ایم کیو ایم سے پاک سرزمین پارٹی تک
پاک سرزمین پارٹی کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ قبل از وقت اس بارے کوئی بھی رائے قائم کرنا یا کچھ کہنا شاید مشکل ہے۔ ایم کیو ایم سے پاک سرزمین پارٹی تک کا یہ سفر مصطفےٰ کمال نے کیسے کاٹا، ایک سکہ بند سیاسی پارٹی کو چھوڑ کر اپنے لیے ایک نئے سیاسی راستے کا انتخاب کیوں کیا؟ اس بارے وہ کئی بار اظہار خیال کرچکے ہیں۔ اُن کا یہ ’’اظہارِ خیال‘‘ کئی بار میڈیا کے سامنے ہوا اور نجی محفلوں میں بھی۔ اُن کی راہ اور سمت تو اچھی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اقوال پر پورا اتر یں گے بھی یا نہیں؟مصطفےٰ کمال نے اعلان کیا ہے کہ پاک سرزمین پارٹی، ایم کیو ایم کی طرح نہیں ہو گی، یعنی صرف مہاجروں کی نمائندگی نہیں کرے گی، نہ اُن کی نمائندہ جماعت کہلائے گی، بلکہ اس میں ہر مذہب، فرقے اور قومیت کے لوگ شامل ہوں گے، یعنی پاک سرزمین پارٹی میں جو لوگ شامل کئے جائیں گے وہ اردو بولنے والے ہی نہیں ہوں گے، سندھی، بلوچ، پنجابی، پٹھان اور کشمیری بھی ہوں گے۔ ہندو بھی شامل کئے جائیں گے اور عیسائی بھی۔ یعنی ہر مذہب کے پیروکاروں کے لیے اس نئی جماعت کے دروازے کھلے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاک سرزمین پارٹی کو لسانیت سے پاک ایک قومی جماعت کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ جس کے دفاتر کراچی اور حیدرآباد میں قائم کر دئیے گئے ہیں۔ سندھ کے مزید شہروں میں پارٹی دفاتر قائم کرنے کے بعد مصطفےٰ کمال اور اُن کے ساتھی پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی کیا ایم کیو ایم میں کوئی واضح دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو گئی ہے، یا پھر اگلے چند ماہ کے دوران اس کا کوئی واضح امکان موجود ہے۔ قیاس آرائیاں تو بہت ہو رہی ہیں، رائے قائم کرنے والے رائے بھی قائم کر رہے ہیں۔ تبصرے بھی کئے جا رہے ہیں لیکن جب تک کچھ سامنے نہیں آ جاتا عملی طور پر کچھ ہوتے نہیں دیکھ لیتے۔ واضح طور پر اپنی رائے دینے سے قاصر ہیں۔ انیس قائم خانی، رضا ہارون، وسیم آفتاب، افتخار احمد، انیس ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر صغیر، مصطفے کمال کے قافلے میں پہلے سے شامل ہیں۔ یہ تمام شخصیات ایم کیو ایم کے حوالے سے خوب جانی، اور پہچانی جاتی ہیں۔ افتخار احمد اور ڈاکٹر صغیر سندھ اسمبلی کی نشستیں چھوڑ کر مصطفےٰ کمال کے قافلے میں شامل ہوئے ہیں، جو بھی شامل ہوا اُس نے الزامات کا پٹارہ بھی کھولا۔ سب کی توپوں کا رُخ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرف ہی رہا۔ الزامات بڑے سنگین ہیں، اُن کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ الطاف حسین کا ان سے جان چھڑانا مشکل نظر آتا ہے۔ گھر کے بھیدی اس طرح کی باتیں کرنے لگیں تو یقین آ ہی جاتا ہے۔ شراب نوشی سے لے کر ’’را‘‘ سے تعلقات تک کی جو کہانیاں ایم کیو ایم کے ان لیڈروں نے سب کے سامنے بیان کی ہیں۔ لوگوں کو وہ ازبر ہو گئی ہیں، انہیں دہرانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ ان پر کوئی رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب کسی بات پر یقین آنے لگے تو رائے قائم نہیں کی جاتی۔ یقین کیا جاتا ہے اور فیصلے کی گھڑی ہوتی ہے۔
مصطفےٰ کمال اور اُن کے ساتھیوں نے جو کچھ کہا، برملا اُس پر یقین کر لینے کو جی چاہتا ہے۔ شک کی گنجائش باقی نہیں ہے۔ ہم الطاف بھائی کو ’’شک‘‘ کے صدقے چھوڑ دیں یا معاف کر دیں ایسا اب ممکن نہیں ہے۔ شراب نوشی، الطاف حسین کا ذاتی فعل سہی، لیکن ’’را‘‘ سے ’’فنڈنگ‘‘ والا معاملہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے۔ اس ’’معاملے‘‘ سے ہماری سلامتی جُڑی ہے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ الطاف حسین یا اُن کے ہمراہیوں کے لیے دل میں کوئی نرم گوشہ بھی رکھا جائے۔مصطفےٰ کمال اور ان کے ساتھیوں نے پاک سرزمین پارٹی قائم کر کے ایم کیو ایم میں ایک بڑا ’’ڈینٹ‘‘ ڈالا ہے۔ اگرچہ ایم کیو ایم کی مقامی قیادت اس سے خائف نظر نہیں آتی۔ وہ اسے ’’بچہ پارٹی‘‘ قرار دے رہی ہے۔ لیکن آنے والوں دنوں میں اگر ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بڑی تعداد پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہو گئی تو کہا جا سکے گا کہ ایم کیو ایم نے اپنا وجود کھو دیا ہے۔
اس سے قبل آفاق احمد اور عامر خان نے بھی ایم کیو ایم حقیقی تشکیل دی تھی۔ وہ الطاف حسین سے کھلم کھلا بغاوت کرتے نظر آئے تھے۔ مگر ’’حقیقی‘‘ کو اُردو بولنے والوں میں وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی، جو ایم کیو ایم کو اردو بولنے والوں میں حاصل تھی۔ ’’حقیقی‘‘ سیاسی طور پر مرگئی اوروہ مرتبہ بھی حاصل نہ کر سکی جس کے لیے اس کا وجود عمل میں آیا تھا۔ ایم کیو ایم ماضی میں سخت ترین بحرانوں سے گزری ہے، کراچی میں ایک بڑے آپریشن کا بھی سامنا کیا۔ لیکن سخت اور مشکل ترین حالات کے باوجود اس کا وجود نہ صرف باقی ہے، بلکہ آج وہ پہلے کی طرح قائم ہے۔ حال ہی میں یوم تاسیس کے موقع پر جناح گراؤنڈ میں ایم کیو ایم کا ہونے والا بڑا جلسہ اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ اردو بولنے والے اب بھی ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی وجود میں تو آئی ہے۔ چلے گی کیسے؟ یہ سب کچھ ، کچھ ہی عرصے میں واضح ہو جائے گا۔ پاک سرزمین پارٹی ’’ایم کیو ایم حقیقی‘‘ ثابت ہوتی ہے یا اس میں کوئی دم خم ہو گا۔ اسی کا سب کو انتظار ہے۔ ایم کیو ایم کی مقامی قیادت کا کہنا ہے کہ مصطفےٰ کمال کو اسٹیبلشمنٹ کی ’’سپورٹ‘‘ حاصل ہے۔ لیکن مصطفےٰ کمال اُس سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاربھی کبھی کبھی ایسا ہی مؤقف اختیار کرتے ہیں۔ لیکن اُسی الزام کو سچ مانا جاتا ہے جس کا کوئی ثبوت ہوتا ہے۔مصطفےٰ کمال اور اُن کے ساتھی حیدرآباد میں پاک سرزمین پارٹی کے ضلعی دفتر کا افتتاح کرنے حیدرآباد گئے تو کارکنوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا جسے دیکھ کر لگا کہ مصطفےٰ کمال کی باتیں لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی ہیں۔ مصطفےٰ کمال اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اُن کی بڑی کامیابی اور فتح ہو گی۔ لیکن یہ ’’فتح‘‘ بڑی فتح میں اُس وقت ہی تبدیل ہو سکتی ہے جب ایم کیو ایم کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ، کارکن اور رہنما پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونے لگیں گے۔
مصطفےٰ کمال اور اُن کے ساتھی باتیں اچھی کرتے ہیں۔ انہیں اچھی اور بہتر گفتگو کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے۔ اچھی گفتگو ایسا جادو ہے جو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ مصطفےٰ کمال اوراُن کے ساتھیوں رضا ہارون، انیس قائم خانی، وسیم آفتاب، افتخار احمد، ڈاکٹر صغیر اور انیس ایڈووکیٹ کو گفتگو کا یہ سلیقہ اور طریقہ اچھی طرح آتا ہے، سر چڑھ کر بولنے لگا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت سے ایک مضبوط سیاسی جماعت بن کر سامنے آ سکتی ہے جو کراچی میں ایم کیو ایم ہی نہیں، پی ٹی آئی کے لیے بھی بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ جس کے ووٹرز اور سپورٹرز میں اضافہ ہوا ہے۔