” عشقِ رہبر(Hero Worship)“ 

” عشقِ رہبر(Hero Worship)“ 
” عشقِ رہبر(Hero Worship)“ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 موبائل فون کی سکرین پر یکدم روشنی جگی۔ دیکھا تومعاشرتی رابطے کی مشہور سائیٹ”ٹویٹر“ پر ایک پیغام کا اشتراک ہوا۔ پیغام کی شراکت،اگرچہ معتبر نہ سہی، مگرمعروف اور”قدآور“ صحافی کی طرف سے کی گئی تھی۔ پیغام کچھ یوں تھا۔”ایک طرف عمران خان تین اپریل کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مجمع اکٹھا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔دوسری طرف اپوزیشن کو پیغامات بھیج رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد واپس لے لو تو میں اسمبلیاں توڑنے کے لئے تیار ہوں“۔جواب آں غزل کے طور پر پیغام سے اتفاق کرنے والوں اور اختلاف برتنے والوں کا آنِ واحد میں تانتا بندھ گیا،جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
”تم جیسے میر۔۔۔سے پوری قوم نفرت کرتی ہے۔۔۔اپوزیشن کے ساتھ مل کر ملک دشمنوں کی سازش کے مہرے بن کر۔۔۔ لوگوں کو بات کرتے شرم نہیں آتی۔عمران خان رہتا ہے یا جاتا ہے ہر دو صورتوں میں پلڑااسی کا بھاری ہے“۔
”اندر باعزت راستہ مانگتا ہے۔باہر دھمکیاں۔ سکیورٹی ایف سی کے پی کو دے دی۔اپنی پر اعتبار نہیں رہا“۔
”۔۔۔ ایک انتہائی درجے کا گھٹیا،اَنا پرست،ضدی،ہٹ دھرم اور خود پسند بندہ ہے“۔
مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کے خواہشمند جب راقم سے اخبار میں سب سے بہتر مطالعاتی مواد کے بارے میں دریافت کرتے تو راقم انہیں مشورہ دیا کرتا کہ اخبارمیں اداریہ کے بعد ”مُدیر کے نام“ خطوط اخبار کا سب سے اہم اور قابل مطالعہ صفحہ ہوتا ہے،کیونکہ ان خطوط میں بالعموم مختلف موضوعات پر ان موضوعات کے ماہرین اپنی آراء چند لفظوں میں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔گویا کسی ایک موضوع کے حق اورمخالفت میں دلائل کی آسان دستیابی تھوڑے وقت میں بہتر جانکاری کا باعث بنتی ہے۔خدا کا شکر ہے کہ مُدیر کے نام خطوط میں چھپنے والی آراء کے لئے الفاظ اور عبارت کو مُدیر معیار سے نہیں گِرنے دیتا وگرنہ اس صفحہ کا حال بھی فیس بک یا ٹوئیٹر کے صفحات جیسا ہوتا۔


اپنی جُدا گانہ رائے رکھنا اور اس کا اظہار کرنا بُنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔مگر آزادی اظہار ِ رائے کو لباس پہنانے والے الفاظ اگر غصہ،تعصب،تضحیک اور نفرت کے مادہ سے اٹھائے گئے ہوں گے تونفسِ مضمون قاری کو متاثر  کیے  بنا  ہی شکست کھا جائے گا۔جذباتی رائے زنی کے ماحول اور اس پر ہونے والے لالچ اور بغض پر مبنی غیر حقیقت پسندانہ تبصروں کے خوف سے صاحبُ الرّائے لوگ آج رائے دینے کو عبث جانتے ہیں،کیونکہ اگر کسی شعبہ سے منسلک معتبر عالم کی رائے پر اسی کے قد کاٹھ والا شخص تبصرہ کرے اور اس تفکر میں اسی سطح کے دیگر لوگ حصہ لیں تو ایسی بحث و تمحیص معاشرے کی ذہن و کردار سازی میں سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر جائے گی۔لیکن ملک کی معاشی،سیاسی یا معاشرتی حالت پر کسی عالم کی رائے کے جواب میں تبصرہ دکان پر بیٹھا مو نگ پھلی فروش کرے گا،گلیوں، بازاروں میں پھرنے والا اوباش، یا بسوں، ریل گاڑیوں میں لوگوں کی جیبوں پر نظررکھنے والا جیب تراش کرے گا،تو صاحب الرائے لوگ ذاتی احترامِ عزت اور احترامِ رائے کے تناظر میں خاموشی کو ترجیح دیں گے۔


