ویزے، پاک فوج جمہوریت اور نیتیں

ویزے، پاک فوج جمہوریت اور نیتیں
 ویزے، پاک فوج جمہوریت اور نیتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے ایک سینئر صحافی، اینکر پرسن اور کالم نگار نے گزشتہ دنوں اپنے کالم میں سیاستدانوں کو ’’بہادر شاہ ظفر‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جیسے گورے سے ڈرتا بہادرشاہ ظفر چھپ گیا تھا ایسے ہی ہمارے جمہوری حکمران بعض قوتوں سے چھپتے ہیں، ہم وزیر اعظم نواز شریف کے حوالہ سے چھپنے، ڈرنے والی بات کو درست نہیں سمجھتے، ہمیں سابق صدر غلام اسحق سے لے کر نواز شریف کے موجودہ عہد تک سب کچھ یاد ہے، اگر غلام اسحق خان بطور صدر چند الزامات لگا کر پہلے بے نظیر اورپھر نواز شریف کی حکومت توڑتے ہیں تو نواز شریف اکیلے اقتدار سے الگ نہیں ہوتے، غلام اسحق خان کو بھی ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ مرحوم سجاد علی شاہ اگر جمہوریت کے آڑے آتے ہیں تو نواز شریف کا ڈٹے رہنا کسی کو بھولانہیں، جنرل پرویز مشرف ، نواز شریف کو گرفتار کرکے ان کے پورے خاندان کو جلا وطن کرتے ہیں تو ہمیں شہباز شریف بار بار پاک سرزمین پر لینڈ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسری جانب نواز شریف نہ صرف ہر طرح کی بلیک میلنگ اور جھوٹے سچے وعدوں، معاہدوں کو توڑتے ہوئے پاکستان آتے ہیں، بلکہ تیسری بار پاکستان کا وزیر اعظم بننے کا اعزاز بھی حاصل کرتے ہیں، ہاں البتہ ہمارے ملک میں آسانی سے اقتدار کے مزے ’’معین قریشیوں‘‘ اور ’’شوکت عزیزوں‘‘کا نصیب ضرور ہیں۔خبر نہیں، یہ اپنی اپنی طرز کے ’’معین قریشی‘‘ اور شوکت عزیز کہاں سے آجاتے ہیں۔۔۔ یہ ’’پردیسی‘‘ حکمران بریف کیس اٹھائے وزیر اعظم ہاؤس ’’لینڈ‘‘ کرتے ہیں یا چپکے سے سفیر و مشیر لگ جاتے ہیں اور کسی کو کان و کان خبر نہیں ہوتی۔نہ ان کے لئے کوئی جیل، عقوبت خانہ اور نہ ہی کسی قسم کی جلا وطنی۔۔۔دوسری جانب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے حکمرانوں کے لئے کڑی سے کڑی سزائیں۔۔۔میڈیا ٹرائل۔۔۔ کورٹ ٹرائل۔۔۔ ملک بدر۔۔۔ بلکہ در، بدر۔


صاحبو!چھوڑیئے سارے قصے اور سیدھے میجر جنرل آصف غفور کے ’’ٹویٹ‘‘ پر آئیے! ترجمان پاک فوج اپنے ٹویٹ میں کہتے ہیں کہ ریاست حسین حقانی کوجو سمجھتی تھی، وہی نکلے، ریاستی اداروں کو حسین حقانی کے بارے جو تحفظات تھے، درست ثابت ہوئے۔کوئی شک نہیں، بات حسین حقانی کے ’’میمو گیٹ‘‘ سے بھی آگے کی ہے، پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز کا یہ دعویٰ چھوٹا پڑگیا ہے کہ حسین حقانی نے انہیں امریکی ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچانے کے لئے کوئی خفیہ ’’میمو ‘‘دیا۔ اب تو سابق سفیر حسین حقانی نے خود اپنا ’’ کچا چھٹا‘‘ کھول دیا ہے۔


