پاکستانی مسلمانوں کی ثقافت اور کلچر ایک ہے
کلچر۔ثقافت کیا ہے؟ ہر صوبے، علاقے، زبان، قبیلے کے رسم ورواج بول چال، حال و احوال معلوم کرنے کی رسمیں، شادی بیاہ، غمی خوشی، بچوں کی پیدائش، عقیقہ،قرآن پاک کی تعلیم شروع کرنے پر بھی بعض علاقوں، نسلوں اور قبائل میں بسم اللہ کی رسم تھی۔ختم قرآن کرنے پر خوشی کی رسم تھی۔ شادی بیاہ پر خواتین اپنے اپنے حلقہ میں خوشی کے گیت، اسی طرح مردوں میں بھی جھومر اور اپنے اپنے ھاں کے رسم ورواج کے مطابق ڈھولک وغیرہ کا رواج تھا۔
گلستان زندگی میں ہر رنگ بلکہ رنگا رنگ کے پھول اور خوشبوئیں ہیں۔یہی حسن ہے کہ ہر پھل، سبزیوں کے اپنے اپنے موسم اور رنگ ہیں۔یک رنگے یک موسمے نہیں ہو سکتے۔خوشیاں سانجھیاں، رسمیں سانجھیاں، فصلوں کی کاشت اور کٹائی و گہائی و برداشت پر بھی اظہار خوشی وشادمانی اور خیرات کا رواج تھا۔اپنے اپنے لباس، رنگا رنگ کپڑوں پگڑیوں، چادروں میں کیا خوب سجتے تھے۔میلے ٹھیلے، مویشیوں کی منڈیاں، اونٹوں کی لڑائی، بیلوں کی دوڑ، بیل گاڑیوں کی دوڑ، گائے بھینس کے دودھ کے مقابلے، گھڑ دوڑ، نیزہ بازی، کبڈی، گھسنی بینی پکڑنا۔ مسعود کھدر پوش (ڈپٹی کمشنر) یہ میاں طفیل محمد صاحب مرحوم امیر جماعت اسلامی پاکستان کے کلاس فیلو اور بے تکلف دوست تھے) نے راجن پور تحصیل کے قصبہ فاضل پور کے قریب کے قیصر چانڈیہ سے نلی چھڑانا یا گھسنی یا بینی پکڑنے کا مقابلہ ہارا تو مسعود کھدر پوش اور قیصر چانڈیہ کی مدتوں دوستی رہی۔میں بھی جالندھری ھونے کے بعد لائل پوری اور پھر فاضل پور ی تھا۔قیصر چانڈیہ میرا اور میرے وہاں کے دوستوں کا کلاس فیلوز بھی ہے بے تکلف دوست تھا۔وہ ثقافتیں اور کلچر کیسے کیسے دلوں کو جوڑتا تھا۔نہ حفظ مراتب آ ڑے آ تا، نہ امارت و غریبی رکاوٹ بنتی نہ C.S.Pہونا فاصلے رکھنے کا روا دار تھا۔
سرائیکی جو کل تک ملتانی زبان سمجھی جاتی تھی، اس کا کلچر ثقافت، الگ صوبہ، روز روز مطالبات کی بھر مار دہریجے کوریجے،لنگاہ وغیرہ، انہیں تو اپنی شناخت اور شان کے مطابق پاکستان کو اس کی اصل بنیاد کلمہ طیبہ پر تعمیر کے زور شور سے مطالبے کرنے چاہئیں تھے۔یہ کس دھندے کو لگ گئے۔غلط لوگوں کے بہلاوے میں آ گئے۔اگر ان کے یا اس طرح کے اور لوگوں کے مطالبات کے مطابق نظریہ پاکستان سے ہٹ کر کسی بھی اور بنیاد پر صوبے اور ثقافتیں اور کلچر بنے،تو کتنے دن 22کروڑ پاکستانی اکٹھے رہ سکیں گے۔دین اسلام اور شریعت محمدی ہی پاکستانیوں کو ایک قوم اور مربوط و مضبوط حصار کی قوم کی شکل دے سکتی ہے۔ورنہ فرقوں کی بنیاد پر تقسیم سے کتنے زخم مسلمانوں کے وجود پر لگ چکے ہیں۔مسلمان کلمہ گو ایک خدا اور اس کے رسولؐ بر حق کو ہادی اور رۃبر مانتے ہوئے 57ملکوں میں تقسیم ہو کر بے وقار ہو چکے۔
اسلام کی بنیاد پر وجود میں آنے والا پاکستان واحد ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔ علامہ محمد اقبالؒ جن کا دِل قرآن کی روشنی اور عشق مصطفی ؐ سے منور تھا جسے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی ولولہ انگیز قیادت نے وجود بخشا۔بابائے قوم نے اپنے رب سے بھی یہی وعدہ کیا تھا کہ مجھے ہندوستان میں اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے لئے خطہ زمین بخشا جائے جہاں میں اسلام کی ایسی حکومت قائم کروں،جو ساری دنیا کے لئے نمونہ کی حکومت ہو۔دنیا اس کی تقلید کرے۔ بابائے قوم یہ بھی جانتے تھے کہ جو ان کے عزائم ہیں، ان کا ساتھ دینے والے میرے ساتھ مخلص لیڈر کم ہیں۔
علامہ محمد اقبالؒ مرحوم تو ملک بنتا نہ دیکھ سکے، مگر ان کی روح یقینا خوش ہو گی کہ ملک وجود میں آ گیا۔علامہ اقبال ؒنے جہاں قائد اعظم ؒ کو حوصلہ اور رہنمائی دی۔وہاں انہوں نے اسلامی جمہوری ملک کے نظام کو اسلام کے درخشاں اصولوں پر استوار کرنے اور قائم رکھنے پر، ترقی یاب کرنے کے لئے مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ کو حیدرآباد دکن ہندوستان سے پنجاب میں منتقل ہونے پر آمادہ کیا۔ اپنے ایک عقیدت مند چودھری نیاز علی صاحب کے ٹرسٹ، واقع نزد پٹھان کو ٹ ضلع گورداسپور کو مولانا مودودیؒ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔مولانا مودودیؒ وہاں تشریف لے آئے، مگر جب چند ماہ بعد ملک تقسیم ہوا تو انگریز حکومت نے کانگریس کی ملی بھگت اور سازش سے کثیر مسلم آبادی کا یہ ضلع گورداسپور بھارت کو دے دیا، تا کہ وہاں سے جموں کشمیر پر قبضہ جما کر پاکستان کی گردن دبوچ لے۔دریاوں اور نہروں کے ہیڈز پر قبضہ کر کے پاکستان کو مفلوج کر دے۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد قائداعظم جلد اللہ کو پیارے ہو گئے۔جن کھوٹے سکوں سے نالاں اور غیر مطمئن تھے، ملک انہی کے حوالہ ہو گیا۔11ستمبر 1948 ء کو بابائے قوم نے وفات پائی۔4اکتوبر کو ٹھیک 24دن بعد مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ صاحب اور ان کے رفقا کو جیل میں ڈال دیا گیا،حالانکہ قائداعظم نے اپنی زندگی میں مولانا مودودیؒ سے ریڈیو پاکستان لاہور سے اسلام کے مختلف موضوعات پر پانچ تقاریر کرائی تھیں۔
مولانا مودودیؒ اور ان کی تحریک جماعت اسلامی، قائداعظم کے نظریہ پاکستان، یعنی اسلامی نظام حکومت سے ہٹ کر کسی بھی دستور اور نظام حکومت کو برداشت کرنے اور درگذر کرنے کے خلاف سینہ سپر تھی۔قوم بھی، تعلیمی ادارے بھی اسلامی تعلیمات کی اشاعت پر کمر بستہ تھے۔میں نے 1949میں دسویں کلاس میں اسلامیہ ہائی سکول ڈیرہ غازی خان میں نصاب میں شامل رسالہ دینیات اور خطبات پڑھا تھا۔مسلمانوں کی اور پاکستانیوں کی اصل ثقافت اور کلچر وہ تھا۔وہی ہے اور وہی ہو گا، تو ملک آزاد اور مستحکم رہے گا۔