سقوط کشمیر
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کشمیرپر دنیا کی خاموشی افسوسناک ہے۔ ایک روز قبل انہوں نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب بدلنا جنگی جرم ہے۔ دونوں باتیں بالکل درست ہیں، لیکن سب سے پہلے تو ان وجوہات کا جائزہ لینا ہو گا جن کی بنا پر مودی نے ایک ہی جھٹکے میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا۔ ریاست پاکستان کے بڑوں کے جولائی میں دورہ امریکہ کے بعد جب عمران خان اسلام آباد واپس آئے تو استقبالی وزراء کو بڑے فخر سے بتایا کہ وہ ایک بار پھر ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔ٹرمپ سے میڈیا کے روبرو ہونے والی گفتگو کے دوران امریکی صدر کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش نے پہلے ہی سے سفارتی محاذ پر خوب رونق لگارکھی تھی۔توقع کی جارہی تھی کہ بالآخر امریکہ کو افغانستان سے انخلا کے لئے ہماری ”شدید ضرورت“ آن پڑی ہے، اس لئے وہ مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لئے ثالثی پر مجبور ہو چکا ہے۔ ابھی فضا میں فتح کے شادیانوں کی گونج بھی مکمل طور پر نہیں تھمی تھی کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ایک دم ہڑپ کر کے دھماکہ کر دیا، مظلوم کشمیریوں پر جو بیتی سو بیتی، عام پاکستانیوں کے بھی اوسان خطاء ہو گئے۔ 72سال سے کشمیر،کشمیر سنتے، اس کی آزادی اور پاکستان سے الحاق کے خواب دیکھنے والی کروڑوں آنکھیں نم ہو گئیں۔ لوگ سکتے سے باہر آئے تو حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کچھ کرے۔ اس سے پہلے ہی متحدہ عرب امارات نے کشمیر کو پاک بھارت داخلی تنازع قرار دے دیا۔ پھر یہ کہا جانے لگا کہ چونکہ بات امریکی صدر ٹرمپ نے کی تھی وہ اس حوالے سے جی سیون کے اجلاس میں مودی سے بازپرس ضرور کریں گے۔جب موقع آیا تو ٹرمپ اور مودی بچھڑے ہوئے بے تکلف دوستوں کی طرح آپس میں ملے۔ ٹرمپ نے نہ صرف مودی کے اس دعویٰ کی توثیق کی کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ ہے، بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ وزیراعظم مودی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے حالات ان کے کنٹرول میں ہیں، سو اگر آج بقول عمران خان دنیا اس معاملے پر خاموش ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ اب عالمی سطح پر یہ سمجھا جارہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو چکا۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری بدترین بھارتی مظالم پر عالمی برادری تو ایک طرف، مسلم ممالک نے بھی کوئی توجہ نہیں دی۔
اب ہم پاکستان کے اندر کام چھوڑ کر بیٹھ جائیں، دھرنے دیں یا پھر سڑکوں پر کھڑے ہو کر اظہار یکجہتی کریں، اس سب کا فائدہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب عالمی برادری نوٹس لے،ورنہ اپنے ہی میڈیا پر اپنے ہی احتجاج کی خبریں چلانا صفر+صفر=صفر سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ احسان الحق کہتے ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل 370کو ختم کرنے کے حوالے سے بہت پہلے سے کام کررہا تھا اور وہ کبھی مذاکرات میں سنجیدہ رہا ہی نہیں۔ یقینا ایسا ہی تھا،لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہماری جانب سے جوابی تیاریاں کیا تھیں؟۔ مودی سرکار اب آگے کیا کرے گی،سب سے پہلے تو اس نے مقبوضہ کشمیر کا ریاستی پرچم اسمبلی کی عمارت سے اتار کر علامتی اظہار کیا ہے، لیکن بات یہاں محدود نہیں رہے گی، ظاہر ہے کہ یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کا جو خدشہ ظاہر کیا ہے وہ بے جا نہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے رقبے کے لحاظ سے چارگنا اور آبادی کے لحاظ سے دوگنا بڑے صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کے احتجاج پر قابو پانے کے لئے چین کی حکومت نے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا،بھارت بھی اسی جانب جائے گا۔ ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ بھارتی سرمایہ کاروں کو وہاں سرمایہ کاری کرنے کے لئے ترغیبات دی جارہی ہیں۔ سعودی عرب اور امارات سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کریں۔ بھارت کا مقبوضہ وادی میں ہندو آبادی اور سرمایہ کاری کے منصوبے ایسے ہی آگے بڑھتے رہے تو تحریک جدوجہد آزادی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، بتانے کی ضرورت نہیں۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 72سال سے جاری زندگی اور موت کے اس مسئلے کے حوالے سے مودی نے غاصبانہ قدم اٹھاتے ہوئے کسی خطرے کو سامنے نہیں رکھا۔یہ تک نہیں سوچا کہ یہ حرکت ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتی ہے، کیا کسی نے مودی کو یقین دہائی کرارکھی تھی کہ جو چاہو سو کر گزرو کچھ نہیں ہو گا؟ اگر ایسا ہے کہ یہ صدر ٹرمپ کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ مسئلہ کشمیر بنیادی طور پر آزادی اور استصواب رائے کا مسئلہ تھا۔ افسوس آج عالمی سطح پر یہ زیادہ سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کا کیس بن کررہ گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم و تشدد کا بازار گرم کرتے ہوئے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا اور ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہو گا کہ عالمی برادری کو کسی طرح ہمنوا بنانے کی کوشش کریں جو حقیقتاً مشن امپاسیبل بن چکا۔ مودی کو یہ جرأت کس نے دی اور کیسے ہوئی، بھارت جو کام 72برسوں میں نہ کر سکا 5اگست 2019 ء کو کیسے کر گیا؟ ان سوالوں سے قطع نظر بعض سوالات بھی ہیں۔کامران خان نے بھارت کی جانب سے کشمیر ہڑپ کیے جانے کے فوری بعد جو تبصرہ کیا اس میں یہی کہا کہ اس کارروائی سے خطے میں پائیدار امن آئے گا۔ لوگ ابھی کشمیر ایشو پر تڑپ رہے تھے کہ موصوف نے اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کرنے کی تجویز پیش کر دی۔ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں اس جانب بھی پیش رفت ہو،لیکن جو لوگ اس حوالے سے کسی فائدے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔امریکہ چاہے گا کہ ایٹمی پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے،پاکستان کے اندر بھی بعض دفاعی مبصرین سمیت بعض حلقے اس کی حمایت کررہے ہیں۔فرض کریں اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو زیادہ اثرات کس پر مرتب ہوں گے یقینی طور پر دولت،ٹیکنالوجی اور عالمی اثرو رسوخ کے حوالے سے اسرائیل کی طاقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔موجودہ حالات میں ہم نے ان سے معمول کے سفارتی تعلقات بنانے کی بھی کوشش کی تو صہیونی لابی اپنا ایجنڈا ہمارے ہاں داخل کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ ہو کیا رہا ہے، اگر کسی کے پاس وقت ہو تو 1990 ء کی دہائی کے آخر میں ڈاکٹر اسرار احمد، حکیم سعید شہید، عبدالستار ایدھی اور جنرل حمید گل کی جانب سے موجودہ سیٹ اپ کے بارے میں پیش گوئیوں پر مبنی تجزئیے سن اور پڑھ کر اپنی سمجھ کے مطابق نتائج خود اخذ کر سکتا ہے۔ سفارتی فرنٹ پر ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بھی ہماری پالیسیاں کسی طور استحکام کی جانب دکھائی نہیں دیتیں۔ہماری سیاسی پالیسی ہے کہ ہر مخالف کو اندر کر دو،نیب کے مقدمات بنا کر عدالتوں میں گھسیٹو، عدالتی پالیسی کیا ہے؟جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں اس کا پول خوب کھل رہا ہے۔دوران سماعت وٹس ایپ پر ججوں کے تبادلے بھی سارا کچا چٹھا عوام کے سامنے لارہے ہیں۔ صحافت اتنی رہ گئی کہ جو سرکاری سچ نہ بولے بند کر دیا جائے۔ میڈیا کے مالی وسائل سکیڑ کر منصوبہ بندی سے گلا گھونٹا جارہا ہے۔آئی ایم ایف کے شکنجے میں دی جانے والی معیشت کی بحالی تو کجا، سمت درست ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ خطرات بیرونی ہی نہیں، اندرونی بھی ہیں۔یہ تو طے ہے کہ کشمیر پر جنگ کا سرے سے کوئی امکان نہیں۔ ایل او سی پر تھوڑی بہت جھڑپیں ہوسکتی ہیں۔ ہماری جانب سے یہی کہا جاتا رہے گا کہ بھارت آزاد کشمیر کی طرف میلی نگاہ سے نہ دیکھے ورنہ آنکھیں پھوڑ دیں گے۔ اس طرح کے بیانات بھی کچھ عرصہ تک چلتے رہیں گے، لیکن کوئی باقاعدہ لڑائی نہیں ہو گی۔اس وقت ایک پالیسی کے تحت بعض سرکاری حلقے کہہ رہے ہیں کہ جنگ کا خطرہ ہے اور دوسری جانب حکومتی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ جنگ لڑنا کسی طور ہمارے مفاد میں نہیں۔حکومت کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ بھارت کے لئے فضائی حدود بند کر دینا تو درکنار افغان ٹرانزٹ ٹریڈ تک کو نہیں روکا گیا۔یہ بہانہ ڈھونڈا گیا ہے کہ افغانستان کے لئے بھارتی مال روکا گیا تو کابل حکومت بھی ہم سے ناراض ہو جائے گی۔ کشمیر ہمارا رومانس ہے اور رہے گا۔ جہادی تنظیموں سے مل کر ہزاروں جوانوں نے بھی وہاں جا کر غاصب بھارتی فوج سے لڑ کر شہادت پائی، سوال تو ان جہادی رہنماؤں سے بھی ہے کہ جب اقوام متحدہ اور اقوام عالم میں اسٹیبلشمنٹ کی مستقل سفیر ملیحہ لودھی دو قومی نظریے کو ”خراج تحسین“ پیش کرتے ہوئے اپنے بچوں کی شادیاں ہندو خاندانوں میں کررہی ہیں، جب جنرل احسان الحق اپنے بھارتی ہم منصب سے ملتے ہیں تو ہنسی دل سے نکلتی ہے، جنرل درانی بھارتی کاؤنٹر پارٹ سے مل کر کتاب لکھتے ہیں۔تبدیلی سرکار کئی بار کورا جواب ملنے کے باوجود مذاکرات کے لئے درخواستیں ڈالتی رہی تو آپ نے کیا کرنا ہے؟ کیا یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ جی نہیں اقتصادی صورت حال بے حد خراب ہے، اگرچہ ہم ایک بار پھر پوری طرح امریکی کیمپ میں جا چکے ہیں، لیکن کچھ فائدہ نہیں ہونے والا۔ امریکہ نے ایف سولہ کی دیکھ بھال کی مد میں جس چھوٹی سی رقم کا اعلان کیا ہے اس کے ساتھ یہ شرط بھی رکھی ہے کہ ان کے اہلکار پاکستانی سرزمین پر موجود رہیں گے۔
دنیا کی نمبرون اقتصادی طاقت بننے کی منزل کو چھوتا ہوا چین کسی کے ساتھ نہیں کھڑا۔ اسے ہر حوالے سے امریکہ سے خطرات لاحق ہیں۔ وہ دیگر تمام ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔ اس لئے بھارت کو امریکی تھپکی کے باوجود چین سے تجارتی تعلقات میں کوئی دراڑ نہیں آنے والی۔امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں پارٹنر قرار دے کر ہماری توقعات کے بالکل برعکس فیصلہ کیا ہے۔ بریگزٹ معاملہ طے پانے کے بعد یورپ کے لئے بھی بھارت کی تجارتی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ ہماری معیشت کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایک سال ہونے کو آیا ابھی پچھلی حکومتوں پر لعن طعن ہی ختم نہیں ہو پائی۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہو چکے، کارخانے بند، مارکیٹوں میں کام ٹھنڈا، اقتصادی اشاریے خطرناک ہیں، کسی کو عالمی یا سفارتی امور پر ہونے والی سرگرمیوں پر تکلیف یا تشویش ہو نہ ہو اپنے پیٹ پر لات پڑتی ہوئی کوئی برداشت نہیں کرے گا۔عام آدمی تو کجا مڈل اور اپر مڈل کلاس کا گزارہ بھی ہر گزرے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جارہا ہے اور آگے کوئی سمت ہے ہی نہیں، ایسے میں تحریک اٹھ سکتی ہے۔ مصلحت کی ماری سیاسی جماعتوں نے قیادت نہ کی تو کوئی اور بھی کر سکتا ہے۔ اکتوبر میں مولانا فضل الرحمن کا اسلام آباد لاک ڈاؤن کو پہلے غیر سنجیدہ لینے والے اب دن رات اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح ان کو منا کر روکا جائے۔ ترغیبات بھی دی گئیں اور دھمکیاں بھی۔ ہو سکتا ہے کہ اس مجوزہ دھرنے سے پہلے گرفتاریاں بھی ہو جائیں، لیکن صورت حال پر اتنی آسانی سے کنٹرول پانا ممکن نہیں رہے گا۔ کہا جارہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن دیگر اپوزیشن جماعتوں کو یاد کرارہے ہیں کہ کشمیر، مہنگائی، میڈیا اور عدلیہ پر دباؤ، سیاسی انتقام،آئین پر حملے کے ایشوز کی بنیاد پر نعرے لگاتے ہوئے مارچ شروع کیا تو کامیابی یقینی ہے۔مارچ روکا گیا تو تصادم ہو سکتا ہے۔ کیا ایسے نازک موڑ پر ملک ان حالات کا متحمل ہو سکتا ہے۔ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے کہ برسراقتدار ٹولہ من مانیاں کرنے کے دوران کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ بالآخر اس کی یہی ضد کسی بڑی خرابی کا سبب بن جاتی ہے۔