سوری! اس پر لمبی چوڑی بحث نہیں کی جاسکتی۔ وطنِ عزیز کو مزید بدنام نہیں کیا جاسکتا، ہمیں تو کرکٹ کی ’’سپاٹ فکسنگ‘‘ پر بھی کچھ لکھتے جھجک محسوس ہوتی ہے۔ ’’کھدِو‘‘ پھولیں گے تو اندر سے ’’لیروں‘‘ کے سوا کیا نکلے گا۔؟
ہم اپنے پچھلے کالم میں ذکر کر چکے ہیں کہ جب بھی ذراسی پاک سرزمین کے چہرے پر رونق آتی ہے تو چند ’’دیو‘‘ کالک کے ڈبے اٹھائے ہمارے چہرے رنگنے ضرور آدمکتے ہیں۔ لیکن یہ تو کٹھ پتلیاں ہیں، جنہیں ہم ’’جن‘‘ یادیو سمجھ لیتے ہیں۔ ان کٹھ پتلیوں کی ڈور ایسے ہاتھوں میں ہے جو پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ ہمیں چہروں کے پیچھے چہروں کو ’’سرچ‘‘ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ قوم کا بچہ بچہ اندرونی و بیرونی دشمنوں کو خوب جانتا پہچانتا ہے۔۔۔ دشمن کو یہ سب ہضم نہیں ہو رہا کہ پاک فوج کامیاب ردالفساد کرے۔ سی پیک تکمیل چڑھے، ایک کے بعد دوسری جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرے۔۔۔ کہیں نہ کہیں ’’ٹیسیں‘‘ ضرور اٹھ رہی ہیں۔۔۔ دشمن جوڑوں کے درد میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے کراہ رہے ہیں اور ان کی ’’کراہٹ‘‘ ’’حقانیوں‘‘ کے منہ سے نکل رہی ہے۔


میاں نوازشریف کی جمہوریت عجب انقلاب برپا کر رہی ہے۔ وزیراعظم سی پیک منصوبے کو ’’گیم چینجر‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل سے ساری بازی گھوم جائے گی۔ ملکی معیشت کو بے پناہ’’ بوسٹ‘‘ ملے گا، غربت، امارت میں بدل جائے گی، محکومیت، حاکمیت کا درجہ اختیار کرے گی۔ ہمیں ’’تھرڈ ورلڈ‘‘ کا طعنہ دینے والے ہمارا عروج دیکھیں گے۔ ہم امن، علم، ہنر،وسائل اور معیار کا گوہر ہوں گے۔ بے شک ہزاروں سال ’’نرگس‘‘اپنی بے نوری پہ رونے کے بعد چمن میں دیدہ وری کو ہے۔ سو! یہی بات دشمن کے سینے پر سانپ بن کر لوٹ رہی ہے۔ دشمن ابھی بھی اسی ’’نرگسیت‘‘ کا شکار ہے کہ اس کے ’’مہرے‘‘ سرگرم ہیں، پاکستان کی بازی الٹا دیں گے مگر وہ ابھی تک وزیراعظم نوازشریف کے ’’گیم چینجر‘‘ کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ دشمن کی بے خبری اب کے بار اس کا ’’شہر بھنور‘‘ اجاڑ دے گی کیونکہ پاکستان کے عوام اب پوری طرح جاگ رہے ہیں، عوام ،دشمن کی سب بے صبریوں، بے خبریوں، شرارتوں، ذلالتوں کو سمجھ چکے ہیں اور پوری طرح جمہوریت، معیشت، ردالفساد اور سی پیک کے چوکیدار بنے بیٹھے ہیں۔ کسی کو عوام کے جاگنے اور باشعور ہونے پر ذرا سا بھی شک ہے تو وہ خود اندازہ لگا لے کہ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت اپنے 4سال مکمل کر چکی، مدت پوری ہونے میں صرف ایک سال باقی رہ گیا جبکہ اس دوران عوام کے شعور نے کوئی احتجاج، دھرنا، سکینڈل کامیاب ہونے دیا اور نہ ہی کسی بھی قسم کی کوئی ’’لیکس‘‘ نشوونما پا سکیں، یقیناًعوام تہیہ کر چکے کہ اقوام عالم میں سربلند ہوتا ہے تو وطن عزیز میں کسی بھی قسم کے فتنے کو سر اٹھانے نہیں دینا،آگے بڑھنا ہے تو کسی بھی طرح جمہوریت کو گرنے نہیں دینا، پُرامن رہنا ہے تو پاک فوج کے عزم و حوصلہ کو سبز ہلالی پرچم کی طرح اونچا رکھنا ہے، ہر طرح کی دہشت گردی، فتنہ بازی کو نیچا دکھانا ہے، شرارتوں کا سرقلم کرناہے اور گاؤں، قصبوں، شہروں سے لے کر اپنی حدوں، سرحدوں تک سب کچھ محفوظ بنانا ہے جاگتے رہنا ہے۔

یقین کیجئے! ہمارے دشمن نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سے رابطوں پر مجبور ہیں، کبھی امریکہ ہمیں پھر سے اپنا ’’اتحادی‘‘ کہہ کر فخر محسوس کرتا ہے تو کہیں بھارت کو ہماری یاد ستانے لگی ہے۔ وۂ نہ صرف ہم سے کرکٹ کھیلنا چاہتا ہے بلکہ مزید روابط کا بھی خواہشمند ہے۔ پاکستانی کرکٹرز بھارت کو للکار رہے ہیں کہ ڈرو نہ، آؤ! آؤ کھیلو! شاید آفریدی نے صاف صاف کہا ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم سے زیادہ مودی حکومت ہم سے خوفزدہ ہے۔ اس لئے کھیلنے سے بھاگتی ہے۔ بالکل ایسا ہی بیان سپر سٹار سرفراز دے چکے ہیں اور باقاعدہ بھارت کو للکار چکے ہیں کہ اگر ہمت ہے تو آؤ! کھیلو! دیکھا جائے تو وزیر اعظم نوازشریف کے پی ایس ایل فائنل کے اٹل فیصلے نے پاکستانی کرکٹ کی دھاک بٹھا دی ہے۔ اب دنیا ہم سے کھیلنا چاہتی ہے اور بھارتی کرکٹ بورڈ کی پاکستان سے کھیلنے کی خواہش کے پیچھے بھی پی ایس ایل فائنل کا کامیاب و شاندار انعقاد ہے۔ عمران خان نے پی ایس ایل کا امیج خراب کرنے کے لئے لاکھ ’’پھٹیچر‘‘ تقاریر کیں لیکن اقوامِ عالم پی ایس ایل فائنل کے سحر سے نہیں نکل سکیں، ہر کوئی جان چکا کہ پاکستانی قوم جو فیصلہ کر لیتی وہ کر دکھاتی ہے، ایسی قوم کو مات دینا سخت مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ بے شک یہ مٹی بہت نم ہے۔ من حیث القوم ہم غربت، جہالت، مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن، اقربا پروری، بھوک، افلاس کی کمر توڑ رہے ہیں۔ پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے بڑھنے کی روش ہمارے لئے مشعلِ راہ بن گئی ہے۔ یقیناً ہم اندرونی برائیوں کی طرح بیرونی دشمنوں پر بھی قابو پا لینے کے گر سیکھ چکے ہیں۔ ہم کایا پلٹنے کے ماہر ہوتے جا رہے ہیں، ایٹمی دھماکوں کے وقت چاغی پہاڑ کے بدلتے رنگ نے ہمیں سکھا دیا تھا کہ سب کچھ بدلا جا سکتا، زوال کو عروج دیا جا سکتا، بس نیت ٹھیک ہونی چاہئے! یقیناً عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے اور گوادر پورٹ، سی پیک، افغان بارڈر مینجمنٹ، ردالفساد، پی ایس ایل فائنل اچھی نیتوں پر ہی عملدرآمد ہے۔

مزید :

کالم -