کورونا،خوف کم کریں،دین کو متنازعہ نہ بنائیں؟
حمید جہلمی(مرحوم) صحافت میں سنجیدگی اور شرافت کا ایک منفرد نام تھے، ہمارا ان سے ساتھ روزنامہ امروز(مرحوم) سے ہوا اور پھر روزنامہ پاکستان میں بھی ان سے آ ملے، ایڈیٹورٹل لکھنے کے علاوہ وہ کالم بھی دیکھتے اور ایڈیٹنگ کرتے تھے۔ امروز میں ایک کالم طبی مشوروں کے حوالے سے ہفتہ وار شائع ہوتا تھا، وہ بھی جہلمی صاحب ہی دیکھا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کالم میں بیماری کے ذکر کے بعد ہی پرہیز اور علاج تجویز کیا جاتا تھا۔ محترم جہلمی صاحب اکثر ہنستے اور کہتے یہ کالم ایڈٹ کرتے کرتے یوں محسوس ہونے لگا کہ جس بیماری کا ذکر ہے وہ مجھ میں بھی ہے اور یوں مَیں بیماریوں کا مجموعہ ہوں۔ان کی یاد اس لئے آئی کہ ہمارے میڈیا (خصوصاً الیکٹرانک+ سوشل میڈیا) نے آج کل کورونا وائرس کے حوالے سے جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے کہ اس سے بھی ایسا ہی احساس ہوتا ہے یہ کورونا وائرس ہمارے اردگرد ہی کہیں ہے اور گھر تو کجا کمرے سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ہم بھی گھر میں بند بچوں سے دور دور رہتے اور دفتری امور بھی ای ٹیک سہولتوں کے ذریعے ادا کر رہے ہیں۔ اس میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ گذشتہ روز (منگل) سیاسی ایڈیشن کے لئے دفتر جانا پڑا تو کئی احتیاطیں کر کے چلے تھے، گھر میں گرم پانی کا استعمال بڑھ گیا، کئی بار غرارے بھی کرنا پڑتے ہیں، ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے پاس خبریں ختم ہو چلیں، صبح سے رات تک یہی بتایا جاتا ہے کہ کورونا وائرس نے مزید اتنی جانیں لے لیں اور اب تعداد اتنی ہو گئی ہے اور متاثرین اتنے ہیں۔
کورونا کے حوالے سے چین کی تعریف بجا کہ یہ وبا پہلے وہاں پھوٹی اور چین نے اس پر قابو پا لیا۔اگرچہ اب بھی وہاں روزانہ محدود سے واقعات پیش آ رہے ہیں،دو سے تین اموات بھی ہو جاتی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان خوش قسمت گنا جا رہا تھا کہ یہاں تصدیق شدہ مریضوں اور اموات کی تعداد دُنیا بھر کے ممالک سے کم ہے،لیکن جوں جوں وقت گذر رہا ہے یہ تعداد بھی بڑھ رہی ہے،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم سے بہت بڑی کوتاہی یہ ہوئی کہ باہر سے آنے الے افراد کی سکریننگ میں سستی دکھائی گئی۔ ہوائی اڈوں پر تو درجہ حرارت ہی ٹیسٹ ٹھہرا، لیکن سرحدوں پر رعایت برتی گئی، پھر آنے والوں نے بھی احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔ یوں یہ حضرات پھیل کر دوسروں کو متاثر کرتے چلے آ رہے ہیں اور ان کی تلاش مشکل ہو چکی ہے اور اب ہر روز نئی اطلاع مل جاتی ہے۔اس سلسلے میں تنقید و تعریف کا سلسلہ بھی جاری ہے ہم بہرحال گریز کرتے ہیں اور یہی کہہ سکتے ہیں کہ جس سے جو بن پڑتا ہے وہ کر رہا ہے۔ذمہ ار حضرات کو اپنی کوششوں میں اور اضافہ کرنا چاہئے۔
کورونا کے حوالے سے ہمیں اس بحث اور فضول گفتگو کا بہت دُکھ اور افسوس ہے،اس میں مُلا کا ذکر کر کے دین کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے،حالانکہ یہ امر ہر مکتبہ فکر کی طرف سے واضح کیا گیا اور کیا جا رہا ہے کہ دین کسی علاج اور احتیاط سے منع نہیں کرتا،بلکہ تاکید کرتا ہے کہ علاج اور احتیاط لازم ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار کیوں؟ دین ہمارا لازم قرار دیتا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی اہم ہیں۔ دُکھ کا مقام ہے کہ آج اس ابتلا کے دور میں بھی لوگ سبق سیکھنے پر تیا نہیں، بلکہ اس وبا کے باعث آنے والی پریشانی کو بھی آمدنی کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ جعلی ادویات جوں کی توں اور پھر ادویات کی قلت اور بلیک مارکیٹنگ جاری ہے۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہو رہی ہے۔
یہ سب ہوتے ہوئے، توبہ اور نمازوں کے حوالے سے بالکل فضول باتیں کی جا رہی ہیں،حالانکہ تمام تر حکمت، علاج اور احتیاط کے ساتھ جب یہ کہا جائے کہ اللہ سے رحم مانگو، توبہ کرو، اور وہ کام نہ کرو جن سے دین اسلام نے منع کیا ہے تو اسے بھی دین ملا کہہ دیا جاتا ہے۔ ہمیں ان سب دوستوں کے رویے سے دُکھ ہے، جو ترقی پسندی کے نام پر پورے دین ہی کو نشانہ بنا رہے ہیں،اس سلسلے میں چودھری شجاعت حسین کی تعریف لازم ہے جو سیاست دانوں میں شاید پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے کھل کربات کی اور کہا ”اللہ ناراض ہے،توبہ کریں اور حکمران عفو کے لئے دَُعا مانگیں اور خود کو ٹھیک کریں“ یہ سب کے لئے ہے، ہم سب کو ہی ایسا کرنے کی ضرورت ہے، جو حضرات مساجد کے در پے ہیں ان کو اب تو ہوش آ جانا چاہئے۔ انڈونیشیا والوں نے مساجد کے باہر سینی ٹائزر گیٹ لگا لئے، ہر نمازی گذر کر جاتا اور مکمل طور پر جراثیم کش سپرے سے مستفید ہوتا ہے اور اب تو جھنگ کی سبزی منڈی میں لگایا جانے والا واک تھرو گیٹ بھی گذرنے والوں کو جراثیم سے پاک کر رہا ہے اور یہ چار پانچ ہزار افراد کے گزرنے کے لئے کافی ہے۔ اسلام آباد کی بعض سڑکوں پر بھی فوارے لگائے گئے ہیں، جو گزرنے والی گاڑیوں کو سینی ٹائزر سے شفاف بنا رہے ہیں یہ بھی اللہ کی دی ہوئی عقل ہی سے ممکن ہوا، ہمیں تیزی کے ساتھ یہ طریقہ اپنانا ہو گا اور شہروں، مارکیٹوں، گزر گاہوں اور مساجد کوجراثیم سے پاک کرنا ہو گا۔ براہ کرم! تنازعہ نہ بنائیں،احتیاط اور علاج کریں تو توبہ بھی کریں۔یہ سب کے لئے لازم ہے،ہماری یہی استدعا ہے کہ خبروں میں احتیاط کریں اور دین کو متنازعہ نہ بنائیں۔