انسان کا اصل چہرہ
’’استاد! یہ فرمائیے کہ انسان اپنے رب کی نظر میں اپنا مقام کیسے جان سکتا ہے ؟ وہ کون سا آئینہ ہے جس میں انسان اپنا اصلی چہرہ دیکھ سکتا ہے ‘‘؟ مخاطب لمحے بھر کے لیے رکا اور پھر اپنے سوال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بولا۔ ’’مجھے وہ جواب معلوم ہے جو لوگ عام طور پر دیتے ہیں۔ یعنی یہ دیکھو کہ خدا تمھاری نظر میں کیسا ہے یا تم شریعت پر جس طرح عمل کرو گے ویسا ہی خدا کی نظر میں ہو گے۔ مگر یہ داخلی پیمانے ہیں جن میں انسان کی نظر دھوکہ کھا سکتی ہے۔ مجھے کوئی خارجی پیمانہ بتائیے جس میں انسان ویسا ہی نظر آئے جیسا وہ حقیقت میں ہوتا ہے۔‘‘
عارف کا سر حسبِ عادت جھکا ہوا تھا۔ سوال ختم ہوا تو عارف نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا اور غور سے سائل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم جانتے ہو کہ نبی کریمﷺ پر پہلے پہل کون لوگ ایمان لائے تھے ؟‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا، مگر زبان سے کچھ نہ بولا۔ عارف نے اپنی بات کا خود ہی جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کی اہلیہ محترمہ خدیجۃ الکبریٰؓ، عزیز دوست ابوبکرؓ، منہ بولے بیٹے زیدؓ بن حارث اور زیرِ کفالت چچا زاد بھائی علیؓ۔ ان سب میں کیا چیز مشترک تھی؟‘‘
اس دفعہ عارف نے جواب ملنے کا انتظار کیا۔ یہ جواب ایک اور شریکِ مجلس کی طرف سے آیا۔ ’’یہ نبیﷺ کے قریب ترین لوگ تھے ‘‘۔ عارف نے کہا: ’’یہ حقیقت ہے ، مگر آدھی حقیقت ہے۔۔۔ ‘‘ وہ لمحہ بھر کو رکا اور پھر پنی بات کو آگے بڑ ھا تے ہوئے کہا:
’’پوری حقیقت یہ ہے کہ یہ سب لوگ نبیﷺ کے زیردست تھے یا پھر ان کے تعلق کی نوعیت ایسی تھی کہ ان سے کچھ بھی نہیں چھپایا جا سکتا۔ شب و روز کے ہر نرم و گرم کا ساتھ نبھانے والی بیوی، مزاج کے ہر موسم کا ساتھ دینے والے دوست اور طبیعت کے ہر ٹھہراؤ اور تیزی کے گواہ بن جانے والے زیر دستوں کو جو حیثیت حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور قریبی شخص کو حاصل نہیں ہوتی۔
بیوی کے سامنے انسان ہر اخلاقی جامے کو اتار دیتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ مزاج و رویے کی ہر نفاست کونے میں رکھ دی جاتی ہے۔ ماتحتوں کے سامنے طبیعت اور نفسیات پر مفاد اور غلبے کی سوچ ہی غالب رہتی ہے۔ انہی تین مقامات پر انسان کا اصل چہرہ نظر آتا ہے کیونکہ یہاں انسان کچھ بن نہیں سکتا، وہ جیسا ہوتا ہے ویسا ہی نظر آتا ہے۔ یہی وہ آئینہ ہے جس میں انسان کا اصل چہرہ خدا کو نظر آتا ہے۔‘‘
مجلس پر سناٹا طاری تھا۔ اس سناٹے کو عارف کی لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتی آواز چیر کر دلوں کا پردہ چاک کر رہی تھی۔ آخری جملے کے ساتھ عارف خاموش ہوئے تو سناٹے کی دبیز چادر نے اہل مجلس کی سماعتوں کا احاطہ کر لیا۔ دیر تک اس سناٹے کو توڑ نے والی کوئی صدا بلند نہ ہوئی۔ آخر کار عارف نے سائل کو مخاطب کر کے بہت دھیمے انداز میں کہا:
’’بے تکلفی کے لمحات ہوں یا کمزوروں کے ساتھ تمھارے معاملات، یہی وہ دو فیصلہ کن لمحے ہیں جو خدا کی نظر میں تمھارا مقام طے کر دیتے ہیں۔‘‘
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