آنکھیں دل کا آئینہ ہیں

آنکھیں دل کا آئینہ ہیں
آنکھیں دل کا آئینہ ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شاعر زندگی کو الگ نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اس کی سوچ کا منفرد انداز وجود زندگی اور کائنات کی ترجمانی الگ طریقے سے کرتا ہے میں آج ایک شاعر اور اللہ کے ولی حضرت پیر محمد عثمان شاہ صاحب جو حضرت حکیم محمد مہر الدین اظہر المہرشکوری قادری چشتی کے خلیفہ کا تذکرہ کروں گا حضرت حکیم محمد مہر الدین اطہر المہر شکوری قادری چشتی کا تعلق میاں چنوں شریف ضلع خانیوال سے ہے حضرت پیر محمد عثمان شاہ صاحب اپنے پیر و مرشد کے چوتھے خلیفہ ہیں جب آپ اپنے پیر و مرشد سے بیعت ہوئے اس وقت چیچہ وطنی میں سرکاری ملازم تھے چندبرسوں بعد آپ نے سرکاری ملازمت چھوڑی دی تھی۔

حضرت پیر محمد عثمان شاہ کا تعلق گاؤں کریال ضلع شکر گڑھ سے تھا لیکن اپنے پیر و مرشد کے حکم کے مطابق ہجرت کی چنانچہ حضرت صاحب نے شکر گڑھ شہر کے نواحی علاقہ محلہ مسلم ٹاؤن میں زمین خریدی اور اپنے پیر و مرشد کا عرس مبارک کو منانا شروع کر دیا جو اب بھی اپنی مقررہ تاریخوں یعنی 6 اپریل تک ہوتا ہے گاؤں کرپال میں بھی انہی تاریخوں پر عرس منایا جاتا تھا شاہ صاحب نے بہت سی کتابیں پنجابی اور اردو میں اپنے پیر و مرشد اور سرکار مدینہؐ کی تعریف میں لکھی ہیں آپ نے تقریباً سات کتابیں شائع کروائی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی حمد، سرکار مدینہ تاجدار دو جہاں اور اپنے پیر و مرشد کی حیات طیبہ اور پیش آنے والے واقعات شاعری کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی ہے ان کی پہلی کتاب تسکین روح 2002ء میں اوچن سوہنا مارچ 2006ء میں گوہر مقصود نومبر 2006ء میں۔


تینوں ترسن میرے نین 2008ء میں اوہدی زلف دا وکھراناں 2010ء میں چل عثمان مدینے چلیئے 2012ء میں یہ شریف کی حاضری پر جانے سے پہلے تحریر کی تھی اس کے بعد تحفے مدینے دے، بظاہر چیزیں مختلف اور الگ دکھائی دیتی ہیں مگر ان کے درمیان رابطوں کی خوب صورتی مسکراتی ہے انحصار کی روشنی مسکراتی ہے اور یک جہتی کا اظہار ملتا ہے وجود سے زندگی اور کائنات تک بکھرے ہوئے فاصلوں میں تعلق کی اَن دیکھی ڈور بندھی ہے اس تعلق کی خوبصورتی کو جا بجا اپنی شاعری میں اجاگر کیا ہے تعلق کو محسوس کرنے اور اسے نبھانے کا محور انسانی آنکھ ہے ذہن آنکھ کی کھڑکی سے دنیا دیکھتا ہے آنکھوں کا رابطہ اگر ذہن سے رہتاہے تو یہ الہامی کیفیات کی ترجمانی کہلاتا ہے شاہ صاحب نے انسان کو دنیاوی تضادات سے دور رہنے کی تلقین کی ہے تمام تر امیدیں آرزوئیں اور امنگیں با مقصد اور با اصول زندگی کے حصول سے وابستہ کرتی ہیں قلب و نظر کو اعلیٰ نصب العین اور کامل محور چاہئے آنکھیں دیکھتی ہی نہیں بلکہ محسوس کرتی ہیں آنکھ کے مشاہدے میں اگر احساس کی چاشنی شامل ہے تو پرکھ کا یہ داخلی پہلو ہے صوفی کا رجحان داخلیت پسندی کی طرف مائل ہے وہ من کی دنیا کا مسافر ہے وہ باہر کی دنیا کو باطل کی آنکھ سے پرکھتا ہے شاہ صاحب نے فرمایا اپنے خیالات اور شاعری میں یہ آنکھیں ہیں جو پر خطر راہ اختیار کرتی ہیں یہ پرکھے بغیر اعتبار کر لیتی ہیں یہ آنکھیں ہیں جو ایسی منزل کو کھوجتی ہیں جس کی رہگزر بے یقینی کی دھول سے اٹی ہے پھر یہ کس راہگیر کی خاطر روح کو وقف انتظار کرتی ہے شاہ جی کے نزدیک آنکھوں کی یہ بے ساختگی اور فطری رغبت انسان کو اپنی ذات سے جدا کر دیتی ہے کیونکہ آنکھیں بغیر پرکھے جب محبت کی ڈور سے بندھ جاتی ہیں تو دل کو جذباتی نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں پھر یہ آنکھیں گھٹا کی طرح برستی ہیں جو کئی بار سیر ہو کر بھی جلوہ یار کو ترستی ہیں حقیقت یہ ہے کہ تکلیف اور دھوکہ کھائے بغیر قلب و نظر میں گہرائی پیدا نہیں ہوتی زندگی میں کمی اور تشنگی نہ ہو تو دل کی مٹی زرخیزی سے محروم رہ جاتی ہے۔


قصور کسی دوسرے کا نہیں بلکہ کوتاہی انسان کی اپنی سمجھ کی ہے سوچ کی غلط فہمی یا پھر کہیں خوش فہمی و خوش گمانی زندگی کو دکھ کے جہنم میں جھونک دیتی ہے دکھوں سے قلب کو جلا اور نظر کو آگہی کا عرفان عطا ہوتا ہے آنکھوں سے گمراہی کے پردے اٹھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پیر حضرت محمد عثمان شاہ صاحب انسان کو قلب و نظر سے بے یقینی اور منفی سوچ کا زنگ اتارنے کے لئے کہتے ہیں یہ باطن کی تیسری آنکھ ہے جو اندھیرے میں بھی دیکھ سکتی ہے یہ حقیقت ہے کہ نظریاتی تضاد، انا پرستی اور خود غرضی ظرف کے آئینے کو حد درجہ میلا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے حالات کا صحیح تجزیہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھا جا سکتا ہے دور حاضر نا سمجھی، بے یقینی اور عدم برداشت کا شکار ہو کر انسانی قدروں اور مثبت سوچ سے محروم ہوتا جا رہا ہے جب انسان اپنی ذات کو نہیں سمجھ سکتا تو وہ خدا کی ذات کو کیسے پہچان پائے گا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے رہبر سوچ اور دوریوں میں غیر واضح ہیں تو ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے والے یوں ہی بھٹکتے رہیں گے۔

وہ زندگی جہاں سکون، قناعت اور پرکھنے کا جوہر موجود ہو وہاں خاموشی اور ٹھہراؤ خود بخود پیدا ہو جاتا ہے سکوت وجود کی تلاش کا محرک ہے ہم دنیا کی بھیڑ میں کھو کر خود کو کبھی نہیں پا سکتے مگر خاموشی جب میسر آتی ہے تو ہم اپنی ذات کے مقابل آن کھڑے ہوتے ہیں اس پر آشوب دور کا سب سے بڑا المیہ شور ہے یہ شور چاہے انسان کے ذہن میں اٹھتا ہو یا باہر کی دنیا کا حصہ ہو۔ یہ ہنگامے زوال اور گمنامی کی وجہ سے بنتے ہیں ہم نے ہر طرف مجمے لگا رکھے ہیں اجتماع میں لوگ ذاتی ذمہ داری سے غافل ہو جاتے ہیں اور المیئے جنم لیتے ہیں ہم آج تک اجتماع کو اپنی طاقت نہیں بنا سکے طاقت تصور کی آنکھ عطا کرتی ہے تصور اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتا جب تک خیال میں سچائی نہ ہو خیال کی سچائی سے باطن کی آنکھ راہ سجھاتی ہے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قصور کس کا ہے راہ سمجھانے والوں کا یا ڈھونڈنے والوں کا، ڈھونڈنے والے منزل کے فریب میں کس طرح مبتلا ہیں منزل کی طرف جانے والے راستے دل کے قریب سے ہو کر نہ گزریں تو تلاش جستجو بے ثمر ہی کہلائے گی ان کی شاعری میں ان تمام سوالات اور ، فریادوں کے جوابات موجود ہیں جو اس جدید دور میں اٹھائے جاتے ہیں۔

مسئلہ فقط یہ ہے ہم اپنے لوک ورثے اور صوفی شاعری کے اصل پیغام سے غیر واقف ہیں ہمارے جسم خواہشات کی لے پر رقصاں ہیں مگر ہم نہ تو اپنی روح کی تشنگی کو محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے سیراب کرنے کا ہنر جانتے ہیں موجودہ حالات میں لوگ اس قدر پریشان دنیاوی ضروریات کے حصول میں مگن ہیں کہ اگر کوئی کسی کو سیدھی راہ پر چلانے کی کوشش بھی کرے تو حالات اس قدر بگڑ گئے ہیں کہ اس میں وسوسے ڈر خوف اور مشکلات زندگی میں حائل ہو جاتی ہیں اللہ کے فضل و کرم سے اور اپنے پیر و مرشد کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپناتے ہوئے حضرت پیر محمد عثمان شاہ صاحب ہر طرح سے انسانوں کی بھلائی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسولؐ کی پہچان کے لئے کوشاں ہیں شاہ صاحب نے اپنے پیر و مرشد کے احکامات پر اپنی زندگی وقف کر دی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -