یہ تبدیلی بھی ہے کہ اب سول و عسکری قیادت میں کسی کھچاؤ تناؤ کی کیفیت نہیں رہی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان ارتکاز اختیارات پر یقین نہیں رکھتے۔وہ بارہا اپنے جلسوں اور وزیراعظم بننے کے بعد اپنے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ اداروں کو مضبوط اور خود مختار بنائیں گے۔ ہماری سیاسی قیادت میں فوج پر غلبہ پانے کا جو خبط رہا ہے، اُس نے بہت سے مسائل پیدا کئے ہیں، نہ صرف اُن کے لئے،بلکہ مُلک کے لئے بھی۔۔۔ واضح ہو گیا ہے کہ فوج پر غلبہ میموگیٹ یا ڈان لیکس جیسے حربوں سے نہیں پایا جاسکتا،اِس کے لئے باہمی احترام کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب نے دیکھا کہ اِس بار وزیراعظم عمران خان جب جی ایچ کیو گئے تو اُن کے احترام میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، حتیٰ کہ 71سالہ تاریخ میں پہلی بار انہوں نے جی ایچ کیو میں اجلاس کی تنہا صدارت کی اور آرمی چیف اُن کے دائیں جانب کور کمانڈرز کی قطار میں بیٹھے۔یہ احترام اور سول بالادستی کو قبول کرنے کا ایک بہت اہم علامتی اظہار ہے۔ یہ بہت بڑی پیش رفت ہے اور پہلی بار یہ یقین ہو چلا ہے کہ ہماری سول و عسکری قیادت ماضی میں کھینچا تانی کے جس لایعنی عمل میں غلطاں رہی ہے،وہ اب جاری نہیں رہے گا۔ حکومت مُلک کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ادارے کی بات سُنے گی اور یہ ادارہ بھی حکومتی فیصلوں کی پابندی کرے گا۔


غور کیا جائے تو فوج کی طرف سے گزشتہ چند برسوں میں واضح طور پر اِس امر کے اشارے ملتے رہے ہیں کہ فوج آئین، جمہوریت اور پارلیمینٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ تو سینیٹ کی کمیٹی کو بریفنگ دینے بھی چلے گئے تھے، جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔2018ء کے انتخابات سے پہلے کتنی افواہیں اُڑیں، کتنے خدشات ظاہر کئے گئے کہ انتخابات نہیں ہوں گے اور تین چار سال کے لئے نگران سیٹ اَپ لایا جائے گا،لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ بروقت انتخابات ہوئے،غیر روایتی ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا،امن و امان کی مثالی فضا قائم رہی اور نئی پارلیمنٹ اور حکومتیں وجود میں آگئیں۔ اب آرمی کی قیادت نے کھلے دِل سے ایک اور قدم بڑھایا ہے۔ منتخب وزیراعظم کو شاندار احترام اور پروٹوکول دیاہے، اپنی وہ روایت بھی توڑ دی ہے، جو ستر برسوں سے چلی آ رہی تھی۔آرمی کے ہیڈ کوارٹر میں بھی سول بالادستی کو قبول کر لیا گیا ہے اور آرمی چیف نے وزیراعظم عمران خان کے برابر بیٹھنے کی بجائے سامنے دائیں طرف بیٹھ کر علامتی طور پر پیغام دے دیا ہے کہ فوج حکومت کے برابر نہیں، بلکہ اس کا حصہ ہے۔ خدا خدا کر کے یہ لمحہ آیا ہے۔


یہ بات بھی درست ہے کہ فوج نے بھی حالات سے بہت کچھ سیکھاہے، ماضی کے جرنیلوں کی حرص اقتدار سے جان چھڑانے میں ایک وقت لگے گا۔ بتدریج تبدیلی اور بہتری آئی ہے۔فوجی قیادت نے دُنیا کے بدلے ہوئے حالات اور پاکستان میں جمہوریت کے لئے عوام کی تڑپ کو محسوس کیا ہے۔عوام کی فوج سے آج کل جو بے پناہ محبت ہے، فوج اپنے جرنیلوں کی طالع آزمائی کے ہاتھوں اس سے محروم بھی ہوئی۔ایک وقت تھا کہ پرویز مشرف دور میں باقاعدہ یہ حکم جاری کر دیا گیا تھا کہ فوجی افسران وردی پہن کر عوامی مقامات پر نہ جائیں،کیونکہ ردعمل کا خدشہ موجود تھا۔ یہ صورتِ حال اُس عالم میں تھی، جب افسر و جوان امریکی مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جانیں بھی قربان کر رہے تھے۔ فوج کے گزشتہ دس برسوں میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے اور جمہوری اداروں کو سپورٹ کرنے کے باعث آج یہ صورتِ حال ہے کہ عوام فوج کی دِل سے عزت کرتے ہیں۔

کوئی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرے تو اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہ مقام فوج نے بڑی مشکل اور جمہوریت کے ساتھ ثابت قدم رہ کر حاصل کیا ہے۔ اب وہ کسی صورت اسے کھونا نہیں چاہے گی۔ نئے پاکستان میں نئی حکومت اور وزیراعظم کے لئے فوجی قیادت کا یہ حد درجہ پیشہ ورانہ سلوک ایک بڑی تبدیلی کا باعث بنے گا۔ اس کا سب سے مثبت اثر یہ ہو گا کہ وہ توانائیاں،جو سول و ملٹری تعلقات کو خراب ہونے سے بچانے اور بہتر بنانے پر صرف ہوتی تھیں، وہ اب عوام کی فلاح و بہبود پر صرف ہوں گی۔ ملک کو حد درجہ مسائل درپیش ہیں۔ ایک ایک دن قیمتی ہے۔ پوری ہم آہنگی اور توجہ کے ساتھ ہر ادارے کو حکومت سے مل کر ان مسائل کا حل نکالنا چاہئے۔ اس آٹھ گھنٹے کی ملاقات میں وزیراعظم عمران خان کو سیکیورٹی کے ہر ایشو اور خطے کے حالات سے آگاہ کر دیا گیا ہو گا۔


فوج ایک بہترین ادارہ ہے اور سٹرٹیجک نقط�ۂ نظر سے اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اِس وقت پاکستان پر دُنیا کی نظریں ہیں۔ چین، ایران، امریکہ کے وزرائے خارجہ پاکستان سے تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی شخصیت دُنیا میں اپنی شناخت رکھتی ہے۔ اُن کی قیادت میں دُنیا بھی پاکستان کو ایک بدلی ہوئی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں فوج اور سول حکومت کا ہر معاملے میں ایک صفحے پر آ جانا، بڑی خوش آئند بات ہے۔ اب ہم بہت بڑی طاقت کے طور پر خود کو منوائیں گے۔ امریکہ اور مغرب کی وہ کوششیں جو پاکستان میں عسکری و سول قیادت کو متحارب کھڑا کرنے کے ضمن میں کی جاتی رہی ہیں، وہ ناکام ہو جائیں گی۔اب سیاسی قیادت کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں فوج کو گھسیٹنے کی بجائے پارلیمانی روایات اور جمہوریت کو مضبوط کرنے پر توجہ دے۔ 2018ء کے انتخابات میں فوج کا ہاتھ تلاش کرنے والے اپنی کارکردگی پر بھی ایک نظر ڈالیں، جس کی وجہ سے عوام نے اُنہیں مسترد کیا اور ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی۔

فوج نے ایک منتخب وزیراعظم کو جی ایچ کیو بلا کر اس کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ جمہوریت کی محافظ ہے اور یہ بدلا ہوا کردار اس نے خود اپنایا ہے۔ فوجی قیادت کی خواہش صرف یہ ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال پر ایک بڑے اسٹیک ہولڈر کے طور پر اس کی رائے ضرور لی جائے۔ یہ ایسی خواہش ہے،جو ہماری قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی جزو ہونی چاہئے، کیونکہ فوج سے بہتر کوئی رائے دے ہی نہیں سکتا کہ اس کے سامنے سارے معاملات نمایاں ہوتے ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان نے جی ایچ کیو میں فوجی قیادت کے ہمراہ جو آٹھ گھنٹے گزارے ہیں وہ اس مسئلے کا دائمی حل ثابت ہوں گے،جو 70 برسوں سے ہمارے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ ہم سول اور فوجی خانوں میں تقسیم نہیں رہ سکتے، ہم ایک ہیں اور ہمارے چیلنجز بھی سانجھے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -