نیو کلیئر سیکیورٹی سربراہ کانفرنس اور پاکستان

نیو کلیئر سیکیورٹی سربراہ کانفرنس اور پاکستان
نیو کلیئر سیکیورٹی سربراہ کانفرنس اور پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چوتھی نیو کلیئر سیکیورٹی سربراہ کانفرنس امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں 31مارچ اور یکم اپریل کو منعقد ہوئی جس میں 50 ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف شریک نہیں ہوئے اور ان کی نمائندگی وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے کی۔ نیو کلیئر سیکیورٹی سربراہ کانفرنس کتنی اہمیت کی حامل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے دنیا میں موجود تقریباً ڈھائی سو ممالک میں سے صرف ان پچاس ملکوں کو مدعو کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے نیوکلیئرٹیکنالوجی میں اہم ہیں۔ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے اس لئے وزیر اعظم پاکستان بھی اس کانفرنس میں لازمی طور پر شریک ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے وزیراعظم میاں نواز شریف کی امریکہ روانگی سے قبل اتوار 27 مارچ کو ایسٹر کے تہوار کے موقع پر لاہور کے گلشن اقبال پارک میں خود کش دھماکہ ہوا جس میں درجنوں لوگ جاں بحق اور کئی سو زخمی ہوئے۔ اسی دن ممتاز قادری کے چہلم کے موقع پر اسلام آباد میں امن و امان کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ،جس کی وجہ سے وزیراعظم نے اپنا برطانیہ اور امریکہ کا دورہ منسوخ کر دیا، پہلے برطانیہ دورے کی منسوخی کی خبر آئی پھر امریکہ بھی نہ جانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ میرے نزدیک باوجود اس بات کے کہ سانحہ گلشن اقبال بہت دلخراش تھا اور اسلام آباد میں بھی دھرنے نے ایک پیچیدہ صورت حال اختیار کر لی تھی، وزیراعظم میاں نواز شریف کا امریکہ نہ جانے کا فیصلہ مستحسن نہیں تھا کیونکہ وہ ایک روٹین کا سرکاری دورہ نہیں تھا ،بلکہ نیوکلیئرسیکیورٹی سربراہ کانفرنس میں پاکستانی وزیر اعظم کی بھر پور شرکت انتہائی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ یہاں امریکی صدر باراک اوبامہ، چینی صدر شی چن پنگ، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، فرانسیسی صدر فرانکوئس ہالیندے ، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو ، اٹلی کے وزیراعظم ماٹیو رینزی، جاپان کے وزیراعظم شینزو ایبی، جنوبی کوریا کے صدر پارک گوئن ہائے، برازیل، ارجن ٹائن اور میکسیکو کے صدور کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی شریک تھے ۔ان سربراہان کے علاوہ نیوکلیئرسیکیورٹی سربراہ کانفرنس میں یورپی یونین، انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن، انٹرپول اور اقوام متحدہ کے نمائندے بھی موجود تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ نیو کلیئر سیکیورٹی سربراہ کانفرنس کے موقع پر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ان ایٹمی سربراہان سے نہ صرف ملاقاتیں طے تھیں، بلکہ بشمول پاکستان ان عالمی ایٹمی طاقتوں نے نیوکلیئرٹیکنالوجی کے حوالہ سے اہم فیصلے کرنا تھے۔ مجھے نہیں علم کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے کون سے مشیر انہیں غلط مشورے دیتے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے وزیر اعظم ان غلط مشوروں کو مان لیتے ہیں ، جس کا پاکستان کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ اب یہ بات تو بہت عام فہم ہے کہ امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس، کینیڈا یا بھارت کے سربراہان نے جو بات چیت میاں نواز شریف کے ساتھ کرنا تھی وہ طارق فاطمی سے تو کرنے سے رہے، بلکہ وہ تما م ملاقاتیں جو سربراہ حکومت کے طور پر میاں نواز شریف نے کرنا تھیں وہ سب کی سب منسوخ ہو گئیں ۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کی جگہ طارق فاطمی کا نیو کلیئر سیکیورٹی سربراہ کانفرنس میں شریک ہونے کا فیصلہ بس خانہ پُری ہے وہ وزیراعظم کا نعم البدل تو نہیں ہو سکتے، اس فیصلے نے پاکستان کے لئے عالمی فورم پر اپنا موقف پیش کرنے کا ایک انتہائی اہم موقع ضائع کر دیا۔

مجھے میاں نواز شریف کے ایسے مشیروں پر ہمیشہ بہت حیرانی ہوتی ہے جو ان سے یہ غلط فیصلے کرواتے ہیں اور ان سے زیادہ حیرانی مجھے خود میاں نواز شریف پر ہوتی ہے جو انہیں مان لیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میاں نواز شریف پہلی دفعہ نومبر1990ء میں وزیراعظم بنے تو سات ماہ تک بطور سربراہ حکومت انہوں نے کوئی دورہ نہیں کیا۔ اس کے بعد وزیراعظم کے طور پر ان کا پہلا دورہ جاپان کا طے پایا جو کہ اپنی نوعیت میں خود ایک نئی جدت تھی، کیونکہ اس سے پہلے عام رواج یہ تھا کہ پاکستان کے سربراہان اپنے پہلے دورے کے لئے سعودی عرب، چین یا امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ،لیکن میاں نواز شریف پہلے سربراہ تھے جنہوں نے اپنے پہلے سرکاری دورے کے لئے جاپان کا انتخاب کیا۔ اس زمانے میں جاپان دنیا کی دوسری بڑی معیشت تھا اور پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا اہم ترین ملک تھا۔ اس مناسبت سے میاں نواز شریف کا پہلا سرکاری دورہ جاپان کا کرنے کا بہت اچھا فیصلہ تھا اور اسے خارجہ پالیسی میں ایک اہم تبدیلی سے تعبیر کیا جا رہا تھا کہ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اقتصادیات اہم کردار ادا کریں گی۔ اس نئی تبدیلی پر جاپانی حکومت بہت خوش تھی اور اس نے وزیراعظم میاں نواز شریف کے دورہ جاپان کے موقع پر بہت بھاری سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ بھی دے رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ایک بہت اہم ترین بات یہ تھی کہ وزیراعظم کے دورہ جاپان میں پاکستان کے ایشیا پیسفک تنظیم برائے اقتصادی ترقی (APEC) میں شمولیت کی راہ ہموار ہوجاتی، جس کے بعد مشرق بعید کے تمام ممالک پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرتے۔ ان دنوں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 6.5 فیصد سے زائد تھی ،جس کی وجہ سے جاپانی وزیر اعظم کیچی میازاوا نے ٹوکیو میں 200 سب سے بڑے جاپانی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا جبکہ عام معمول سے ہٹ کر جاپانی شہنشاہ اور ملکہ نے بھی وزیراعظم میاں نواز شریف کو شاہی محل میں ضیافت پر مدعو کیا تھا۔ اقتصادی اعتبار سے میاں نواز شریف کا دورہ جاپان ہماری تاریخ کا اہم ترین دورہ تھا جو جولائی 1991ء کے پہلے ہفتہ میں ہونا تھا کہ اس سے چند دن پہلے لاہور کے علاقہ اسلام پورہ کی پانڈو سٹریٹ میں ایک انتہائی دلخراش واقعہ پیش آیا جس میں ایک ہی خاندان کے 13 افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ خاندان کچھ ہی دن پہلے اپنے اس گھر میں جو 1965ء سے ان کا ملکیتی تھا ، کراچی سے لاہور شفٹ ہوا۔ اس واقعہ میں صرف ایک چار سالہ بچہ زندہ بچ پایا تھا جو میز کے نیچے گھس جانے کی وجہ سے قاتلوں کو نظر نہیں آ سکا تھا۔ اس سال 25 جون کو نئے آئی جی پنجاب سردار محمد چوہدری نے اپنا عہدہ سنبھالا تھا اور پہلی ہی رات 26 جون کی علی الصبح یہ واقعہ پیش آیا۔ مجھے یاد ہے کہ اگلے دن ایک اخبار نے سرخی لگائی تھی کہ نئے آئی جی پنجاب کو 13 لاشوں کی سلامی۔ اسلام پورہ واقعہ کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنا دورہ جاپان ملتوی کر دیا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ نئے آئی جی پنجاب سردار محمد چوہدری نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ آپ اپنا اہم ترین دورہ ملتوی نہ کریں کیونکہ پنجاب پولیس اسلام پورہ اور اگلے دن شیخوپورہ میں ہونے والے واقعات کی تفتیش کر رہی ہے اور وہ جلد مجرموں تک پہنچ جائے گی ،لیکن بدقسمتی سے وزیراعظم نے اپنے ایسے مشیروں کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے جاپان کا دورہ منسوخ کر دیا ،جس کی وجہ سے جاپانی حکومت ناراض ہو گئی اور وہ تمام جوش و خروش جاتا رہا ،جس کے تحت وہ وزیراعظم میاں نواز شریف کو جاپان مدعو کر رہے تھے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اس کے ڈیڑھ سال بعد دسمبر 1992ء میں جاپان کا دورہ کیا ضرور ،لیکن نہ تو اس کی وہ اہمیت اور افادیت باقی بچی تھی جو جولائی 1991ء میں تھی اور نہ ہی جاپانی حکومت نے اس دورہ کے موقع پر سرمایہ کاری کانفرنس کا اہتمام کیا اور تو اور APEC میں پاکستان کی متوقع شمولیت کو بھی ایجنڈے سے خارج کر دیا گیا۔ ڈیڑھ سال کی تاخیر سے کیا گیا یہ دورہ جاپان اس مکے کی مانند ثابت ہو ا جو وقت گذر جانے کے بعد اپنے منہ پر مارا جاتا ہے۔ جاپان جو اس وقت تک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والاسب سے بڑا ملک تھا آج ٹاپ ٹین میں بھی نہیں ۔ اسلام پورہ واقعہ کی وجہ سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کا دورہ جاپان منسوخ کرنا جیسی غلطی اب تقریباً25سال بعد ویسی ہی غلطی میاں نواز شریف نے دوبارہ دہرائی ہے، البتہ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ 1991ء والی منسوخی میں پاکستان کا سخت اقتصادی نقصان ہوا تھا اور 2016ء والی منسوخی میں نیوکلیئرسیکیورٹی کے حوالہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو پیش کرنے کا اہم ترین موقع گنوا دیا گیا ہے۔ نیوکلیئرسیکیورٹی سربراہ کانفرنس 2010ء سے شروع ہوئی اور یہ باقاعدگی سے ہر دو سال بعد دو دن کے لئے مارچ یا اپریل کے مہینے میں ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف کے علاوہ ایک اور اہم ترین شخصیت جو اس کانفرنس میں شریک نہیں ہے وہ دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی طاقت روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی ہے، لیکن انہوں نے سیاسی وجوہات کی بنا پر چھ ماہ پہلے اکتوبر 2015ء میں ہی نیوکلیئرسیکیورٹی سربراہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ خیر، ایک غلط فیصلے کی وجہ سے جو نقصان ہونا تھا وہ ہو گیا، پاکستان نے عالمی سطح پر اپنی ایٹمی پالیسی کا دفاع اور اجاگر کرنے اور میاں نواز شریف نے تمام ایٹمی سربراہان کو اعتماد میں لینے کا سنہری موقع ضائع کر دیا ہے۔ اب اگلی نیو کلیئر سیکیورٹی سربراہ کانفرنس اپریل 2018ء میں ہو گی اور اگر ملک کے تمام معاملات آئینی طور پر چلتے رہے تو یہ میاں نواز شریف کی موجودہ مدتِ وزارتِ عظمی کا آخری مہینہ ہو گا، دیکھتے ہیں اگلی نیوکلیئر سیکیورٹی سربراہ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کون کرتا ہے۔

مزید :

کالم -