۔۔۔تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

۔۔۔تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
۔۔۔تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیاسی جماعتوں کو سیاست کی فکر ہے تو کچھ سمجھ میں آتی ہے۔ سیاست دانوں کو اپنی عزتوں اور جانوں کے لالے پڑ جائیں۔ غضب ہے خدا کا۔ سیاست خود ایک گھنجلک کام ہے۔ چال بازی کا ہنر۔۔۔ لیکن کیا کیجئے۔۔۔ جب چال چلنے والے کو یہ بھی پتہ نہ چلے کہ اس کا حریف کون ہے۔ کب کیا فیصلہ کرنے کا کہہ دیا جائے گا۔وہ اپنے ووٹرز کو کیا نعرہ دے۔

کون سی بات مقتدر حلقوں کو کب ناگوار گزر جائے۔ کس بندے کو پارٹی میں شامل کرنا ہے کس کو نہیں لینا۔۔۔ سیاست میں کس کارنامے کا کریڈٹ لیں اور کس کا نہیں۔۔۔ اس کا چناؤ بھی ان کے ہاتھ میں نہ ہو۔ جوڑ توڑ کی مہارت دکھانے کا کہا گیا لیکن جب نتائج لینے کا وقت آیا تو گھوڑا کوئی اور ہی سامنے آگیا۔


جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
سب سے بڑی بات، جمہوریت اور سیاست کو بچائیں یا اپنی پگڑی کو۔ کس ایشو پر پریس کانفرنس کرنی ہے اور کس کی مذمت کرنی ہے، اس کا فیصلہ بھی پارٹی مشاورت تو دور لیڈر خود نہ کرپائے۔


اب آجائیں حکومت کی طرف۔۔۔ وہ تو مسلم لیگ ن کی ہے۔ قومی اسمبلی میں اکثریت ہے ملک کی باگ ڈور بھی لیکن۔۔۔
نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں


اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہنے کی تلقین کرنے والے بہت۔ ہر وزیر، مشیر یہی راگ الاپتا ہے۔

کبھی دلیل کے ساتھ، کبھی غصے میں لیکن محض ٹی وی کیمروں اور سوشل میڈیا پر۔ عملاً کیا کرنا ہے۔ حکومت ہے تو رٹ قائم کیسے کرنی ہے۔ اس کی سمجھ نہیں آرہی۔ رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف اسمبلی سے قانون سازی کرائیں۔ ایگزیکٹو آرڈر جاری کردینا چاہیئے۔

یہ نہیں تو پھر آمنے سامنے بیٹھ جائیں۔ یہ بھی نہیں، تو جواب طلبی کرلی جائے اور کچھ نہیں ہوتا تو منت سماجت کرلیں۔ حالت یہ ہے کہ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے۔ کچھ کرنے کی ہمت کرنا تو دور کی بات، اس پر کوئی دانت سے دانت نہیں اْٹھا رہا۔ ہر کوئی ہوا سے باتیں کررہا ہے۔ محض پیغام رسانی، وہ بھی ہوا کے دوش پر۔


قاضی کی عدالت۔ ہر ہر معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ ایگزیکٹو کی اتھارٹی کیا چیز ہے۔ ایگزیکٹوز کی ناک کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ عدالت کی حد کہاں تک ہے؟ کوئی وضاحت ہے، نہ کوئی حدہے اور نہ ہی کوئی وضاحت کا طالب ہے۔

کسی حکومتی اور انتظامی قضیئے میں کہاں تک جایا جاسکتا ہے۔ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ ایسے اقدامات سے کچھ ہوبھی سکے گا یا نہیں، اس کا بھی پتہ نہیں۔

میڈیا میں آنے والی خبروں کا نوٹس لیا جارہا ہے اور کچھ ایسے امور بھی اچانک زیرسماعت آجاتے ہیں جو کسی نے سنے ہوتے ہیں نہ جانے۔ قانون کتنی اجازت دیتا ہے، یہ وطن عزیز کے شہریوں کے جاننے کا حق ہے لیکن ہر کوئی انگشت بدنداں تماشائی نظر آتا ہے۔


