بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اور اسلامی شناخت کو مٹانے کی سازش

بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اور اسلامی شناخت کو مٹانے کی سازش
بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اور اسلامی شناخت کو مٹانے کی سازش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

برصغیر پاک وہند میں کئی قومیں آباد ہیں اور ہر قوم کے اپنے مخصوص رسوم و رواج اور مذہبی عقائد ہیں۔ مسلمانوں نے اس خطہ میں تقریباً ایک ہزار سال تک حکومت کی لیکن کبھی غیر مسلموں کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا۔ مسلم حکمرانوں کے حسن سلوک کی مثالیں خود ہندو مصنفین نے دی ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد جب یہاں انگریز حاکم بن گئے تو انہوں نے ہندو?ں کی مدد سے مسلمانوں پر عرصہ ¿ حیات تنگ کر دیا۔ 1906ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی اورمسلمانوں نے قائداعظم? کی قیادت میں الگ وطن کی تحریک کا آغاز کر دیا۔ بالآخر 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ بھارت نے شروع دن سے ہی پاکستان کے وجود کو قبول نہ کیا اور اس کیخلاف سازشوں میں مصروف رہا۔ بھارت میں تہذیب اور ثقافت سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کیلئے کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ تاریخ کبھی بدل سکتی ہے نہ تاریخ میں کسی کی مرضی اور منشاء سے تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ لیکن بھارتی حکمرانوں کو یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آرہی، انہیں لگتا ہے کہ کسی عمارت اور کسی شہر کا نام بدلنے سے تاریخ بدل جائے گی اور یہ حقیقت ختم ہوجائے گی کہ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے۔ لال قلعہ، تاج محل، قطب مینار اور اس طرح کی سیکڑوں شاندار عمارتوں کو جنہوں نے بنایا ہے اس کی جگہ کسی اور کا نام لکھ دیا جائے گا اور لوگ اسے مان لیں گے۔ایسا نہیں ہوسکتا۔۔ اس گمان میں انہوں نے کئی عمارتوں اور شہروں کا نام بدلنے کے بعد آج ایک اور شہر کا نام تبدیل کردیا ہے۔ دہلی میں واقع ایک گاو ¿ں محمد پور کا نام بدل کر مادھو پورم کرنے کی تجویز کو پیشگی منظوری دیدی گئی ہے۔

جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن کے میئر مکیش سوریان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مغلیہ دور میں دہلی کے کئی دیہات کے نام زبردستی بدلے گئے تھے، جس میں محمد پور گاو ¿ں بھی ہے لہٰذا اس کا نام مادھوپورم رکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح ایک مشہور قصبہ ہمایوں پور کا نام تبدیل کرنے کی مہم بھی زوروشور سے چلائی جا رہی ہے۔ بھارت میں مسلم تہذیب و تمدن کے آثار اگرچہ شدت پسند ہندو تنظیموں کو روزِ اول سے کھٹکتے ہیں لیکن اب بھارت کی سیاست کا مرکزی نکتہ ہی برصغیر پر مسلم تہذیب کے اثرات سے چھٹکارا اور مسلمانوں کی نشانیاں مٹانا بن گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تاریخی حیثیت کے حامل شہر الٰہ آباد کا نام ”پریاگ راج“ اور فیض آباد کا نام بدل کر ”ایودھیہ“ رکھا گیا۔ الٰہ آباد جیسے تاریخی شہر کا نام تبدیل کرنے کی مضحکہ خیز وجہ یہ بتائی گئی کہ شہر کا ”اصلی اور پرانا“ نام پریاگ راج ہی تھا حالانکہ الٰہ آباد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر این آر فاروقی کے مطابق تاریخی دستاویزات اور کتابوں کے مطابق پریاگ راج نام کا کبھی کوئی شہر بسا ہی نہیں، البتہ ”پریاگ“ نام سے منسوب ہندوو ¿ں کا ایک زیارتی مقام ضرور ہوا کرتا تھا، جس کا ذکر اب صرف کتابوں میں موجود ہے۔
  نریندرمودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت میں اقلیتوں کا مستقبل مسلسل خطرات کی زد میں ہے۔ بھارت میں انتہاپسند ہندو?ں کے ہاتھوں تنگ آئی اقلیتیں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ مودی کے دور حکومت میں اقلیتوں کے لیے زندگی مشکل ہوچکی ہے اور نر یندر مودی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے ویڑن کو آگے لیکر چل رہا ہے۔ مسلمانوں کو سر عام تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کو قتل کر نے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارتی حکومت برسوں سے قائم مساجد کو بھی شہید کر رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے جو اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے لیے بھی لمحہ فکر یہ ہونا چاہیے۔

مودی کی قیادت میں بھارت تمام اقلیتوں کے خلاف ہندوتوا نفرت کی آگ میں جھلس رہا ہے اورجب سے نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔موجودہ حالات پر ہی ذرا غور کر لیجئے کہ افغانستان میں تبدیل ہوتی صورتحال میں بھارتی حکومت صرف ہندو اورسکھ مہاجرین کو ملک میں داخلے کی اجازت دے کر امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ دیگر مذاہب اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے جس سے بھارتی قیادت کی امتیازی اور ہندوتوا ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ نئی دہلی میں 10 ہزار کے قریب افغان مہاجرین ہیں، جن میں سے 90 فیصد کا تعلق ہندو اور سکھ برادری سے ہے۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان سے آنے والے مہاجرین کو دو سال کیلئے سیاسی پناہ دی جارہی ہے اور ویزا کی میعاد ختم ہونے کے بعد انہیں افغانستان واپس جانا ہوگا۔اس تناظر میں بھارت کے امتیازی کردار کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف مہاجرین کو سہولیات دینے میں پاکستان کے کردار کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔زیادہ تر افغان مہاجرین کو بھارت میں سہولیات تک رسائی میں مسائل کا سامنا ہے کیونکہ ان کے پاس شہریت نہیں ہے۔


بھارتی حکومت کے امتیازی رویے کی وجہ سے بھارت میں افغان مہاجرین کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ افغان شہریوں نے پہلی بار 1970کی دہائی کے آخر میں سوویت جنگ کے دوران ہندوستان ہجرت کی۔ افغان مہاجرین کو سم کارڈ اور گیس سلنڈر جیسی بنیادی سہولیات کے حصول کے لیے بھی سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔بھارت پناہ گزینوں کے 1951 کے اقوام متحدہ کے کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں اور نہ ہی اس کا مہاجرین سے متعلق اپنا مخصوص قانون ہے۔ اس لیے یہ افغان مہاجرین کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے۔ یہ ہندوستان میں مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے امتیازی رویے کا واضح اشارہ ہے جو ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دیتی ہے۔ افغان مہاجرین بھارت میں غیر محفوظ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں افغان مہاجرین کی تعداد پاکستان اور ایران جیسے خطے کے دیگر ممالک یہاں تک کہ امریکا کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ بھارت کا سی سی اے قانون بھارت میں مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے امتیازی رویے کا واضح اشارہ ہے جو ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دیتا ہے۔ افغان مہاجرین بھارت میں بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ بھارت صرف افغان مہاجرین کی سکھ اور ہندو اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ افغان مہاجرین جن کے پاس یو این ایچ سی آر کارڈ نہیں وہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے اورنہ ہی انہیں دیگر بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے دی جاتی ہے۔


اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکمرانوں کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کو بے نقاب اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کا دنیا بھر میں پرچار کیا جائے۔ بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں ان سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور مغربی دنیاکو آگاہ کیا جائے۔ بھارت یاد رکھے کہ قصبوں، شہروں اور عمارتوں کے نام تبدیل کرنے سے وہ اس خطہ کی اسلامی شناخت کو ختم نہیں کر سکتا ہے۔ اسلامی شناخت کو مٹانے کا خواب دیکھنے والے خود نیست ونابود ہوگئے اور اب بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔

مزید :

رائے -کالم -