حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت اور قحط سالی!

حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت اور قحط سالی!
حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت اور قحط سالی!
کیپشن: kashif

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جناب من! اگر غور کیا جائے تو اموات میں سے سب سے بھیانک موت بھوک کی وجہ سے مرنا ہے ۔ بھوک کا شکار ہونے والا بہت دنوں تک موت سے جنگ کرتا ہے اور بالآخر اس کی زندگی کا چراغ گُل ہو جاتا ہے۔ جسمانی اعضاءمیں سے سب سے آخر میں اس کا دماغ مرتا ہے کہ آخری سانس تک دماغ کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ خیال بڑی حسرت کے ساتھ موجود رہتا ہے کہ شاید کہیں سے کچھ کھانے کی چیز مل جائے۔ بہر حال یہ بہت بھیانک اور درد ناک موت ہوتی ہے، جس کے شکار آج واحد اسلامی ایٹمی طاقت کا شرف رکھنے والے ملک کے ایک حصے کے لوگ ہورہے ہیں، جس کے ذمہ دار وہاں کے جاگیردار اور وڈیرے ہیں، جن کی وہاں حکومت ہے اور جن کی نااہلی، بے حسی اور مجرمانہ غفلت کے باعث یہ سانحہ وقوع پذیر ہوا ہے۔ وہاں کے بھوک سے سسکتے، بلکتے اور تڑپتے بچوں اور ان کی میلے کچیلے اور پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس بھوک سے نڈھال مائیں جن کی گریہ و زاری اور آہ و بکا پتھر سے پتھر دل کو بھی موم کر دے، مگر ابھی تک وہاں کے بے حس وڈیرے سنگدلی کی مجسم تصویر بنے، منہ میں گھنگھنیاں بھرے بیٹھے ہیں ۔

 یہ حقیقت ہے کہ جب تک یہ کاہل اور نااہل لوگ تھر کے عوام پر ”پیر تسمہ پا“ بن کر مسلط رہیں گے، کسی بھی خوشی اور آسودگی کی خبر ان کے لئے غیر معروف ہی رہے گی۔ تاریخ الخلفاءمیں لکھا ہے کہ ایک سال قحط پڑا تو پورا سال حضرت عمر فاروقؓ نے گھی اور گوشت کا استعمال نہ کیا، مگر ہمارے نازک مزاج حکمران کیا اس طرح کی قربانیاں دے سکتے ہیں اور کیا موجودہ حالات میں، جبکہ تھرپارکر میں تقریباً گیارہ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب وہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں، جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد معصوم بچے بھوک اور بیماری سے راہی ملک عدم ہو چکے ہیں، وہاں کے گروگھنٹال باقی ماندہ بے بس اور لاچار لوگوں کے لئے کیا راحت اور آسودگی کا سامان کرتے ہیں؟اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا، مگر ان کو حضرت عمرؓ کی معرکة الآراءتقریر کا کچھ حصہ لکھ کر بتانا چاہتا ہوں کہ جو کتاب الخراج مطبوعہ مصر کے صفحہ نمبر 141,140 پر مرقوم ہے.... (یہ قاضی ابو یوسف یعقوب کی مشہور کتاب ہے)
 حضرت عمرؓ نے فرمایا: ” لوگو! مجھے تمہارے اموال میں اس طرح کا حق ہے کہ جو ایک یتیم بچے کے ولی کا اس کے مال میں ہوتا ہے۔ اگر مَیں تونگر ہوں گا تو تمہارے اموال میں سے کچھ نہیں لوں گا اور اگر مفلس ہوں گا تو معروف طریق پر وہ لوں گا۔مَیں کسی کو بھی کسی دوسرے پر ظلم کرتے دیکھوں گا تو زیادتی کرنے والے کے ایک گال کو زمین بوس کر کے دوسرے گال پر اپنا پاﺅں رکھ دوں گا، حتیٰ کہ وہ حق کا اقرار کر لے گا“۔ نیز فرمایا: ”اے لوگو! تمہارے مجھ پر کچھ حقوق ہیں، تمہارا مجھ پر ایک حق تو یہ ہے کہ مَیں تمہارے اموال (خراج وغیرہ) میں سے حق کے سوا کچھ بھی نہ لوں اور تمہارا یہ بھی مجھ پر حق ہے کہ جو اموال میرے قبضہ میں آئیں ،ناحق طور پر خرچ نہ ہوں اور تمہارا ایک یہ بھی حق ہے کہ مَیں تمہارے اموال کو اللہ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق بڑھاﺅں اور تمہاری سرحدوں کو مضبوط کروں“۔
 یہ صرف قیل و قال کے طور پر نہیں تھا،بلکہ عملی طور پر آپؓ نے اپنے فرمودات پر عمل کر کے دکھایا، چنانچہ ایک بار آپؓ بیمار ہوئے تو اطباءنے علاج میں شہد تجویز کیا جو اس وقت بیت المال میں تھا۔ آپؓ نے مسجد نبوی میں جا کر پہلے لوگوں سے شہد کے استعمال کی بابت اجازت طلب کی، تب جا کر اُسے بطور دوائی استعمال کیا ،مگر ہمارے ملک میں صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے کہ ٹیلی ویژن پر تھرپار کر کے صحرائی باسیوں کو جب ریت پر ننگے پاﺅں نامعلوم منزل کی طرف کوچ کرتے دیکھا تو یہ روح فرسا نظارہ دیکھ کر دل میں ایک ہُوک سی اُٹھی کہ زہریلے اور خطرناک سانپوں، بچھوﺅں اور کیڑے مکوڑوں کی موجودگی میں ایسے چلنا کہ ایک عام سی چپل کا حصول بھی ان کے لئے ممکن نہیں رہا، جبکہ دوسری طرف سنگدل وڈیرے، جن کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور ہے۔ ”سب اچھا ہے“ کے راگ الاپتے نہیں تھکتے اورگندم کی بوریاں خزانے میں پڑی پڑی گل سڑ جاتی ہیں ،مگر وقت پر محتاجوں کو تقسیم نہیں کی جاتیں بقول غالب:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے، لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
پھر تھرپارکر کے معصوم لوگ تو روکھی سوکھی روٹی پر ہی قانع ہیں اور ان کے بچے جس تہذیب اور ایثار سے اپنے حصے کا کھانا بھی دوسرے بچوں کو دیتے نظر آتے ہیں، جبکہ خود اپنی پروا نہیں کرتے۔ یہی وہ ایثار اور قربانی کا جذبہ ہے جو ہمارے حکمرانوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی اشدضرورت ہے۔بہر حال مستقل بنیادوں پر تھرپارکر کے لوگوں کے مسائل کا حل ناگزیر اور وقت کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں کنوﺅں اور نہروں کی کُھدائی ایک خاص اہمیت رکھتی ہے ، یہی طریقہ ہے جس سے قحط اور خشک سالی سے بچا جا سکتا ہے۔ 18ویںہجری میں جب عرب میں شدید قحط پڑا تو حضرت عمرؓ نے مصر سے غلہ منگوایا اور آپؓ نے 99(ننانوے) میل لمبی نہر کھدوا کر دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملا دیا، جس کی وجہ سے زراعت کو خاصی ترقی حاصل ہوئی۔ یہی طریقہ ہے، جس سے موات (غیر مزروعہ زمین) کو آباد کیا جا سکتا ہے اور امید ہے کہ تھرپارکر کوئلہ سے جب بجلی پیدا کی جائے گی تو وہاں کے باسیوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر پاکستانی کو سلامت رکھے۔ آمین:

مزید :

کالم -