کینیڈا کیسا ملک ہے؟
قارئین،پچھلے دو ہفتوں سے واٹر لوکینیڈا میں اپنے گھر میں مقید ہوں،کینیڈا کے کورنٹین قانون کی وجہ سے کینیڈا میں ہر آنے والے کو چودہ دنوں کیلئے اپنے گھر پر ہی رہنا پڑتا ہے اور یہاں قانون واقعی قانون ہے، حمیدا قانون نہیں اس لئے قانون پر عمل کرنا پڑتا ہے ورنہ خلاف ورزی پر جرمانہ اور قید کی سزا ہو سکتی ہے۔آج مجھے اس کورنٹین کی قید سے آزادی مل گئی ہے اور اب پاکستان واپسی سے قبل اگلے پندرہ دن میں اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا میں گھوموں پھروں گا، نئی نئی جگہیں،آبشاریں،جھیلیں دیکھوں گا،رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی مل سکوں گا۔
میرے ماموں زاد احمد افتخار اور ماموں،میجر افتخار بٹر کا اصرار تھا کہ ہم ان کے پاس کیلگری (کینیڈا) آئیں، مجھے بھی دنیا کی ایک خوبصورت جھیل بینف دیکھنے کا شوق ہے جو کیلگری میں ہے اس کے علاوہ وہاں بے شمار جھیلیں،خوبصورت آبشاریں،جنگل،جنگلی حیات اور پہاڑوں کی ٹریلیں ہیں جو دیکھنے کے قابل ہیں۔اس کے بعد وہاں سے دنیا کے خوبصورت ترین شہر وینکوور اور وکٹوریہ جانے کا پروگرام تھا مگر وقت کی قلت کے باعث یہ اس سال ممکن نہ ہو سکا۔ وہاں جانے کے لئے ٹورنٹو سے ساڑھے چار گھنٹے کی فلائٹ ہے،احمد سے اگلے سال کا وعدہ کیا ہے،دیکھیں جو اللہ کو منظور ہو گا۔
ادھر ٹورنٹو کے شہر مارکھم میں بچپن کے دوست ارشد چودھری، ونی پیگ میں بہت ہی پیار کرنے والے بڑے بھائیوں جیسے دوست،پاکستان کے سینئر صحافی روزنامہ مشرق کے مالک و ایڈیٹر ممتاز شاہ صاحب، مسسی ساگا میں اپنے پیارے صحافی دوست جنگ کینیڈا کے ایڈیٹراشرف خان لودھی،پیپلز پارٹی کینیڈا کے صدر چودھری جاوید گجر،اے جیکس میں میرے پیارے بھانجے سلمان آصف،وٹبی میں میرے پیارے بھتیجے مطاہر حسن گورایہ،بھائی حسین گورایہ،عزیز از جان دوست عرفان علی بھنگو بھی میرے کورنٹین کے خاتمے کے منتظر تھے۔ان سب کے روزانہ ٹیلی فون آ رہے ہیں۔اب ان کی طرف بھی جانا ہے۔
کینیڈا کیسا ملک ہے؟ میرے سینکڑوں پیاروں اور عزیزوں کو اس نے کھینچ رکھا بلکہ گلے لگا کے رکھا ہے۔ کینیڈا کئی حوالوں سے اپنی الگ پہچان اور شناخت رکھتا ہے،تیزی سے ترقی کی نئی منازل طے کرتے کینیڈا کو اگر ”منی ورلڈ“کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا،یہاں ہر ملک،رنگ،نسل،مذہب سے تعلق رکھنے اور ہر زبان بولنے والے آباد ہیں۔اس جنت نظیر ملک کی خوبصورتی یہاں کے لوگوں کا تحمل اور برداشت ہے،یہاں کبھی مذہب رنگ نسل یا وطنیت کے نام پر لڑائی جھگڑا دیکھنے کو نہیں ملا،ہر کوئی اپنے حال میں مست ہے اور ایک دوسرے کی خوشی غم میں شرکت کی بہترین روایات نے کینیڈا کو گلدستہ بنا دیا ہے۔دنیا میں روس کے بعد رقبے کے لحاظ سے کینیڈا دوسرا بڑا ملک ہے،اس کا رقبہ 9.984ملین مربع کلو میٹر ہے،کینیڈین حکومت اپنے ملک کے چپے چپے کو منافع بخش اور کار آمد بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے جس کے باعث یہاں روزگار کے بہترین اور زیادہ سے زیادہ مواقع نکلتے رہتے ہیں،جس بناء پر شہری خوشحال ہیں،کینیڈا کا ہر شہری وہ کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو اپنی خوشحالی کیساتھ ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے بھی دن رات کام کرتا ہے جس کے باعث کینیڈا کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔
معذرت اور معافی کینیڈین معاشرے کی ایک بڑی خوبی ہے،سماجی رتبہ اور مقام و مرتبہ کے بغیر کینیڈین شہری ایک دوسرے کو ”سوری“ کہنے میں سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں، وضعداری اور ایک دوسرے کے احترام کا عالم یہ کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بھی اگر آپ سے پہلے کسی عمارت میں داخل ہوں گے تو وہ آپ کے لئے دروازہ کھول کے کھڑے ہوں گے۔ کینیڈین شہریوں کا طرہ امتیاز دوستانہ رویہ ہے،تلخی ترش روئی سے گفتگو کرنے والے کو جاہل تصور کیا جاتا ہے،بازار،سڑکوں،محلوں میں لوگ آپس میں دوستانہ ماحول میں بات چیت کرتے دکھائی دیتے ہیں،شہریوں میں لڑائی جھگڑا معمول نہیں ہے جو کینیڈین معاشرے کی خوبصورتی میں اضافہ کا سبب ہے،کینیڈا کی ایک اور خوبی بلند شرح خواندگی ہے،یہ ملک دنیا کے چند سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ممالک میں شامل ہے،یہاں کی حکومت شہریوں کی تعلیم اور صحت کے معاملات پر خصوصی توجہ دیتی ہے،تعلیم نے کینیڈا کے معاشرتی حسن کو نمایاں کر دیا ہے،کینیڈا میں قدرتی طور پر شفاف پانی کی جھیلوں کی تعداد 30لاکھ سے زیادہ ہے،جو دنیا بھر کے ممالک میں موجود جھیلوں کی تعداد سے زیادہ ہے،اگر چھوٹی جھیلوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے،کینیڈین شہری اور حکومت بڑی ذمہ داری سے ان جھیلوں کو آلودگی سے بچاتے ہیں،ان جھیلوں کی وجہ سے کینیڈا میں صاف پانی کی کوئی کمی نہیں،دنیا کے شفاف، میٹھے پانی کے ذخائر کا 20فیصد صرف کینیڈا میں ہے،جو اس پر قدرت کی مہربانی ہے۔
کینیڈا کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یورپ اور ویسٹ کے مقابلے میں یہاں کے غیر مسلم شہری الکو ہل کے بجائے بئیر کا استعمال کرتے ہیں،ایک اندازے کے مطابق 80فیصد لوگ شراب کے بجائے بئیر پیتے ہیں،سروے کے مطابق ایک شہری سال میں 79لٹر بئیر پی جاتا ہے،اسی وجہ سے غل غپاڑہ کے واقعات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں،کینیڈین شہری 22کروڑ70لاکھ ہیکٹو لٹر بئیر سالانہ پیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ صنعت کینیڈا کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے،حکومتی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے،الکوہل استعمال نہ کرنے کی وجہ سے امریکہ و یورپ کی نسبت یہاں دل،گردے اور جگر کا مرض بھی کنٹرول میں ہے۔
کینیڈین شہریوں میں سبزی خوری کا رحجان بھی تیزی سے پرورش پا رہا ہے،10فیصد کینیڈین سبزی خور ہیں،جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے،اسی وجہ سے شہری صحت مند اور توانا ہیں،جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ ہیں،یہ ملک سفید ریچھوں کیلئے بھی جنت ہے،سفید ریچھوں کی بڑی تعداد یہاں کے برفیلے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہے،سروے کے مطابق ان کی آبادی 25ہزار سے زائدہے،کالے ریچھوں کی بھی کمی نہیں،یہاں کا موسم ان جانداروں کو بہت موافق ہے،حکومت بھی ان کی حفاظت کیلئے گراں قدر اقدامات کرتی رہتی ہے ان کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے،جنت ارضی نماء اس ملک میں سردی کی بھی شدت ہے اور یہاں کا موسم مائنس 63ہے،برفانی دنوں میں زندگی یہاں کے اکثر علاقوں میں مفلوج ہو جاتی ہے،،حیرت ناک طور پر کینیڈا کی 90فیصد زمین غیر آباد ہے،اس کے باوجود کینیڈا کو کبھی غذائی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا،پھلوں کی پیداوار بھی ضرورت سے زیادہ ہے،کینیڈین حکومت غیر آباد زمین کو آباد کر نے کے متعدد منصوبوں پر کام کر رہی ہے،جس کے بعد کینیڈا غذائی اجناس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے گا،برفانی علاقوں کی ا ٓباد کاری کا بھی منصوبہ ہے،جس سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہونگے۔
کینیڈا کا ساحلی علاقہ 20دو ہزار80کلو میٹر پر محیط ہے جو دینا کا سب سے بڑا ساحل ہے،اگر کوئی اس پر چلنا شروع کرے توساڑھے چار سال چلنے کے بعد وہ واپس اپنے نقطہ آغاز پر آئے گا،کینیڈا پر تسلط کیلئے فرانس اور برطانیہ میں طویل جنگ ہوئی جس کے بعد دونوں ممالک نے یہاں کے شہروں کو آپس میں تقسیم کر لیا،یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی زبان یہاں کی دوسری بڑی زبان بھی ہے، کینیڈا کا شہر مونٹریال،فرانس کے شہر پیرس کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں فرنچ بولی جاتی ہے،کینیڈا کے شہری میپل،پنیر اور آلو سے بنی ایک ڈش کو بہت پسند کرتے ہیں جسے پوٹین کہا جاتا ہے۔میپل سیرپ تویہاں کا پسندیدہ مشروب ہے،کینیڈین دنیا بھر میں سب سے زیادہ میکرونی اور چیز کھاتے ہیں، جسکی بنی میکن چیز یہاں کی خاص ڈش ہے،کینیڈین شہری خوشحالی،خوش گفتاری کی ساتھ خوش و خرم رہنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے اور یہ لوگ خوشی منانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