اسٹیبلشمنٹ۔۔۔ ایک مصرعے میں کہوں تو
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
سیاہ وسفید کیا ہر آواز، ہر رنگ اسی کے سنگ۔ ہر ترنگ، ہر اْمنگ، اس سے آہنگ۔ کچھ بھی دسترس سے دور نہیں کچھ گستاخوں کا وجود ضرور ہے۔ لیکن یہ گستاخ تو ہیں تجھے اونچا اْڑانے کے لیے۔ گستاخ ہوگا تو طاقت کے وجود کا احساس ہوگا۔ بس چہار سو۔ چہار دانگ، اسی کا طوطی بول رہا ہے۔ ہر آنکھ اسی ابرو کے اشارے کی منتظر۔


روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دیکھئے۔۔۔ بات یوں ہے۔ بھئی سب سنبھال لیجئے ناں۔ سب آپ کا ہے۔ کون روک پایا ہے پہلے بھی جواب روک پائے گا۔ لیکن صاف کہے دیتے ہیں، یہ خیال ہم جیسوں کا نہیں انہی کچھ ’’گستاخوں‘‘ کا ہے


تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
ہرجا ہیں اور ہیں بھی نہیں۔۔۔ تھرکتی مورتیوں کے افعال اقوال انہی کے مرہون منت ہیں۔ ایسے لگتا ہے ، ہم کسی جِن وادی میں رہ رہے ہیں۔ ہاں۔۔۔ وقت کی چاپ۔۔۔ کچھ سنائی دے رہا ہے۔ اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ اس نے کب کسی کا انتظار کیا۔ وہ تو اپنی ڈَگر پر ہے۔۔۔ کوئی ارضی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔


کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں
آخر سین کو بدلنا ہے۔اسٹیج کا پردہ زیادہ دیر خالی نہیں رہتا۔ لیکن کرنا کیا ہے۔۔۔؟ یہی سوال یہاں بھی ہے۔ کس پر ہاتھ رکھیں۔ عمران خان۔۔۔ بے اعتبارا۔۔۔ ٹیم یک جان نہیں۔ آصف زرداری۔۔۔ اس کو لوگ نہیں مانتے۔ پورا اختیار کیسے دیں۔ چالاکی بھی تو دکھا جاتا ہے۔


چین ون ونڈو آپریشن کا عادی ہے، مارشل لا پر شاید خوش ہو، لیکن وہ سی پیک کا منصوبہ کسی ایک فریق پر چھوڑنا نہیں چاہتا، امریکا کو اب اعتبار نہیں رہا۔ وہ دھمکا کر کام نکلوانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

اردگرد کے دشمن زیادہ مضبوط اور بااثر ہوچکے ہیں۔ نوازشریف اور ن لیگ۔۔۔ گستاخ ہیں۔ حدبندی کرنا چاہتے ہیں۔ ہاں دھوکا نہیں دیتے آزمودہ ہیں ماضی میں جو کہا، وہ کیا۔۔۔ البتہ کچھ عرصہ سے پاؤں پھیلا رہے ہیں۔

ادھر محض آزاد گھوڑوں پر بازی لگائی نہیں جاسکتی۔ میدان میں سبکی ہوگی جگ ہنسائی الگ سے۔ وطن عزیز کے منظر پر ہر ذہن منتشر ہے کوئی اس وقت یکسو نہیں۔ فیصلہ کرنا اتنا مشکل کبھی پہلے تو نہ تھا۔

جو بہت سمجھدار ہیں وہ دور کھڑے تماشائی ہیں انہیں علم ہے کہ ابھی اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔ اتنشار سا انتشار ہے، اس وقت ہر طرف انتشار (کنفیوژن) کی حکمرانی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -