پنجاب میں ہائر ایجوکیشن کی پیش رفت
ابتدائی سطح پر اگر بچوں کو اپنے ارد گرد سے روشناس کرانے اور تہذیب واخلاق کا پابند کرنے کی تربیت دی جاتی ہے تو ہائی سکول میں اسے اپنے مستقبل اور کیرئیر کے متعلق فیصلے کرنے کے مراحل سے گذرنا ہوتا ہے۔ کالج میں وہ اپنے لئے منتخب فیلڈ کے لئے خود کو تیار کرتا ہے اور یونیورسٹی سطح پر مختلف شعبوں کے ایڈوانسڈ نالج سے آگاہی کے علاوہ طالبعلم کو خود علم تخلیق کرنے اور تحقیق و جستجو اور ایجاد و اختراع کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ اعلیٰ سطح کی تعلیم سے بہرہ مند افراد قوم کو مختلف شعبوں میں رہنمائی اور قیادت مہیا کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کسی معاشرے کے تمام افراداعلیٰ تعلیمی مراحل طے کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ اچھی پیشہ ورانہ تعلیم کے حصول کے بعد کسی بھی شعبہ میں عملی کام میں اچھی کارکردگی اور اچھے معیار قائم کرکے اہل وطن کی خدمت کرنابھی زندگی کے اچھے مقاصد میں سے ہے۔
ہر سطح کی تعلیم کے اپنے تقاضے ہیں ، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ علم کی حاکمیت کے ، اس زمانے میں اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اعلیٰ سطحی تعلیم میں کوالٹی کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ کسی بھی دوسرے شعبہ زندگی سے کہیں بڑھ کر اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں ذہین و طباع اور اعلیٰ صلاحیت کے افراد اور کو ا لٹی ایجوکیشن کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے ا علی تعلیم کے ادارے قائم کرتے وقت ان میں تعلیم کی کوالٹی کنٹرول کرنے کا موثر سسٹم قائم ہوناضروری ہے۔ اندرونی سسٹم کے علاوہ یونیورسٹیوں کی ریگولیٹری اتھارٹیز کی طرف سے بھی اس مقصد کے لئے موثر نظام اور قواعد و ضوابط و ضع ہونے چاہئیں ۔
ضیاء الحق کے زمانے میں ڈاکٹر محمد افضل کی سربراہی میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قائم ہوا تو یونیورسٹی اساتذہ نے کوالٹی کنٹرول کے سلسلے میں اس کے کسی طرح کے اختیار اور کوشش کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ انہوں نے یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو جواز بنایا اور گرانٹس کمیشن کو صرف یونیورسٹیوں میں گرانٹس تقسیم کرنے والا ادارہ قرار دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر عطاء الرحمن کی سربراہی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم ہوا تو یونیورسٹی اساتذہ نے اس کو بھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔
کمیشن کی طرف سے یونیورسٹی اساتذہ کے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے،پی ، ایچ ، ڈی اساتذ ہ کی حوصلہ افزائی ، تحقیق کے لئے فنڈز کی فراہمی، سینئر یونیورسٹی اساتذہ کی اعانت سے مختلف مضامین کے نصاب تیار کرنے جیسے اقدامات نے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے اساتذہ کی بے رخی کو ختم کیا اور آہستہ آہستہ ہائر ایجوکیشن کمیشن یونیورسٹی اساتذہ کے لئے قابل قبول بن گیا۔ جب بعض سیاستدانوں کی جعلی ڈگریوں کے خلاف ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سخت رویہ اختیار کیا اور حکومت کی طرف سے اسے ختم کئے جانے کی کوشش ہوئی، اس وقت تمام یونیورسٹیوں کے اساتذہ ہائر ایجوکیشن کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
اس کے بعد سندھ حکومت نے اور پھر پنجاب حکومت نے اٹھارویں ترمیم کی روشنی میں اپنے ہاں صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کئے، اس وقت ان کو بھی یونیورسٹی اساتذہ نے شک کی نظر سے دیکھا۔ پنجاب میں ڈاکٹر نظام الدین جیسے جید عالم اور اعلیٰ تعلیم کے ماہر شخص کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کا چئیرمین بنا کر حکومت نے اس سلسلے میں اپنی نیک نیتی کا ثبوت فراہم کیا۔ امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھانے اور گجرات میں نئی یونیورسٹی قائم کرنے کے سلسلے میں انتہائی اہم خدمات سرانجام دینے کی وجہ سے ڈاکٹر نظام الدین کی صلاحیتوں سے کسی کو بھی انکار نہیں تھا۔ انہوں نے پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کو صوبے میں اعلیٰ تعلیم کی کوالٹی بہتر بنانے کے لئے انتہائی تندہی سے کام شروع کیا۔
تین برس کی کوششوں سے نہ صرف پنجاب ہائر ایجوکیشن کی افادیت واضح کی بلکہ اسے اساتذہ کی سطح پر بھی قابل قبول اور اہم ادارہ بنایا ۔ سال2015ء سے 2018ء کے دوران تین سال میں کل پینسٹھ یونیورسٹیوں نے پنجاب ہائر کمیشن کے ساتھ خود کو چارٹرڈ کرایا ، جن میں سے چالیس پبلک سیکٹر اور پچیس پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیاں ہیں۔ ان میں انجینئرنگ ، ایگلریکلچر ، وٹنری، میڈیکل اور انڈسٹریل کے علاوہ جنرل یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ تاہم یونیورسٹیوں میں کوالیفائڈ فیکلٹی ، مناسب انفراسٹرکچر اور سہولتوں کا موجود نہ ہونا ان کے بین الاقوامی معیار پر پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ رہا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا نصاب وقت کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا اور ان میں تبدیلی کا عمل بے حد سست ہے۔
یونیورسٹیوں کی قیادت بھی اکثر مضبوط اورابل لوگوں کے ہاتھ میں نہیں۔تاہم ڈاکٹر نظام الدین کی کوششوں سے پنجاب میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور ترقی کے لئے موثرکام ہوا۔مضبوط ادار ہ قائم ہوا ، یونیورسٹیوں کے علاوہ کالج ایجوکیشن کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی گئی ۔ تاہم حکومت کی صفوں میں اعلیٰ سطحی تعلیم کی اہمیت کا پورا احساس نہ ہونے کی وجہ سے اس کام میں رکاوٹیں حائل رہیں،جس کی تفصیل گذشتہ سال کے اختتام پر شائع کی گئی پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ میں موجود ہے ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لئے فنڈنگ میں مسلسل کمی کی گئی ہے ۔ 2015-2014ء میں اگر اس سلسلے میں ساڑھے چودہ ارب روپے خرچ کئے گئے تو یہ رقم 2019-2018ء میں کم کرکے صرف پا نچ ارب کردی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائر ایجوکیشن کمیشن جو کہ یونیورسٹیز کو فنڈز مہیا کرنے کا ذمہ دار ادارہ ہے اس کی طرف سے طلبہ کے سیکھے جانے والے ہنر اور تعلیم کے معیار اور انہیں ملازمت کے ملنے والے مواقع کے بجائے زیادہ زوریونیورسٹیوں کو حاصل زمین، فیکلٹی کی تعداد اور لیبارٹریز وغیرہ پر رہا ہے۔ اس وقت اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم بھی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے لیکن وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن اعلیٰ تعلیم کامعیار قائم کرنے اور اس کی نگرانی کا ذمہ دار ہے۔
صوبائی اور وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشنز کے اختیارات کے واضح نہ ہونے سے اعلیٰ تعلیم کے مقاصد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسکے علاوہ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مہیا کئے جانے والے فنڈز میں کمی اس کے مقاصد پورے کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔اب تک پنجاب ہائر کمیشن کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کو با مقصد بنانے اور اس کے فروغ کے لئے یونیورسٹیوں کے علاوہ کالج سطح کی تعلیم پر بھی بہت توجہ دی گئی ہے۔ ڈاکٹر نظام الدین کی قیادت میں پنجاب کے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جو اچھے کام کئے ان کی فہرست طویل ہے۔ لیکن ان کے بعد اب اعلیٰ تعلیم کے لئے صوبائی حکومت کو اپنی ذمہ داری کا پورا احساس کرتے ہوئے اس بے حد اہم مقصد کے لئے پیش رفت کرنا ہوگی۔