بھارتی وزیر خارجہ کا بھونڈا بیان
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے نئی دہلی میں کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مستقل بات چیت کا دور ختم ہو چکا ہے،ہر عمل کے نتائج برآمد ہوتے ہیں،انہوں نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر کامسئلہ آرٹیکل 370 نے ختم کر دیا ہے،اب سوال یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کس قسم کے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، معاملات چاہے مثبت سمت میں جائیں یا منفی،وہ ردعمل دیں گے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہیں گے۔
بھارتی وزیر خارجہ کا یہ بیان بھارت کی خود سری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت مسلسل پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی اور اس کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتا آیا ہے حالانکہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پہلی مرتبہ 2014ء میں بر سر اقتدار آئے تھے اور اِس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔مودی سرکار کی مسلمان دشمنی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سکیولرزم کے دعویدار بھارت میں مسلمانوں کو کھلے عام قتل کیا جاتا ہے،ایک ماہ قبل گجرات میں سٹیڈیم میں مسلمان نوجوان کو صرف مسلم کھلاڑیوں کی تعریف پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔کبھی بڑے گوشت کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کو مار دیا جاتا ہے، سکول میں مسلم بچے کو دوسرے بچوں سے تھپڑ مروائے جاتے ہیں۔نریندر مودی نے حالیہ انتخابات کے دوران اپنی مہم میں کھلے عام مسلمان دشمن بیانیے کا پرچار کیا،انہوں نے تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد جو کابینہ بنائی اِس میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے۔ نریندر مودی نے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرایا اور 2023ء میں پوری دھوم دھام سے اِس کا افتتاح بھی کیا۔ ایک برطانوی جریدے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ نے 2020ء سے اب تک پاکستان میں 20 شہریوں کو قتل کرایا ہے جس کا اعتراف بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے خود کیا اور اِسے مودی سرکار کی پالیسی قرار دیا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ میں بھارت کے کردار پر وزیراعظم مودی خود ہی روشنی ڈال چکے ہیں۔ان کی انتہاء پسند ہندوتوا کی پالیسیوں نے ملک میں بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیاہے۔اِن سب کے ساتھ ساتھ انہوں نے 2019ء میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کردیا تھا،انہوں نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک میں ضم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 منسوخ کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل تھا۔یہ آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا تھا۔اب اِسی غیر آئینی اقدام کو بنیاد بناتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر تو اب ختم ہو چکا ہے اِسی لئے پاکستان کے ساتھ مستقل بات چیت کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔شائد وہ یہ بھول رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جو اب بھی اقوام متحدہ میں موجود اور متنازعہ ہے۔
ریاست جموں و کشمیر برصغیر کی 584 شاہی ریاستوں میں سے ایک تھی۔ 1947ء میں آزادی کے وقت،اِن ریاستوں کے حکمرانوں کو اُس وقت کے وائسرائے نے مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے عوام کی خواہشات اور جغرافیائی محل وقوع کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائیں،لیکن راجہ ہری سنگھ نے کشمیریوں کی منشاء کے خلاف بھارت سے الحاق کر لیا۔ 1948ء میں دونوں ممالک کے درمیان کشمیر پر پہلی جنگ ہوئی، بھارت کے پہلے وزیراعظم خود یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے گئے، وہاں اِن کو منہ کی کھانا پڑی،اقوام متحدہ نے ریاست پر بھارتی دعوے کو مسترد کر دیا اور اہل ِ کشمیر کو حق ِ خودارادیت دینے کی قرداد منظور کی، جسے بھارت نے بھی منظور کیا۔ 5جنوری 1949ء کی قرارداد میں واضح ہے کہ ”ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا سوال آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے سے طے کیا جائے گا“۔ یاد رہے کہ اس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مختلف قراردادوں میں کشمیریوں کے حق ِ خودارادیت کو دہرا چکی ہے۔ بھارت نے ریاست میں رائے شماری کروانے پر بھی اتفاق کیا تھا لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا اور اب اس نے جغرافیائی صورتحال بدلنے کے لئے غیر کشمیریوں کو وہاں بسانا شروع کر دیا ہے تاکہ اگر کبھی رائے شماری کرانا پڑ گئی تو فیصلہ اِسی کے حق میں آئے۔کشمیر کو اِس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جاتا ہے۔ایسے میں یہ کہنا کہ یہ مسئلہ تو حل ہو چکا ہے، صرف اور صرف حقائق پر پردہ ڈالنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اکتوبر میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دے چکا ہے۔
بھارت کو اپنے رویے پر غور کرنا چاہئے، وہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ یورپ، امریکہ اور برطانیہ میں بھی شرپسندی پھیلا رہا ہے، بنگلہ دیش میں سابق حکمران شیخ حسینہ واجد کو بھی اس کی پشت پناہی حاصل تھی۔کشمیریوں کے حقوق کی پامالی کسی طور قابل ِ قبول نہیں ہے۔بھارت مذکرات کا سلسلہ بند نہیں کر سکتا اِس طرح تو وہ شملہ معاہدے سے بھی منحرف ہو رہاہے۔دنیا میں ہر مسئلہ بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوتا ہے اور ہونا چاہئے، پاکستان کو اِس حوالے سے عالمی فورمز پر آواز اٹھانی چاہئے،اِس قسم کے بے سروپا بیانات سے حقیقت بدل نہیں جائے گی،کسی بھی غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی اقدام سے کشمیر کی خاص حیثیت اور اس کی جغرافیائی حقیقت تبدیل نہیں جا سکتی۔