اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 116
بعض بزرگان دین سے مروی ہے کہ ایک قوم نے ایک خوبصورت عورت کو جو حسن میں لاثانی تھی، مشورہ دیا کہ وہ ربیع ابن خثیمؒ کو چھیڑے۔ اس طرح شاید وہ کسی فتنہ میں پڑجائیں۔ اس قوم نے اس کام کے لیے عورت کو ہزار درہم دینے ٹھہرائے۔
چنانچہ وہ عمدہ لباس اور زیور سے آراستہ ہوکر جب حضرت نماز پڑھ کرمسجد سے نکلے، تو سامنے آکھڑی ہوئی۔ اس نے چہرے سے نقاب ہٹائی ہوئی تھی۔
آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا ’’اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تمجھ پر بخار نازل ہوگا ۔ تیرے چہرے کا رنگ اُڑجائے گا ۔ یا تجھ پر ملک الموت نازل ہوکر تیری رگ جاں کاٹ ڈالے گا۔ یا تجھ سے منکر نکیر سوال کریں گے۔‘‘
یہ سنتے ہی اس عورت نے ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہوک گرپڑی۔ راوی کہتے ہیں کہ قسم ہے اللہ کی جب اسے افاقہ ہوا تو ایسی عبادت گزار بن گئی کہ جس دن وہ مری ہے جلے ہوئے درخت کی طرح خشک و سیاہ تھی۔
***
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 115 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت نظام الدین اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ م یری والدہ کا انتقال ماہ جمادی الآخر کی پہلی تاریخ کو ہوا۔ اس مہینہ کی رات کو جب نیا چاند دیکھا تو مَیں نے ان کے قدموں میں سر رکھا اور معمول کے مطابق نئے چاند کی مبارک دی۔
اس وقت ان کی زبان مبارک سے نکلا ’’کہ ماہ آئندہ کے غرہ میں کس کے قدموں میں سر رکھو گے۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ ان کا انتقال قریب ہے۔ میری حالت غیر ہوگئی اور میں رونے لگا۔ عرض کیا ’’اے مخدومہ! مجھ غریب بے چارہ کو کس کے سپرد کرتے ہو؟‘‘
فرمایا ’’اس کا جواب صبح کو دوں گی۔‘‘ اور فرمایا کہ رات شیخ نجیب الدین متوکل کے گھر میں رہو۔
ان کے فرمان کے مطابق میں وہیں رہا۔ آخر شب صبح کے قریب لونڈی آئی کہ مخدومہ آپ کو بلاتی ہیں۔ جب میں پہنچا تو فرمایا ’’رات کو تم نے ایک بات پوچھی تھی اور میں نے اس کے جواب کا وعدہ کیا تھا۔ اب میں کہتی ہوں ۔‘‘ پھر فرمایا ’’داہنا ہاتھ کون سا ہے؟ اس کو پکڑ کر فرمایا ’’خداوندا! اس کو تیرے سپرد کرتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر جاں بحق تسلیم کی۔
***
ملا محمد نارنولی کہتے ہیں کہ میری ماں کہتی تھیں کہ جب تو شیر خوار بچہ تھا تو ایک دفعہ ایسا بیمار ہوا کہ زندگی کی امید جاتی رہی۔ اللہ دین مجزوبؒ ہمارے محلہ کے نزدیک سے گزرے اور ایک شخص کو آب خورہ کی مٹی دیدے کر کہا کہ یہ مٹی فلاں مکان میں لے جاؤ۔
اس شخص نے وہ مٹی لے کر مجھ کو دے دی اور میں نے تعویذ بنا کر تیرے بازو میں باندھ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو صحت دی۔ تیرے والد گئے اور اللہ دین کو گھر میں لائے تاکہ کچھ کھلائیں۔ اللہ دین کہنے لگے ’’خدایا! کچھ گرم، کچھ سرد، کچھ کھٹا، کچھ میٹھا۔
تمہارے والد نے اسی وقت چاول پکوائے اور ان کے ساتھ شکر اور دہی بھی دیا۔ وہ کھا کر واپس چلے گئے۔
***
کہتے ہیں کہ کسی ستار نواز کی بینائی جاتی رہی تھی۔ اسے حضرت مہر علی شاہ صاحبؒ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اسے ہدایت کی کہ آج رات ستار پر کونیساراگ بجا کر سناؤ۔ ستار بجانے والے نے ایسا ہی کیا۔ آپ برابر کے کمرے میں کواڑ بند کرکے راگ سن رہے تھے۔
رات جب عروج پر پہنچا تو اچانک ایسا محسوس ہو اکہ کوئی چیز نیچے آگری ہو۔ ساتھ ہی ستار نواز کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ اس کے ہاتھوں میں خوشی سے رعشہ آگیا۔ اس نے اپنے ساتھی سے کہا ’’مجھے دکھائی دے رہا ہے۔‘‘
ساتھی نے کہا ’’ساز بے سرا نہ ہو۔‘‘
پھر اس نے حضرت کے حضرہ میں ایک جھری سے جھانک کر دیکھا تو آپ سجدے میں گرے ہوئے تھے۔ سجدے ہی میں آپ نے کہا
’’بھاگ جاؤ۔ بھاگ جاؤ۔ اپنی آنکھیں لے جاؤ۔ میری آنکھوں کے لیے دعا کرو کہ درست رہیں۔‘‘‘
***
حضرت جنید بغدادیؒ کے وعظ کے دوران ایک آتش پرست مسلمانوں کے بھیس میں حاضر ہوا اور آپ سے عرض کی ’’کہ حضور اکرمﷺ کا یہ فرمان ہے کہ مسلمان کی فراست سے بچتے رہو۔ کیونکہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
یہ قول سن کر آپ نے فرمایا کہ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ تجھے مسلمان ہوجانا چاہیے آتش پرست اس کرامت سے ایسا متاثر ہوا کہ اسی وقت مسلمان ہوگیا۔(جای ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 117 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں