میڈیا کا قومی کردار؟
حال ہی میں نئی دہلی میں ہونے والے ایک سمینار میں بھارتی سپریم کورٹ کے ایک سابق جج مسٹر کتجو نے ، جو آج کل بھارتی میڈیا کی آئینی ریگولیٹری باڈی کے چیئر مین ہیں، یہ کہہ کر ”پریس کونسل آف انڈیا “ کو چونکا دیا کہ اُن میں کم از کم نوے فیصد لوگ احمق ہیں۔ اُس موقع پر جسٹس (ر) کتجو نے پاکستان کے حوالے سے بھی ناپسندیدہ بیان دیتے ہوئے ہماری تاریخ کو مسخ کرنے کی نہ صرف کوشش کی، بلکہ قیام ِ پاکستان کے جواز پر بھی سوالات اٹھائے۔ اُنہوں نے پاکستان کو ”فراڈ “ ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے انگریزوںنے جھوٹ کا سہار ا لے کر ”بوگس دوقومی نظریے“ کی بنیاد پر تخلیق کیا۔ کتجو نے پیشین گوئی کی کہ آئندہ پندرہ سے بیس سال بعد پاکستان اور بھارت ایک مرتبہ پھر آپس میں ضم ہو جائیںگے.... اگر مسٹر کتجو کے یہ منفی نظریات کسی انتہا پسند ہندو تنظیم کی طرف سے آئے ہوتے تو انہیں نظر انداز کیا جا سکتا تھا، لیکن اگر کسی تعلیم یافتہ شخص کی طرف سے، جو بھارت کی اعلیٰ عدلیہ کا ریٹائرڈ جج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ممتاز خاندان سے تعلق رکھتا ہو، ایسے بیانات آئیں تو اُنہیں پاکستان کے قیام پر حملے کے سوا اور کیا قرار دیا جا سکتا ہے ؟جہاں تک بھارتیوں کو احمق قرار دینے کا تعلق ہے تو وہ جانیں او ر بھارتی جنتا جانے، لیکن اُن کی طرف سے دونوں ممالک کے یکجا ہوجانے کی توقع کا اظہار کرنے پر ہماری طرف سے جواب فرض ہو جاتا ہے۔
چونکہ مسٹر کتجو نے یہ باتیں اُس وقت کہیں، جب وہ پریس کونسل آف انڈیا کے چیئر مین تھے تو توقع تھی کہ ہماری طرف سے بھی میڈیا ان الفاظ کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ان کا جواب دے گا، خاص طور پر وہ اخبارات جو خود کو”قوم کا نظریاتی محافظ “ قرار دیتے ہیں، اپنے اداریے میں مسٹر کتجو کی طرف سے قیام ِ پاکستان کے جواز پر حملے کو چیلنج کرتے ہوئے مناسب الفاظ میں اس کا جواب دیںگے،تاہم افسوس، ایسا نہ ہوا ۔ اس پر مَیں نے اس کا جواب دینے کے لئے ایک آرٹیکل میںبے لاگ اور معروضی انداز میں تاریخ ِ پاک و ہند کا جائزہ لیتے ہوئے اُن حالات و واقعات کا ذکر کیا جو اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ صدیوں تک اکٹھے رہنے کے باوجود ہندوو¿ں اور مسلمانوںکے درمیان خلیج کم نہیں ہو سکی، یہاں تک کہ مسلمانوں کو 1947 ءمیں الگ ریاست قائم کرنا پڑی۔ جناحؒ کی ہندو مسلم اتحاد کے لئے کی جانے والی مخلصانہ کوششوںکے باوجود بیسویں صدی کے آغاز سے ہی ان دونوں قوموں کے درمیان مخاصمت کے خدوخال گہرے ہوتے نظر آ رہے تھے، یہاں تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوو¿ںکے رویے نے مسلمانوںکو باور کرا دیا کہ اب وہ اُن کو ایک دیس میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیںہیں۔ جس چیز نے خاص طور پر مسلمانوں کے قوم پرستی کے جذبات کو مہمیز دینے میں اہم کردار ادا کیا، وہ 1937-39 ءکے درمیان مسلم اقلیتی صوبوں میں حکمران پارٹی، کانگرس، کا ناروا رویہ تھا۔ ا س نے مسلمانوں کو باور کرا دیا کہ کانگرس کی پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری بنا دیا جائے۔ چنانچہ مسلمانوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ اپنے لئے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کریں۔
میرے اُس گزشتہ مضمون کے جواب میں، جو ایک دائیں بازو کے انگریزی اخبار میں چھپا، مسٹر کتجو نے مجھے ای میل بھیجی اور کہا کہ وہ اُس اخبار کا ای میل ایڈریس چاہتے ہیں، جس میں میرا مضمون شائع ہوا تھا، کیونکہ وہ اس کا جواب دینا چاہتے ہیں۔ مَیں نے اُنہیں اُس اخبار کا میل ایڈریس بھیج دیا، لیکن اُنہیں خبردار کیا کہ کوئی پاکستانی اخبار،چہ جائیکہ وہ انگریز ی اخبار جو خود کو نظریہ پاکستا ن کا وارث قرار دیتا ہے،ان کے نظریات کو جگہ نہیں دے گا، کیونکہ وہ پاکستان کے قیام کے جواز کی نفی کرتے ہیں، تاہم مَیں غلطی پر تھا۔ اُس انگریز ی اخبار نے نہ صرف نصف سے بھی زیادہ ادارتی صفحے پر مسٹر کتجو کا مضمون”Truth about Pakistan“ شائع کیا، بلکہ صحافتی اصول وضوابط کو پامال کرتے ہوئے میرے اور مسٹر کتجو کے درمیان ہونے والی ای میل گفتگو ، جو دوافراد کی نجی گفتگو ہوتی ہے ، کو بھی بلااجازت شائع کر دیا۔ مسٹر کتجو، جو ایک ریٹائرڈ جج ہیں ، اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کسی قیمت پر بھی میری میلز کو اجازت کے بغیر کسی اخبار کو شائع کرنے کے لئے فراہم نہیں کرسکتے تھے، لیکن اُنہوںنے ایسا کیا اور اس پاکستانی اخبار نے اُسے شائع کر دیا۔
اپنے مضمون میں مسٹر کتجو لکھتے ہیں” پاکستان کی تعمیر ہی ایک خرابی کی بنیاد پر تھی ۔ انگریزوں نے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“کی پالیسی کے تحت دو قومی نظریہ کو اختراع کیا اور غیر فطری طریقے سے ہندوستان کو تقسیم کر دیا، چنانچہ پاکستان او ر ہندوستان بہت جلد ایک دوسرے میںضم ہو جائیںگے“....اپنے مضمون میں اُنہوں نے بہت سے تاریخی حقائق کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی بہرحال انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں.... لیکن حیرت اس بات پرہے کہ مسٹر کتجو کے اس مضمون کی اشاعت ایک ایسے پاکستانی اخبار میں ہوئی جو دائیں بازو کے نظریات کے لئے مشہور ہے اور اسے نظریہءِ پاکستان کا ” محافظ “ سمجھا جاتا ہے۔ آزاد صحافت ایک طرف ،لیکن یہ بات ناقابل ِ یقین تھی کہ کوئی قومی روزنامہ ایسے مواد کو شائع کردے جو اس ملک کی اساس ہی کی نفی کرتاہو!
یہ بات یہیں پر ہی ختم نہیںہوئی، بلکہ سات مارچ کو ”دی انڈین ایکسپریس “ نے لیڈ لگا دی” Pakistan all-praise for Markandey Katju“....گویا بھارتیوں کو پاکستانیوں کی تبدیل ہوتی ہوئی سوچ پر بھی حیرت ہوئی تھی۔ بھارتی اخبار لکھتا ہے” وہ پاکستانی اخبار جو روایتی طور پر بھارت مخالف رہا ہے ، نے حیرت انگیز طور پر جسٹس (ر) کتجو کے مضمون کو جگہ دے دی“.... ”دی انڈین ایکسپریس “ لکھتا ہے کہ وہ مضمون صرف اس لئے شائع ہو ا، کیونکہ اخبار کے مالک کی بیٹی نے جو عملی طور پر اخبار چلا رہی ہے، اسے قابل ِ اشاعت سمجھا۔ بھارتی اخبار نے اُس لڑکی کا بیان بھی شائع کیا” مجھے توقع تھی کہ اس کا انتہائی جوشیلا جواب آئے گا اور ایسا ہی ہوا۔ میرے والد صاحب بھی جانتے تھے کہ مَیں اسے شائع کررہی ہوں، چنانچہ اُن کی رضا مندی بھی شامل تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ مَیں نے مسٹر کتجو کا مضمون شائع کیا“۔
بظاہر تو اس واقعہ سے فراخدالانہ صحافت کی غمازی ہوتی ہے، لیکن کچھ چیزیں پریشان کن ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ اس پاکستانی اخبار کی جانی پہچانی پالیسی میں ہونے والی ایک ڈرامائی تبدیلی تھی۔ بظاہر کسی نے بھی اس بات کونوٹ نہیںکیا.... ”پی سی پی“ کے ضابطہ ِ اخلاق کی شق کسی بھی ایسے مواد کی اشاعت پر پابندی لگاتی ہے، جس سے پاکستان اور اس کے عوام کی توہین کا پہلو نکلتا ہو اور جو ریاست کی خود مختاری اور سلامتی کے تقاضوں پر ضرب لگاتا ہو۔ ایسا لگتا تھا کہ اس اخبار نے ایک نیا صفحہ پلٹ لیا ہو۔ بہرحال مسٹر کتجو نے یہیں پر بس نہیں کی ۔ جب مَیں نے اُس کے مضمون کے جواب میں پھر ایک مضمون لکھا تو اُسی پاکستانی انگریزی اخبار نے اُسے بہت زیادہ تراش خراش کے بعد شائع کر دیا۔
اس مضمون پر ملنے والی فیڈ بیک نے مجھے حیران کر دیا۔ کسی پاکستان قاری نے کچھ بھی لکھنے کی زحمت نہیںکی تھی، لیکن سرحد پار سے بھارتیوں نے حد کر دی۔ ایک مرتبہ پھر اُسی پاکستانی انگریزی اخبار نے وہ تمام فیڈ بیک، جس میں اخلاق سے گری ہوئی زبان، نظریہءپاکستان کی تضحیک اور پاکستان اور بانی ِ پاکستان، قائد ِ اعظم محمد علی جناح ؒ کے بارے میں نازیبا کلمات درج تھے، شائع کر دی۔ یہ فیڈ بیک نہیں، سراسر گالی گلوچ تھی جو ہمارے قومی روزنامے نے شائع کی تھی۔ دنیا کا کوئی بھی اخبار اس طرح کے مواد کو جگہ نہیں دیتا ، بلکہ میرا خیال ہے کہ بھارتی عوام کے قائد ِ اعظمؒ کے بارے میں نازیبا تبصروںسے تو مسٹر کتجو کا سر بھی شرم سے جھک گیا ہو گا اگر شرم نہیں آئی تو اُس پاکستانی انگریزی اخبار کو ہی نہیں آئی۔
مسٹر کتجو نے پاک بھارت ادغام کی تھیوری پیش کرتے ہوئے گری ہوئی زبان استعمال نہیںکی تھی ۔ جناح کا کرادر اتنا بلند تھا کہ اُن کے مخالفین نے بھی اُن کو شاندار الفاظ میں خراج ِ تحسین پیش کیا ہے۔ جسٹس (ر)کتجو کے دادا ڈاکٹر کیلاش ناتھ کتجو، جو انڈیا کے ایک نامی گرامی وکیل تھے اوراُنہوںنے اپنے ملک کی آزادی کی تحریک میں حصہ بھی لیا، پھر مغربی بنگال کے گورنر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں، قائد ِ اعظم کو شاندار الفاظ میں خراج ِ تحسین پیش کرتے ہوئے اُنہیں” نہ صرف انڈیا، بلکہ تمام دنیا کا اہم ترین انسان “ قرار دیاتھا۔
آزادی کے بعد قائد ِ اعظم کی زندگی نے وفانہ کی ، اس لیے وہ پاکستان کو ”دنیا کی عظیم ترین اقوام میںسے ایک “بنانے کے خواب کو حقیقت کا روپ نہ دے سکے۔ بلاشبہ آزادی کے بعد ہماری زندگی بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہی، لیکن اس کی وجہ یکے بعد دیگر ے مختلف حکومتوں کی ناکامی تھی ، اس میں پاکستان کے نظریے یاقومیت کے تصور کا کوئی قصور نہ تھا۔ ایک انتہا پسند ہندو کے پاس پاکستان کے نظریے کو چیلنج کرنے اور اس پر تنقید کرنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے لیکن جب مسٹر کتجو جیسا تعلیم یافتہ شخص ، جو سطحی تعصبات سے بالا تر ہو، ایسی بات کرے تو ہمیں بھی مڑکر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہمارے ہاں کوئی خرابی تو نہیں۔ مسٹر کتجو کے جو بھی محرکات ہوں، اُنھوںنے ہمیں آئینہ ضرور دکھا دیا ہے اور اس آئینے میں غیروںکے ساتھ ساتھ کچھ اپنوں کے چہرے بھی نظر آگئے ہیں۔ اس افسوس ناک صورت ِ حال سے بننے والی دھندلی تصویر میں ہم بہت سے کھوکھلے انسانوں کے تبدیل ہوتے ہوئے چہروں کو دیکھتے ہیں اور یقین نہیں آتا کہ یہ قومی وقار اور خود مختاری کے گن گانے والے اُس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں ”نیاراگ ہے ساز بدلے گئے“ ۔ اس ملک کو لیٹرے اور طالع آزما حکمرانوںنے تو جی بھر کے لوٹا ہی ہے، افسوس، اب احساس ِ زیاں بھی جاتا رہا ہے۔ ہم ایک ایسی اجتماعی کاروکاری کا شکا ر ہیں جس میں ہماری بندوق کی زد میں ہمارا ہی سینہ ہے۔ بدعنوانی، نااہل قیادت، مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت، کتنی جونکیں اسے وطن کی رگ ِ جاں سے خون نچوڑ رہی ہیں ۔ کیا اب بھی میڈیا کے پنڈت صرف ریٹنگ بڑھانے کی دھن میں لگے رہیںگے؟ کیا ریاست کا چوتھا ستون ”عمارت “کا بوجھ اٹھانے سے پہلے خود کو لگی دیمک سے بھی بچا سکتا ہے یا نہیں؟کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم قومی ترجیحات کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دینے کا حوصلہ پیدا کریں، ورنہ زمانہ توقیامت کی چال چل ہی رہا ہے۔ ٭
[نوٹ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔]