کھلا موبائل
مَیں جو 27 تاریخ کو گلشن اقبال پارک میں اپنی والدہ سے بات کررہا تھا کہ ایک دھماکے نے میری گفتگو منقطع کردی۔۔۔مَیں وہاں اکیلا تو نہیں تھا میرے سامنے سات بہنوں کا اکیلا بھائی تھا، میری دائیں طرف وہ ماں گری پڑی تھی، جس کے بچوں کو ابھی اس کی آغوش کی ضرورت تھی، میرے ساتھ وہ شوہر گرا ہوا تھا، جس نے پورے خاندان کی کفالت کرنا تھی، میرے پیچھے وہ بزرگ تھے جو ابھی گھاس پر مغرب پڑھ کر فارغ ہوئے تھے، ان کے ساتھ اُن کی بیٹی تھی جو ضد کر کے کتنے دنوں کا جیب خرچ اکٹھا کر کے جھولے لینے آئی تھی، کئی خاندان تھے جو ایسٹر منانے آئے تھے۔
مجھے مارنے والوں نے سمجھا کہ میری آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی، لیکن و ہ یہ بھول گئے کہ مَیں بہت سے لوگوں کے ساتھ اُس عدالت میں جاچکا ہوں، جس کا جج نہ کبھی رشوت لیتا ہے اور نہ کبھی دباؤ میں آکر فیصلہ بدلتا ہے۔ اگر قاتل ہندو تھے تو جان لیں کہ انہوں نے اہنسا کا خون کیا اور تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ جو ماس کھانا پاپ سمجھتے ہیں کہ اس سے کتنے معصوم پرندوں اور جانوروں کا خونِ ناحق بہتا ہے، جان لیں کہ انہوں نے کتنے انسانوں کا خون بہایا ہے کیا اُن کے دیوی دیوتا انہیں اس پر معاف کردیں گے؟ اگر قاتل یسوع علیہ السلام کے ماننے والے ہیں تو انہوں نے ایسٹر کے دن کا انتخاب کیوں کیا؟ کیا وہ یسوع علیہ السلام کی یہ تعلیم بھول گئے کہ اگر دشمن تمہیں تھپڑ مارے تو تم دوسرا گال اس کی طرف کردو؟ اگر وہ یہودی ہیں تو کیا وہ خود فرعون اور ہٹلر بننا چاہتے ہیں۔ کیا کہا! دہشت گرد مسلمان تھا، اُس نے جنت کمانے کے لئے یہ دھماکہ کیا۔ نہیں نہیں! جنت کیا اُسے یہ بھول گیا کہ نبی ؐ کا فرمان ہے، جس نے ایک مسلمان کو ناحق قتل کیا وہ ہم میں سے نہیں۔ کیا وہ فتح مکہ پر نبیؐ کا فرمان بھول گیا کہ جو گھر کے دروازے بند کرلے اسے کچھ نہ کہا جائے، جو ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے اُسے کچھ نہ کہا جائے، جو پہلے وار نہ کرے اس پر حملہ نہ کیا جائے۔
اگر وہ مسلمان ہے تو روز جزا ایک بے قرار چڑیا کے بچے واپس رکھوانے والے کے سامنے کیا دلیل دے گا جب درجنوں مائیں اپنے بچوں کے ناحق مارے جانے پر انصاف طلب کریں گی۔ ارے یہ تو اس ایک سوال کا جواب نہ دے پائے گا کہ ہمیں کیوں مارا گیا؟ کیا اسے یہ خیال نہ آیا جن گھروں کے واحد کفیل چل بسے جب اُن کا چولہا نہ جلے گا تو کیا ان کی بددعاؤں سے اس کے درجات بلند ہوں گے؟ جس ماں کے آنگن کے پھول بن کھلے مرجھا گئے اُن کی فریاد سے عرش نہ ہلا ہوگا کیونکہ خالق تو ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے۔ نہیں نہیں مسلمان ایسا نہیں کرسکتا۔
کیا کہا یہ درندے کا کام ہے! بھئی درندوں کو کیوں بدنام کرتے ہو درندوں کا بادشاہ شیر تو اپنی بھوک جتنا شکار کھا کر باقی چھوڑ دیتا ہے۔ عقاب تو کسی کا چھوڑا نہیں کھاتا۔ کوے تک دوسرے کوؤں کو نہیں مارتے تو یہ کس کا کام ہے۔ اُسے کون سا مذہب اور نام دیں۔ شاید صرف درندگی اور دہشت گردی چھوٹا لفظ ہے۔ اگر اُن کا کوئی آلہ کار پڑھے تو سوچے کہ وہ کس کام کے شراکت دار ہیں؟ کس کس کو کیا کیا جواب دیں گے؟ نہیں تو اپنا نام اور صفت سوچ لیں ، کسی بھی مذہب کو بدنام مت کریں۔ یہ کھلا موبائل اس طرف سے تمہیں جھنجوڑتا رہے گا۔