ٹیلی ویژن خبر نامہ……چند توجہ طلب امور

ٹیلی ویژن خبر نامہ……چند توجہ طلب امور
ٹیلی ویژن خبر نامہ……چند توجہ طلب امور

  


خواتین و حضرات، اخبارات اور ریڈیو کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن بھی خبروں کا ایک موثر و مقبول ذریعہ ہے، بلکہ لوگوں کی اکثریت اب ٹیلی ویژن پر ہی خبریں دیکھتی اور سنتی ہے۔ سرکاری اور نجی ٹیلی ویژن چینلز کی خبریں موبائل اور کمپیوٹر پر بھی دیکھی اور سنی جا سکتی ہیں۔تاہم ٹیلی ویژن پر نشر کی جانے والی خبروں سے متعلق بہت سی باتیں قابل توجہ ہیں جو ان کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے بے حد ضروری ہیں۔ خبروں کا پیش کیا جا نا ایک بہت سنجیدہ،باوقار اور قابل اعتبارامر ہے۔ اس میں کسی قسم کی اداکاری،تصنع،مزاح اور شوخی کا کوئی دخل نہیں۔خبروں کے الفاظ اور جملوں کا بھی ایک خاص انداز ہوتا ہے، جس طرح عام بولنے کی زبان اور ضبط تحریر میں آنے والی تحریروں کی زبان کا فرق ہوتاہے اس طرح ٹیلی ویژن کے ڈراموں، اعلانات، تبصرے، انٹرویو، اینکر کی گفتگو اور خبروں کے الفاظ، جملے،ادائیگی، انداز اور لہجہ کا بھی مخصوص انداز ہوتا ہے۔اگر اِن کا لحاظ نہ کیا جا ئے تو خبریں نہ صرف مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں بلکہ ان سے اعتبار بھی اُٹھ جا تا ہے۔


خبروں میں الفاظ،اور جملوں کا انتخاب بہت اہم ہوتا ہے۔مثلاً ہم بول چال میں چھٹی کو چھٹی کہتے ہیں مگر ضبط تحریر لاتے وقت اور خبروں میں بولتے وقت اے ”تعطیل“ کہیں گے۔رات کو ”شب“ اور ”سردی“ کو ”جاڑا“ کہا جائے گا۔ اکثر چینلز پر ”ر“ کو ’’ڑ“ اور ”خ“ کو ”ح“ بولا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اکثر خبریں پڑھنے والوں کو یہ ادراک نہیں ہوتا کہ جُملہ کہاں توڑنا ہے اور تسلسل کہا ں رکھنا ہے۔ یہاں ”رکو مت …… جانے دو“ اور ”رکو…… مت جانے دو“ والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ خبریں پڑھنے والوں کی اکثریت آخری جملے کو درست طورپر ادا نہیں کرتی۔آخری جملہ یوں لگتا ہے گویا سوالیہ جملہ ہے یا نیوز ریڈر اس کے بعد مزید کچھ کہنا چاہتی /چاہتا ہے۔ اکثر یہ آخری جملہ حیرت کا تاثر  لئے ہوتا ہے۔ غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی اس شعبہ میں کسی قسم کی تربیت نہیں کی جاتی۔اکثر ”سیّاح“ کو ”سیاہ“ کہا جا تا ہے۔”مَیں“ اور ”مِیں“ میں فرق نہیں رکھا جا تا۔ ”ایک دن“ کو ”ایک روز“ اور ”ایک دفعہ“ کو ”ایک مرتبہ“ کہنا زیادہ بہتر لگتا ہے۔


خبریں پڑھنے والوں کو ڈراموں میں اداکاری یا دیگر پروگراموں میں شرکت کی اجازت نہیں ہوتی،کیونکہ اداکار اگر خبریں پڑھے گا تو وہ بھی اداکاری لگے گی،سنجیدگی نہ ہو گی یہی وجہ ہے کہ ان کے لباس، انداز، حرکات و سکنات، Body Language چہرے کے تاثرات،خبرنامے کا سیٹ،لائٹ کا زاویہ،نیوز ریڈرکا میک اَپ اور بال سنوارنے کے طریقہ وغیرہ پر خاص نظر رکھی جاتی ہے۔یہ تمام عوامل خبر کی صداقت اور سنجیدگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔خبروں کی ہیڈلائن سنائے جانے کے ساتھ شور اور چنگھاڑنے کے انداز میں پس منظر میں بجتا میوزک سارے ماحول کو خوفناک اور دہشت زدہ بنا دیتا ہے۔ گویا جیمزبانڈ کی کسی فلم کا ٹریلر چل رہا ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ خبروں کی تحریرکو منظوم بنا دیا جاتا ہے، یعنی انہیں یکساں قافیہ اور ردیف کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے جو خبروں میں غیر سنجیدگی کا مظہر ہے۔کل کو خبریں ترنم کے ساتھ پیش کی جانے لگیں گی۔بعض نیوز ریڈرز چل پھر کر اور ٹہل ٹہل کر خبریں سنا رہے ہوتے ہیں،جو نہ صرف خبروں کے اعتبار کو مجروح کرتا ہے،بلکہ مضحکہ خیز بھی نظر آتا ہے۔شاید اس طرح سے وہ خبروں میں جدّت پیدا کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔خبریں پڑھنے میں نیوز ریڈرکی اپنی مرضی،تاثرات،حمایت یا مخالفت یا کسی قسم کے جذبات کا شبہ نظر نہیں آنا چاہیے اور خبر کو خبر رہنا چاہئے،تبصرہ نہ لگے۔