آج سے تقریباً چوبیس سو سال قبل سقراط کو زہر کا پیالہ ایسے ہی نہیں پلا دیا گیا۔اس پر دو ”گھناؤنے جرائم“ کی سرزدگی کے الزامات تھے،جن کی سزا ”وقت کے دانشوروں“ کے نزدیک موت ہی بنتی تھی۔پہلا الزام تھا کہ اس نے روایتی یونانی مذہب،اس کے پیشواؤں اور پیروکاروں پر سوالات اٹھادیے تھے اور دوسرا الزام یہ تھا کہ وہ نوجوانوں میں سوال اٹھانے کی عادت کی پر ورش کر رہا تھا۔آج معاشرے کی رگوں میں یونانی اندازِ فکر کی یکسانیت سرایت کر چکی ہے۔سقراط کا کوئی پیروکار اگر اس یکسانیت میں اضطراب یا اضطرار پیدا کرنے کی”خطا“کرتا ہے تو”یونانی مکتب فکر کے لوگ“اسے زہر پیالہ پلانے کے لوازمات پورے کرنے میں شب وروز صرف کر دیتے ہیں۔


طرزِ فکر کی یکسانیت سیاسی،مذہبی اور معاشرتی میدانوں میں ”عشق رہبر“(Hero Worship) سے آتی ہے۔اگرچہ رہبر کے طرزِ فکر و عمل پر اعتماد ضروری ہے،مگر یہ بھروسہ کان اور آنکھیں بند کر کے کبھی نہ ہو۔کیونکہ جب رہبر کو زمین سے اٹھا کر”مافوق الفطرت“ ہستی کے طور پر تسلیم کیا جانے لگے گا،تو اس کے اندازِ فکروعمل کے خلاف کسی دوسرے مکتبِ فکر کی رائے کو اس پر حملہ تصور کیا جائے گا۔اس کے مریدین اور پیروکار انہیں کیے کی سزا دینے کے لئے حتی الوسع اور حتی المقدور”مقامِ فنا“تک لے جانا پسند کریں گے۔ایسا ہی ایک منظر دوسال قبل،عمرہ کے دوران،راقم کو زمین پر اپنے سب سے زیادہ عزیز تعلق کی طرف سے دیکھنے میں آیا۔عمرہ کے پورے نصاب کے دورن وہ اپنے محبوب سیاسی رہبرو رہنما کی بیماری کو سچ سمجھ کر زاروقطار روتے رہے اورخانہ کعبہ میں رہبر کی فرضیِ بیماری سے شفاء کے لئے طواف اور دعا ئیں کرتے رہے۔اس وقت ان کی جان میں جان آئی، جب معلوم ہوا”رہبرِ بے مثل“عدالت کے حکم پر بغرضِ علاج ولایت بھجوادیے گئے ہیں،جہاں وہ زمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہی بیماری کوجہاز میں چھوڑ آئے تھے۔


لمحہ بھر کے لئے دنیا سے آنکھ چرا کے وطنِ عزیز کے سیاسی منظرنامہ پر نگاہ دوڑائیں تو کتنی مضحکہ خیزسی تصویر سامنے دکھائی دیتی ہے۔محض سیاسی خانوادوں کی”ولی عہدی“کا سہرا سَر پر سجے ہونے کے باعث، کم عمری اور نا تجربہ کاری کے باوجود، ان کے پیچھے اُن کے ایسے پیروکاربھی ہاتھ باندھے، اُن کی گفتگو سُن کر واہ واہ کرنے کے ساتھ ساتھ، زندہ باد،زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں،جنہوں نے محدکے بعداور لحد سے پہلے، عمر بھر کا دورانیہ اسی میدان میں گزارا ہوتا ہے۔
آج پاکستانی قوم کی اکثریت کو”عشقِ رہبر“کے اندر رہتے ہوئے ظرف،ضبط اور حترام کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔بغض و عناد سے مبرّاء،تجزیوں کو پروان چڑھانا ہوگا۔تضحیک وتنقید میں فرق کو سمجھنا ہوگا اور لفافہ بازی کی چلت سے ہر حال میں چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔تب کہیں جا کے شاید ہمارے صاحب الرائے لوگ اپنی رائے دینے پر آمادہ نظر آئیں۔

مزید :

رائے -کالم -