’’گھر جا کے شکایت لاواں گی‘‘۔۔۔ وقار یونس وزیراعظم کو ملیں گے؟

’’گھر جا کے شکایت لاواں گی‘‘۔۔۔ وقار یونس وزیراعظم کو ملیں گے؟
’’گھر جا کے شکایت لاواں گی‘‘۔۔۔ وقار یونس وزیراعظم کو ملیں گے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہاکی کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم جس زوال کا شکار ہوئی اس کے حوالے سے ہم نے کئی بار نشاندہی کی اور تجویز بھی کیا تھا کہ نہ صرف کرکٹ بورڈ کے پیر ہائے تسمہ پا سے نجات حاصل کی جائے، بلکہ یہ جو محترم چیف کوچ اور سلیکشن کمیٹی ہے اسے بھی فارغ کر دیا جائے، اب ٹیم کی واپسی کے بعد جو سلسلہ ہائے الزامات شروع ہوا تو ان سب باتوں کی تصدیق ہو گئی جو ان سطور میں تحریر کی جاتی تھیں، جہاں تک ہمارے موجودہ چیف سلیکٹر اور ٹیم منیجر کا تعلق ہے تو یہ حضرات بہت ہی سینئر اور تجربہ کار ہیں کہ بورڈ کی جان ہی نہیں چھوڑتے، کبھی سلیکٹر، کبھی منیجر، کبھی گیم انچارج یا پھر کسی اور منفعت بخش عہدے پر برقرار رہتے ہیں، اب اگر ذکر کیا جائے اپنے چیف کوچ صاحب کا تو انہوں نے بورڈ کے اندر سیاست کا واویلا کیا اور یہ تک کہا کہ بورڈ کے اندر اتنی سیاست ہے کہ اتنی مُلک میں بھی نہیں ہوتی اور یہی محترم چیئرمین بورڈ کا نام لے اور ان پر الزام لگا کر وفاقی وزیر کھیل ریاض پیرزادہ کے پاس تشریف لے گئے ان سے شکایت لگائی اور کہا کہ وہ وزیراعظم سے مل کر اپنی ’’دُکھ بھری‘‘ داستان سنانا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی اور انہوں نے جو رپورٹ بورڈ کو پیش کی تھی اسے ’’میڈیا تک لیک‘‘ کر دیا گیا۔


وقار یونس بلاشبہ ایک اچھے باؤلر تھے اور بقول خود اپنے وقت کے ہیرو تھے، لیکن کوچ کی حیثیت سے وہ ناکام ہوئے ان کے حساب میں کامیابی نہیں ناکامی ہے اور جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو ان کا الزام درست ہی محسوس ہوتا ہے، لیکن وہ خود جو کرتے تھے اور کر رہے ہیں کیا یہ سیاست نہیں؟ ان کا اپنا آبائی تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور ریاض پیرزادہ بھی اِسی علاقے سے منتخب ہیں، انہوں نے نہ صرف ملاقات کی بلکہ میڈیا کے لئے فوٹیج بھی بنوائی اور یقین دلایا کہ وزیراعظم سے ملاقات کی کوشش کریں گے، ساتھ ہی محترم وفاقی وزیر نے اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ قومی ہیرو کے ساتھ بورڈ کو ایسا سلوک نہیں کرنا چاہئے، وزیر محترم نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ بہرحال ابھی تک چیف کوچ سے یہ کیوں نہیں دریافت کیا گیا کہ ان کی مستقل رہائش وہاڑی میں ہے؟ یا پھر وہ آسٹریلیا میں رہتے ہیں!


جہاں تک بورڈ کا تعلق ہے تو اس پر مسلسل تنقید ہوتی ہے اور اب بھی کوئی حمایتی نہیں کہ یقیناًانتظامی کمزوریاں ہیں اور مستقل روگ بھی ہیں، لیکن کیا یہ نظم و ضبط کی بات ہے کہ جونہی محترم چیف کوچ کو احساس ہوا کہ ان کو مزید توسیع نہیں ملے گی تو انہوں نے سازش، سازش اور سیاست، سیاست کرنا شروع کر دیا۔ وقار یونس کی جو رپورٹ لیک ہوئی اس میں تو الزام لگائے گئے، آفریدی نیا شکار ہے ورنہ پہلے تو نشانے پر احمد شہزاد اور عمر اکمل تھے جن کے بارے میں کھلے بندوں الزام لگائے گئے اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ کھلاڑی بورڈ کے نظم و ضبط کے پابند ہیں اور بول نہیں سکتے، ایسا کریں گے تو نوٹس مل جائے گا، پھر یہ بہتر ہوتا کہ یہ الزام بورڈ کی میٹنگ میں لگاتے اور ان سے جواب طلبی ہوتی تاکہ وہ بھی اپنی صفائی میں کچھ کہہ سکتے، بری کارکردگی کی کوئی حمایت نہیں کر سکتا۔ احمد شہزاد اور عمر اکمل فِطری کھلاڑی ہیں اس کے باوجود اگر ان کی کارکردگی درست نہیں تو ان کو بنا کر رکھنا بھی درست نہیں، کوئی بھی اس کی حمایت نہیں کرے گا۔
یہی فارمولا شاہد خان آفریدی کے لئے ہے۔ وہ بہت بڑے کھلاڑی ہیں اور ماضی میں ریکارڈ کارکردگی رہی، لیکن جب سے ان کی ’’بوم بوم‘‘ متاثر ہوئی وہ تنقید کی زد میں چلے آ رہے ہیں۔ وقار یونس نے ان کو بھی نالائق قرار دیا، انہوں نے جواب میں کہا ’’ مَیں کسی کو جواب دہ نہیں، قوم کو ہوں اور قوم سے معافی مانگتا ہوں‘‘ ویسے انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کو اپنا بیان لکھایا ہے، کیا ان کا بیان لیک کیا جائے گا؟ اور احمد شہزاد اور عمر اکمل اور محمد حفیظ کو ’’جان کی امان‘‘ کا تحفظ دے کر الزامات کی وضاحت کا موقع دیا جائے گا، اگر ایسا نہیں ہو گا تو یہ ناانصافی ہو گی، اِسی نوعیت کا کچھ مسئلہ شعیب ملک کا ہے جو اندر باہر ہوتے رہتے ہیں اب ان کے خلاف کپتانی کے لئے سازش کا الزام ہے، وہ جواب میں کہہ چکے کہ ایسا نہیں سوچتے، وہ کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم سے باہر اور اندر آتے جاتے رہتے ہیں، تاہم یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ ایک عرصے سے سرفرز احمد کی کپتانی کے چرچے ہیں اور شعیب ملک بخوبی جانتے ہیں کہ جو لابی یہ بات کر رہی ہے وہ اتنی طاقتور ضرور ہے کہ اسے کپتان بنا کر رہے گی، پھر وہ کپتانی کے لئے سازش کیوں کریں گے؟ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے بھی محترم وقار یونس اور شاہد خان آفریدی کی سخت باتوں کا جواب دیا ہو، یہی ’’جرم‘‘ تو احمد شہزاد اور عمر اکمل کر چکے جس کی سزا ان کو اب ٹیم سے اخراج کی صورت میں مل جائے گی؟ حالانکہ ان کو خوشگوار ماحول میسر آ جائے تو فطری سڑوک پلیئر ہیں اور ایسے کھلاڑی فی الحال تو کم ہیں۔


بورڈ کی طرف سے جو پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی اس کی سفارشات بھی سامنے آ گئی ہیں، انہوں نے چیف کوچ سمیت پوری ٹیم انتظامیہ اور سلیکشن کمیٹی کو فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ چھ سات کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے ہیں اور یقیناًان نکات پر غور بھی کیا جائے گا، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ بیک وقت آدھی سے زیادہ ٹیم تبدیل کر دی جائے۔ دُنیا بھر میں ایسا نہیں ہوتا، کھلاڑی آتے جاتے ہیں اور کارکردگی کی بنیاد پر ایسا ہوتا ہے، لیکن یہاں تو ’’پرچی‘‘ کا بھی رواج ہے اور یہ پرچی تعصب کی ہوتی ہے جسے خود وقار یونس نے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ہمیں یاد ہے کہ کرکٹ ٹیم ہو یا کوئی اور کھیل ہر ایک میں پسند نا پسند تو ہوتی ہے۔ کیا عبدالحفیظ کاردار اور فضل محمود (مرحومین) کے درمیان تناؤ نہیں تھا اور کیا عمران خان اپنے ساتھ ماجد خان کو بھی لے کر کیری پیکر سرکس میں نہیں گئے؟ اور ان کی عدم موجودگی میں وسیم باری کی قیادت میں جو نئی ٹیم بنی اس نے انگلینڈ میں سیریز نہیں ہاری اور پھر عمران خان اوپر کے دباؤ کے ذریعے واپس آئے تو عبدالحفیظ کاردار نے بورڈ کی سربراہی سے استعفیٰ نہیں دیا تھا؟


ایسا ہر دور میں ہوا، عمران خان کپتان تھے تو جاوید میانداد سے تناؤ تھا، وقار یونس نے کبھی بھی انضمام الحق کو تسلیم نہیں کیا، لیکن یہ سب ہوتے ہوئے بھی مجموعی کارکردگی متاثر نہیں ہوئی تھی، اب لازم ہو گیا کہ چیف پیٹرن(وزیراعظم) براہ راست مداخلت کریں، پورے بورڈ کو فارغ کریں، کم سے کم متنازعہ اور کھیل سے واقف حضرات کو موقع دیں، انتظامی اہلیت کی حامل کسی شخصیت کو شامل کریں کہ کرکٹ بورڈ کا ڈھانچہ از سر نو استوار کیا جائے، کیا کبھی کسی نے پوچھا کہ ذاکر خان، انتخاب عالم، ہارون الرشید اور محمد اکرم کی خدمات کتنی اور ان کے اندر ماہرانہ صلاحیت کیسی ہیں۔ اللہ کا نام لیں قوم پر رحم کریں اور ڈھانچے کو درست ہونے دیں، پیر ہائے تسمہ پاء سے نجات ضروری ہے۔

مزید :

کالم -