خواتین و حضرات،اس ضمن میں سب سے اہم بات خبروں کی ترتیب، ترجیح اور اہمیت کے اعتبار سے پہلے، دوسرے،تیسرے اور چوتھے نمبر پر خبر نشر کرنے کا معاملہ ہے۔اس سلسلے میں علاقائی، ملکی اور عالمی حالات واقعات اور حادثات کو ان کی اہمیت کے اعتبار سے ترتیب دینا چاہئے۔اکثر چینلز خبر کے ”چٹخارے پن“ کے مدنظر خبروں کو پہلے دوسرے تیسرے نمبر پر پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طورپر ایک مقبول چینل کی ایک روز کی خبروں کی ترتیب کچھ یوں تھی……پہلی خبر…… مریم کی عمران خان اور حکومت پر تنقید…… دوسری خبر……وزراء کا جوابی وار…… تیسری خبر……مراد سعید کا وزیر اعظم کے حق میں بیان……چوتھی خبر……کراچی میں کوڑا کرکٹ کے انبار…… پانچویں خبر…… وزیراعظم کا ازبکستان کا دورہ……چھٹی خبر…… شاہ محمود قریشی کی افغانستان کے حساس معاملے پر پریس کانفرنس……ساتویں خبر بھارت اور افغانستان کے تعلقات اور طالبان کی کارروائیاں۔۔۔آٹھویں خبر۔۔سی پیک اور عالمی سازشیں ……


اب اندازہ لگائیں کہ کسی ٹی وی چینل کے لئے ملکی اور عالمی معاملات کی اہمیت کی کیا ترجیح ہے۔شاید وہ، وہ کچھ پیش کرنا چاہتے ہیں جو زیادہ بکتا ہے یا زیادہ چسکے دار اور سنسنی خیز ہے۔خبریں ہمارے ہاں تو عوام کی دلچسپی کے اعتبار کے لحاظ سے تیارکی جاتی ہیں ناکہ ان کی خطے میں اہمیت کے لحاظ سے۔اس سلسلے میں ایسی عالمی خبریں جو دنیا کے دیگر بڑے چینلز پر پہلے دوسرے نمبر پر ہوتی ہیں۔ہمارے ہاں پندرہ بیس منٹ گزرنے کے بعد ٹیلی کاسٹ ہوتی ہیں۔اس سے قوم کا مجموعی مزاج بھی سامنے آتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم کا مزاج خبروں کے حوالے سے کون بناتا ہے اور کیسے متعین کیا جاتا ہے۔اس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ ہمیں عالمی حالات و واقعات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں، جبکہ موجودہ حالات میں،دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے اور پاکستان کو اپنے خطے کے ممالک سے معاشی، سیاسی،سیکیورٹی اور دیگر حوالوں سے شدید خطرہ بھی ہے۔خبروں کا آغاز ہی قوم کے اجتماعی مزاج اور چینلز کی خبروں کا موازنہ کیا جانا چاہئے۔
چوری،ڈاکہ،قتل اور دیگر جرائم پر جاسوسی قسم کی فلمیں ہمیشہ سے بنتی چلی آ رہی ہیں اور پسند کی جاتی رہی ہیں۔ٹیلی ویژن پر بھی ایسی فلمیں اور ڈراموں کی بھرمار رہی ہے، لیکن جرائم کی خبریں اس طرح نشر نہیں ہونی چاہئیں۔


ہماری اس رائے سے جناب انور مسعود نے بھی اتفاق کیا ہے۔اپنے ایک اخباری قطعہ میں فرماتے ہیں:
نہ کچھ اس کے سوا باقی رہے گا 
بھیانک سا خلا باقی رہے گا
جرائم کی نکل جائیں جو خبریں 
خبر نامے میں کیا باقی رہے گا

مزید :

رائے -کالم -