پیسے قلعی کرالو

پیسے قلعی کرالو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app



حکومت کی جانب سے متوقع ایمنسٹی سکیم ہے کیا؟
حکومت پاکستان نے ایمنسٹی سکیم تیار کرلی ہے جس کا مطابق ایسے لوگ جن کا سرمایہ بیرون ممالک پڑا ہوا ہے وہ معمولی سا ٹیکس ادا کرکے پاکستان واپس لا سکیں گے اور یوں کالے دھن کو سفید کرلیں گے۔ایمنسٹی سکیم کے دو بڑے فائدے فوری طور پر ہوں گے جن میں اول الذکر پاکستان کو ٹیکس کی مد میں آمدنی اور دوسرے نمبر پر پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافے کی توقعات ہیں۔اس سکیم کا نام فارن ایسٹس ڈکلیئریشن سکیم یعنی FADSرکھا گیا ہے جوامریکہ ، یورپ ، سوئٹزرلینڈ اور دیگر ممالک میں پڑے پاکستانی سرمائے کو وطن کی راہ دکھانے کی ایک کوشش ہے۔اس سکیم کے تحت ڈکلیئر کئے جانے والے بیرونی اثاثہ جاتے قانوی تصور ہوں گے ۔ اس سکیم کے مسودے کی تیاری میں وزارت خزانہ، سٹیٹ بینک آف پاکستان، ایف بی آر، بورڈ آف انوسٹمنٹ اور ایف آئی اے کی سفارشات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس مسودے کو آئی ایم ایف سے بھی شیئر کیا گیا ہے۔اس مسودے کی منظوری اپنے حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور اس وقت وزیر اعظم پاکستان کی میز پر پڑا ہے جس پر جلد ان کے دستخط ثبت ہونے کی توقع ہے۔
اس سکیم کے تحت کل بیرونی سرمائے کو پاکستان میں ڈکلیئر کرتے وقت 3سے 5فیصد تک حکومت پاکستان کو ٹیکس ادا کرنا پڑسکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اگر کسی پاکستانی کا بیرون ملک ایک ارب ڈالر پڑا ہوا ہے جب وہ تین سے پانچ ملین ڈالر حکومت پاکستان کو ٹیکس کی مد میں ادا کرے گا۔اس ڈرافٹ کی تیاری میں انڈونیشی ماڈل کی مدد بھی لی گئی ہے جہاں ایسا ہی ماڈل متعارف کروایا گیا تھا جس کے نتیجے میں خطیر سرمایہ انڈونیشیا میں واپس آیا تھا۔ حکومت پاکستان ایسی ہی ایک سکیم ٹیکس نادہندگان کے لئے بھی متعارف کروانے جا رہی ہے جس کے تحت معمولی سا ٹیکس ادا کرکے وہ ملک کے قانونی ٹیکس دہندہ بن جائیں گے۔
بیرون ممالک سرمایہ رکھنے والے افراد کا مطالبہ ہے کہ ان کی معلومات نیب اور ایف آئی اے سے شیئر نہیں کی جائیں گی۔ پانامہ لیکس میں دنیا بھر سے ایسے ہزار ہا لوگوں کے نام آئے تھے جن کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ انہوں نے ارب ہا ڈالر وہاں موجود کمپنیوں کے توسط سے رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان سرمایہ داروں کے مقامی ممالک اس سرمائے سے محروم تھے ۔ یہی حال پاکستان کا بھی تھا۔لگ بھگ دنیا کے گیارہ ممالک پانامہ لیکس کے بعد ایسی ہی ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرواچکے ہیں جس سے وہ خطیر سرمایہ ملک واپس لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور وہاں بھی ٹیکس کی مد میں کافی آمدن دیکھنے میں آئی ہے۔ اگر یہ سکیم ہمارے ہاں بھی کامیات ہوتی ہے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کو ٹیکس کی مد میں پانچ سے دس ارب ڈالر کی آمدن متوقع ہے جو موجودہ حکومت کی مدت میں ہی ہو سکتی ہے۔اس سکیم سے صرف بیرونی ممالک اثاثے رکھنے والے افراد ہی فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور مقامی سطح پر کالا دھن رکھنے والے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں۔
اسی طرح کی ایک سکیم ہندوستان میں بھی متعارف کروائی گئی تھی اور وہاں10ارب ڈالر کی آمدن ہوئی کیونکہ ٹیکس کی شرح 35فیصد رکھی گئی تھی جس سے کافی لوگ سرمایہ واپس ہندوستان لانے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ انڈونیشا میں یہ سکیم بہت کامیاب رہی اور وہاں حکومت ٹیکس کی مد میں 35 سے 40ارب ڈالر کمانے میں کامیاب رہی ۔ وہاں ٹیکس کی شرح 3سے 5فیصد ہی رکھی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انڈونیشیا میں غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ کھل گئی اور وہاں بے انتہا روزگار کے مواقع بڑھے جس کا وہاں کی معیشت پر بہت مثبت اثر پڑا ۔ اسی ماڈل کو لے کر حکومت پاکستان آگے بڑھ رہی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ ٹیکس کی مد میں اچھی خاصی آمدن ہوگی اور پاکستان کی خوشحالی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس سکیم کے نقادوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ایسی سکیمیں مختلف اوقات میں متعارف کروائی جاتی رہی ہیں مگر معیشت پر ان کے خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں اور بیرون ممالک اثاثہ جات رکھنے والے پاکستانیوں نے ان سکیموں میں اپنے لئے کوئی خاص کشش محسوس نہیں کی ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ حکومت اس سکیم کو فوری طور پر متعارف نہیں کرواسکے گی اور ممکن ہے کہ اس کو اگلے عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ تاہم حکومتی حلقوں کا کہناہے کہ اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرزاور سیاسی قیادت سے بھی گفتگو مکمل ہو چکی ہے۔
ان حکومتی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ 1990سے مستقل طور پر ایک ایمنسٹی سکیم چلی آرہی ہے کہ جو بھی آدمی ڈالر لے کرآتا ہے اس پر نہ تو کوئی ٹیکس ہوتا ہے نہ ایف بی آر یہ پوچھنے کی مجاز ہے کہ آپ ڈالر کیوں لے کر آئے ہیں یا کہاں سے لے کر آئے ہیں۔ اس وجہ سے لوگ پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے سے کتراتے ہیں اور اپنے ڈالر حوالہ کے ذریعے ملک سے باہر بھیج دیں جس پر آجا کر 3فیصد خرچہ آتا ہے اور یوں لوگ پیسے گھما کر واپس وطن لے آتے ہیں اور یوں کالا دھن سفید ہوجاتا ہے۔ حکومتی حلقوں کے مطابق نئی سکیم میں ایک نئی چیز یہ ہوگی کہ اس ضمن میں 1990سے کھلے ہوئے دروازے کو بند کیا جا رہا ہے اور اس کے بعد کوئی اور ایمنسٹی سکیم مستقبل قریب میں نہیں دی جائے گی۔ یہ ان پاکستانیوں کے لئے ایک موقع ہے جن کا سرمایہ بیرون ملک موجود ہے اور وہ اسے پاکستان لاکر ریگولرائز کرتے ہوئے سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔
ناقدین کا کہناہے کہ لگ بھگ ہزار ہا پاکستانیوں کا کئی سو ارب روپیہ بیرون ملک پڑا ہوا ہے جن کے لئے ایمنسٹی سکیم متعارف کروائی جا رہی ہے کیونکہ بین الاقوامی قوانین میں سختی ہونے کی وجہ سے وہ اسے وہاں ڈکلیئر کئے بغیر نہیں رکھ سکتے ہیں۔ حکومتی حلقے کہتے ہیں کہ اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں کو چھوٹ ہوگی کہ وہ بیرون ملک رکھ ہی اپنے اثاثے ڈکلیئر کرنا چاہتے ہیں یا پھر وطن واپس لانا چاہتے ہیں ، ہر دو صورتوں میں علیحدہ ٹیکس لاگو کیا جائے گالیکن اصل مقصد 1990سے کھلے ہوئے دروازے کو بند کرنا ہے۔
تاہم اس ضمن میں ایک بڑی تنقید یہ ہوتی ہے کہ حکومت کے پاس ایسی ٹھوس اور مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ کتنے پاکستانیوں کا بیرون ملک سرمایہ پڑا ہوا ہے اور اگروہ سرمایہ وہاں پر معیشت میں کھپ چکا ہے تو کوئی کیونکر اسے پاکستان واپس لائے گا۔حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ اس سکیم کے بعد کسی کو بھی اجازت نہیں ہوگی کہ کسی اور طرح پیسے واپس لے آئے اس لئے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ پھر موقع نہیں ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کے ساتھ بہت سے معاہدے دستخط کئے ہیں جن کے تحت حکومت پاکستان کو بیرون ملک سرمایہ رکھنے والوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ہوگا جس کی بنیاد پر ان سے پوچھ جائے گا کہ اتنی خطیر رقم آپ کے پاس کہاں سے آگئی ہے جس کا جواب دینا ان کے لئے مشکل ہوگا۔
دریں اثناء باوثوق ذرائع نے بتایا کہ ایمنسٹی سکیم کی بازگشت وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ثاقب نثار سے ملاقات کے دوران بھی سنی گئی ہے۔ سپریم کورٹ سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ ایف بی آر کے ٹیکس سے متعلقہ بہت سے مقدمات التوا کا شکار ہیں اور اس حوالے سے گفتگو ہوئی۔ امکان غالب ہے کہ اس ملاقات میں ایمنسٹی سکیم بھی زیر بحث آئی کیونکہ اس میں عدلیہ اور اور انتظامیہ دونوں ہی موجود ہیں اور عدلیہ کی جانب سے ایک سو ؤموٹو ایکشن کے ذریعے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے بارے میں توقع کی جارہی ہے کہ جلد ہی ایک فریم ورک وضع کرلے گی جس کی روشنی میں حکومت ٹیکس کی شرح اور جرمانے کی رقم کے حوالے سے قانون سازی کو حتمی شکل دے سکے اور اس کے ساتھ ساتھ استثنیٰ کی کلاز کو بھی طے کرلیا جائے تاکہ کل کو جب سکیم لاگو ہو جائے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے آگے بڑھیں تو ان کے دل میں یہ خدشہ نہ ہو کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پھر کوئی سوؤ موٹو لے کر ان کے اس اقدام کو ان کے لئے مصیبت کا باعث بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس حکومت یہ بیرون ملک سرمایہ رکھنے والوں کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ قانون کو عدلیہ کی حمائت بھی حاصل ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی مکمل کی جاچکی ہے ۔ یوں حکومت یہ تاثر پختہ کرنا چاہتی ہے کہ وہ بیرون ملک اثاثہ جات رکھنے والوں کو اعتماد دینا چاہتی ہے کہ ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے تمام متعلقہ اداروں سے عمل درآمد کی مہر ثبت کرواچکی ہے اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ ا س عمل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حکومت یہ باور کرارہی ہے کہ جوڈیشل ایکٹو ازم سے جہاں معاملات کو درست سمت میں ڈالنے کی سعی کی جاتی ہے وہیں پر نہ صرف یہ انتظامیہ ہر کام میں غیر ضروری حد تک محتاط ہو کر کام کو سرانجام دینے میں غیر معمولی تاخیر کا وطیرہ اختیار کرلیتی ہے وہیں پر ملکی معیشت میں سرمایہ کاری کرنے والے حلقے بھی اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں کیونکہ وہ کسی بھی بے یقینی کی صورت حال میں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور تب تک اپنے پیسے کو ہوا نہیں لگاتے ہیں جب تک انہیں باور نہ کرادیا جائے کہ ان کا سرمایہ قطعی طور پر محفوظ رہے گا اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی کوئی بھی پالیسی نہ صرف کماحقہ لاگو کی جائے گی بلکہ اسے طویل المدتی بنیادوں پر استوار بھی رکھا جائے گا۔ اس ضمن میں خاص طور پر یہ بات مدنظر رکھنے کی ہے کہ اس سکیم کے تحت حکومت پاکستانیوں کو ترغیب دینا چاہتی ہے کہ وہ بیرون ملک پڑا سرمایہ وطن واپس لے آئیں اور ایسے میں اگر اسے یہ فکر لاحق ہو کہ کل کلاں کو کوئی بھی اگر اعلیٰ عدلیہ میں جا کھڑا ہوا تو اس کے سرمائے کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگرچہ حکومتی حلقے اس حوالے تصدیق کر رہے ہیں نہ تردید کہ وزیر اعظم پاکستان کی چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ملاقات میں ایسی کوئی بات وزیر اعظم کی جانب سے ہوئی ہے اور اگر ہوئی ہے تو کیا چیف جسٹس نے کوئی یقین دہانی کروائی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی حلقے اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ضرور پائے جاتے ہیں کہ اگر ملک کا ہر ادارہ اور ہر سٹیک ہولڈر ایک ہی پیج پر ہو تو ہی اس سکیم کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
درج بالا صورت حال میں بلاشبہ ایمنسٹی سکیم کو متعارف کروانا حکومت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے کیونکہ اپوزیشن کی کوشش ہوگی کہ اس میں تاخیر ہو سکے اور ایسا کوئی بھی فیصلہ انتخابات کے بعد ہی عمل پذیر ہو کیونکہ انتخابات سے قبل ایسا کوئی بھی فیصلہ جس سے حکومتی خزانے میں خطیر رقم کا اضافہ ہوسکتا ہو اور ملک میں نئی سرمایہ کاری کی راہیں ہموار کرتا ہو یقینی طور پر حکومت کو اگلے عام انتخابات میں فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سکیم کو کس قدر جلد لانے میں کامیاب ہوتی ہے کیونکہ اس کے جلد متعارف کروائے جانے میں ہی ملکی معیشت کی بھلائی ہے۔

سرخیاں
معمولی ٹیکس ادا کرکے کالے دھن کو سفید کیا جا سکے گا
امکان ہے کہ وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے بیچ ایمنسٹی سکیم بھی زیر بحث آئی
حکومت 1990سے کھلے دروازے کو بند کردے گی

تصاویر
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی
چیف جسٹس ثاقب نثار
مفتاح اسماعیل
ڈاکٹر مصدق ملک
سٹیٹ بینک
ایف بی آر

مزید :

ایڈیشن 2 -