پاکستان میں جرائم کا خاتمہ ممکن ہے
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور مہربانی سے کبھی کبھی بغرض عمرہ اور حاضری روضہ رسول پاکؐ کے لئے سعودی عرب جانے کی توفیق عطا کرتا ہے اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے اس میں پاکستان کے عظیم سیاستدان رحم دل انسان سابق وزیر اعظم صدر پاکستان مسلم لیگ چودھری شجاعت حسین صاحب کی خصوصی مہربانیاں اور میرے پیر و مرشد کی دعائیں شامل ہیں موضوع کی طرف آتا ہوں سعودی عرب میں بسنے والے پاکستانیوں کے لئے وہ لمحہ انتہائی دکھ، کرب، اور الم کا باعث ہوتا ہے جب یہاں موت کی سزا پانے والے مجرموں میں ہر دوسرا شخص پاکستانی ہوتا ہے سعودی قوانین کے مطابق منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کا تعلق زیادہ تر پاکستان سے نکلتا ہے یہ بات لکھنے میں مشکل ہے کہ یہ لوگ پاکستان میں ناجائز رہائش پذیر اور غیر ملکی مہاجرین کے روپ میں آکر رشوت دے کر پاکستانی پاسپورٹ اور دوسرے کاغذات حاصل کر لیتے ہیں اور ان کے سپورٹر پاکستان میں طاقت ور لوگ ہیں جن کا حکومت وقت بھی کچھ نہیں کر سکتی یہ بات ہمارے لئے محب الوطن پاکستانیوں کے لئے بڑی تکلیف دہ اور باعث ندامت ہوتی ہے کہ ہر ماہ کھلے عام سر قلم کئے جانے والوں میں اکثریت پاکستانیوں کی ہوتی ہے سر قلم کئے جانے کا منظر اگرچہ چند سیکنڈوں کا ہوتا ہے لیکن وہ منظر انتہائی ذلت آمیز اور عبرت ناک ہوتا ہے اس منظر کے دیکھنے والوں کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ سزا پانے والا شخص ایک پاکستانی تھا تو یہ سن کر محب الوطن پاکستانی شہریوں کے سرشرم اور ندامت سے جھک جاتے ہیں سعودی قوانین کی سوجھ بوجھ رکھنے کے باوجود پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر لوگ یہ گھناؤنا جرم کرتے ہیں ان کو کون لوگ تیار کرتے ہیں بالکل اسی ذہن اور پاکستان دشمنی رکھنے والے لوگ جو دہشت گردی کرنے کے لئے لوگوں کو تیار کرتے ہیں بالکل اسی طرح یہ پاکستان دشمن لوگ ہر طرح پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کس کس کو بتایا جائے یہ لوگ ملک دشمن ہیں سعودی عرب میں کام کی غرض سے آنے والے غیر ملکیوں میں پاکستان کے علاوہ ہندوستان بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، شام وغیرہ کے لوگ شامل ہیں بے شک اب بہت کم لوگ آ رہے ہیں لیکن کسی دوسرے ملک کے لوگ گھناؤنا جرم کرنے سے پہلے سوچتے ہوں گے لیکن پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر عقل و شعور رکھنے کے باوجود یہ کام صرف چند لاکھ روپے کے لالچ میں کر گزرتے ہیں اور پھر ذلت آمیز موت سے ہمکنار ہوتے ہیں وہ اپنے لئے تو بے عزتی اور رسوائی حاصل کرتے ہیں لیکن پاکستان اور پاکستانی قوم کا نام بدنام کرتے ہیں کیا غیر ملکیوں کو پاسپورٹ اور دوسرے کاغذات تیار کرنے والے پاکستانی اہل کار اب کرونا وائرس سے ڈر کر توبہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ ایک ملک پاکستان دنیا میں یا اپنے دوست ملک میں بدنام نہ ہو پاکستانی حکمرانوں کو پاکستان کے حالات کے مطابق اب غیر ملکی لوگوں کو ملک سے نکالنا ہوگا تا کہ مشکلات سے بچا جا سکے تمام قسم کے فراڈ اور چور بازاری میں ہمارا نام دنیا میں پہلے ہی مشہور ہے مگر اب منشیات کی اسمگلنگ میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں سعودی عرب میں ہر ماہ دس سے بارہ افراد میں سے 6/8 کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے کوئی خیر خواہ محنت کرنے والا عزت سے روزی کمانے والا یہ خبر آنے کے بعد کیا تصور کرتا ہے ان کے احساسات کیا ہوتے ہیں جب وہ ہندوستان کے لوگوں کے سامنے خود کو بہتر اور افضل کہا کرتے تھے سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کے انتہائی سخت قوانین کا علم رکھنے کے باوجود ہمارے لوگ یہ کام کیوں کرتے ہیں ہمارے اس لئے کہ ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے کون ان کو اس ذلت آمیز موت کے منہ میں دھکیلتا ہے کون انہیں لالچ دے کر سعودی عرب بھیجتا ہے ہماری حکومت اور لاء انفورسمنٹ ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں وہ کیوں کوئی سخت سے سخت سزا اپنے یہاں لاگو نہیں کرتیں کہ کوئی یہ گھناؤنا جرم نہ کرے ان میں اکثریت جرائم پیشہ لوگ پاکستانی نہیں ہیں تو کون لوگ انہیں پاسپورٹ مہیا کرتے ہیں وہ خواہ کوئی بھی ہو بدنامی تو گرین پاسپورٹ کی ہوتی ہے چند لوگوں کی لاپرواہی اور کوتاہی سے ہماری شناخت مجروح ہو رہی ہے دنیا ہمیں جرائم پیشہ چور، ڈکیت سمجھنے لگ گئی ہے ایگزٹ واقعات ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ہماری پارلیمینٹ اور ادارے قوانین تو بہت بنا لیتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ان قوانین پر عمل درآمد کے لئے ہمیں جس محکمے کا سہارا لینا پڑتا ہے وہی جب جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بن جائے تو ہر قانون پر عمل درآمد کس طرح ممکن ہے معذرت کے ساتھ اگر دیکھا جائے تو ہمارے تمام جرائم کے اصل آماجگاہ۔ پناہ گاہ پولیس کا محکمہ اور اس سے ملتے جلتے ادارے ہیں پولیس کے مدد اور تعاون کے بغیر کوئی جرم پھَل پھول نہیں سکتا 50 ملازم 30 ملازم بہت اچھے مگر ان میں دو ملازم بدکردار، بے ایمان کرپٹ ہوں گے تو پھر سب کام غلط ہوگا ہم سب کو بخوبی علم ہے کہ منشیات کا کاروبار ان کے متعلقہ نگران محکموں کی نگرانی کے بغیر نہیں چل سکتا یہ ممکن ہی نہیں کہ ان اداروں کے کرپٹ عناصر کی شمولیت کے بغیر ملک بدنام ہو سڑکوں اور شاہراہوں پر کناروں پر بیٹھے نشے میں دھت افراد کو چرس اور ہیروئین کون سپلائی کرتا ہے کیا اس کے متعلقہ ادارے بے خبر ہیں یہ حقیقت سے کیوں آنکھیں چراتے ہیں ان کی کوئی نہ کوئی وجہ ہو گی جہاں ملک میں منشیات تیار ہوتی ہیں وہاں کیوں نہیں روکا جاتا ملک کے دوسرے حصوں میں اور دوسرے ممالک میں کس طرح سپلائی ہوتی ہے منشیات تیار کرنے والے اپنی کمائی کا کافی حصہ متعلقہ اداروں کے ذمہ داروں کو دیتے ہیں اور یہ ناجائز کمائی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے منشیات تیار کرنے سے لے کر دوسرے ملکوں تک پہنچاتے ہیں کوئی ایک ادارے کے لوگ شامل نہیں ہوتے اس میں بہت سے لوگ شامل ہوتے ہیں جو ملک کی بدنامی اور شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ اپنے ملک کے اندر جرائم اور دوست ملکوں میں سزاؤں سے ملک پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے ان میں فرق ہے ہماری پولیس ہی جب ان جرائم کی افزائش اور مجرموں کی سرپرستی کر رہی ہو تو پھر معاشرے سے جرائم کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہو حکومت اگر جرائم کے خاتمے میں سنجیدہ ہے اور فکر مند ہے تو اسے سب سے پہلے پولیس کے محکمے کو سدھارنا ہوگا اس کے بغیر کوئی قانون اور کوئی دستور اس معاشرے کو جرائم سے پاک نہیں کر سکتا پولیس کے محکمے کی صفائی اب نہایت ضروری ہو چکی ہے اگر ملک معاشرہ بچانا ہے۔
صحیح راستے پر چلانا ہے تو پولیس کو درست کرنا ہوگا ورنہ سب بول بچن، چوری ڈکیتیوں، ناجائز قبضوں، رہزنوں اور بھتہ خوری کی وارداتوں کے پچیھے بھی ہمیں پولیس کی مدد اور تعاون دکھائی دیتا ہے باقی ادارے۔ محکمے دودھ میں نہلائے ہیں سب میں سب سے بڑھ کر کرپشن اور لٹ مار ہے لیکن پولیس کا ڈائریکٹ عوام سے واسطہ ہے اور دوسرے محکموں میں لٹ مار اور کرپشن کا دوسرا آسرا پھر پولیس سے جا کر ملتا ہے پولیس اگر ایمان دار اور نیک فعال ہو جائے تو پھر کوئی جرم یہاں پروان نہیں چڑھے گا اور کوئی مجرم طاقت ور ہو کر عوام کے سروں پر دندناتا نہیں پھرے گا ہمیں جرائم پیشہ افراد کو سخت سزا دینی ہو گی، لیکن ایک مصیبت ہے کہ پاکستانی قانون اندھا ہے چند معزز لوگ اس کو جدھر مرضی لے کر چلے جاتے ہیں جب ہم دہشت گردی کا خاتمہ ملک سے کر سکتے ہیں تو پھر ان چوروں، ڈکیتوں، قبضہ گروپوں کا خاتمہ کیوں نہیں کر سکتے کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا جب ہم قانون پر عمل درآمد کے لئے پھانسیوں کی سزا دے رہے ہیں تو پھر منشیات کا کاروبار کرنے والوں کو اپنے ملک میں سزا دیں بجائے اس کے کہ دوسرے ملکوں میں بدنامی ہو اب ہم کو تہیہ کرنا ہوگا کہ اس مملکت اسلامی میں جرائم کا خاتمہ کرنا ہے ہماری قوم اس وقت تک تہذیب یافتہ قوموں کی برادری میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتی جب تک وہ جرائم پیشہ افراد سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکتی اگر سعودی عرب میں دنیا میں سب سے کم جرائم ہوتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے وہاں قانون پر عمل داری ہے ہمیں بھی ایسے طریقوں پر غور کرنا ہوگا جب تک ہم منشیات فروشوں اور ڈکیتیاں کرنے والوں کو سر عام نہیں لٹکائیں گے اس طرح کے جرائم ختم نہیں ہوں گے اس کے علاوہ معاشرہ بچانے کے لئے ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے اب پانی سر سے گزر چکا ہے اب اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کرونا وائرس کے خلاف اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دشمنوں کو بھی ختم کرنا ہوگا ویسے تو یہ اب انشاء اللہ کرونا وائرس سے ڈر جائیں گے چونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز شروع ہو گئی ہے۔