سب کو اپنے عمل پر غور کرنا ہوگا!

  سب کو اپنے عمل پر غور کرنا ہوگا!
  سب کو اپنے عمل پر غور کرنا ہوگا!

  


 یہ زیادہ دور کی بات نہیں،تجویز دی گئی تھی کہ سیاسی مقدمات کی سماعت کے لئے الگ عدالت یا ایک سے زیادہ عدالتیں بنا دی جائیں جو آئینی عدالت ہوں اور سیاسی اور آئینی امور کے حوالے سے درخواستیں یہی عدالتیں سنیں، تجویز کی وجہ یہ تھی کہ معمول کی عدلیہ میں سیاست سے متعلق درخواستوں کی بھرمار کے باعث عدالتیں زیر التوا دیگر مقدمات کی سماعت نہیں کر پاتیں اور عوام کا استحصال ہوتا ہے، اس سلسلے میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ عدالت عظمیٰ نے قتل کے ایک ملزم کو بری کر دیا اور یہ بریت بعد از مرگ ہوئی کیونکہ ملزم کا انتقال ہو چکا ہوا تھا، یوں یہ جو کہتے ہیں کہ مر جائیں گے تو سنو گے والی مثال سامنے آئی تھی، یہ بات یوں بھی دل کو لگتی ہے کہ حال ہی میں منتخب ایوان میں ایک سوال کے جواب میں زیر التواء اور زیرسماعت مقدمات کی جو تفصیل دی گئی وہ آنکھیں کھولنے کے لئے ہے کہ زیر سماعت اور زیر التواء مقدمات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ دوسرے ایسی مستقل عدالتوں کی وجہ سے بنچ بنانے اور بنچ ٹوٹنے کے تنازعات بھی پیدا نہیں ہوں گے، سب کو واضح طور پر علم ہوگا کہ ان کے معاملے کی سماعت کہاں ہو گی اور کون کریں گے۔
یہ بات ہر بار کہی جاتی ہے کہ بنچ اور بار کا چولی  دامن کا ساتھ ہے، اگر یہ بات صرف کہنے کے لئے ہے تو الگ بات ہے ورنہ آج جو صورت حال پیدا ہوئی، اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ بنچ اور بار مل کر عدلیہ کو اس سے باہر نکالیں اگرچہ جاری سماعت کے دوران بار کونسل کے عہدہ دار کو ملنے کے لئے کہا گیا لیکن یہ رسمی سی بات تھی، بہتر ہوتا کہ بار کونسل ہی نہیں، سینئر بار ایسوسی ایشنز کو بھی دعوت دے کر بلا لیا جاتا اور حالیہ معاملات کے بارے میں مشاورت کرکے حالات کو سنبھال لیا جاتا لیکن بات کہی ضرور گئی لیکن عملی شکل اختیار نہ کر سکی حالانکہ ضرورت تو ہے۔
یہ سب اپنی جگہ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے سیاسی اکابرین کس حد تک بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے تنازعہ کے حل کے لئے ان سب کو باہمی ملاقات اور مشاورت کا مشورہ دیا ہے اور انتخابات کے دوران امن کی گارنٹی بھی مانگی ہے، اس سلسلے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے تحریری یقین دہانی دی گئی ہے کہ انتخابی عمل کے دوران پُرامن رہا جائے گا، تاہم ساتھ ہی اس عبارت کو شرطیہ بنا دیا گیا ہے اگر جاری زیادتی یا دھاندلی وغیرہ کا عمل نہ ہوا تو اس  اضافیت کی کوئی ضرورت نہیں، صرف اپنی طرف سے تعاون کی یقین دہانی کافی تھی۔ دوسری طرف سے ابھی تک ایسا نہیں کیا گیا، ادھر سے تو یہ دعویٰ ہے کہ امن و امان کو خراب ہی مخالفین کی طرف سے کیا جا رہا ہے، اب دیکھنا فاضل عدالت کا کام ہوگا کہ اس تجویز کا کیا بنا؟
پوری قوم اس وقت شدید کنفیوژن اور مایوسی کی حدوں کو چھو رہی ہے کہ محاذآرائی کسی دم ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ سب اسی قوم کے نام پر ہو رہاہے جس کی آواز کوئی نہیں سنتا سب رہنما اپنی بات کو شروع یا ختم کرنے کے لئے یہی ارشاد فرماتے ہیں، قوم نہیں مانے گی، حال ہی میں چودھری پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی نے بھی یہی کہا ہےّ ان کے مطابق پوری قوم ان کے ساتھ ہے اگر یہ سچ اور حقیقت ہے تو پھر قصور کے مریم نواز والے جلسے میں فرشتوں نے قدم رنجہ فرمایا تھا؟ خدارا اپنے اپنے الفاظ پر غور کرلیا کریں اور بولنے سے پہلے تول لیا کریں۔ اگلی بات کرنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ بات چیت کے لئے تیار ہیں، لیکن یہ بات آئین اور انتخابات کے حوالے سے ہوگی، اس کے ساتھ ہی  چود ھری پرویز الٰہی سے ملاقات کے دوران ان کا کہنا تھا کہ آئین 90دنوں کے اندر انتخابات کرانے کا کہتاہے۔ یوں یہ پیشکش مشروط ہو گئی، ہم نے اول روز سے دونوں بلکہ سب فریقوں سے یہی گزارش کی اور یہی توقع رکھی کہ وہ سب غیر مشروط طور پر مذاکرات شروع کریں، میز پر اپنے اپنے موقف کے مطابق ہی بات شروع ہو گی، ایسی صورت میں نتیجہ بھی برآمد ہوگا لیکن ابھی تک عدم اعتماد کی کیفیت ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے بدستور الزام تراشی جاری ہے اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یہ کہا جا رہاہے کہ عمران خان پر یقین نہیں وہ یوٹرن کے ماہر ہیں۔ البتہ یہ اطلاع سامنے آئی ہے کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کی بات کی جائے گی اور عمران خان سے پوچھا جائے گا کہ وہ خود ملاقات کا دن، وقت اور جگہ کا تعین کریں تو اس پر غور ہوگا، اگر یہ بات درست ہے تو عمران خان کی طرف سے ایسا کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔،کسی طور تو بات چیت کا آغاز ہو۔
جہاں تک معصوم قوم کا سوال ہے تو اس کی حیثیت تو یہ ہے کہ مفت آٹا لینے کے لئے جان گنوا دیتی ہے اور جب کسی فیکٹری والے کی طرف سے راشن اور زکوٰۃ کی تقسیم کی اطلاع ہو تو بارہ قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، اس مجبور قوم پر ہی تو رحم کی ضرورت ہے، جس کے نام پر سیاست چمکائی جاتی ہے۔ یہ دم  بہ دم مر رہی ہے۔
یہ بات تو عرض کر دی شاید غور کر لیا جائے،  تاہم سینئر سیاست دان فرزند راولپنڈی شیخ رشید کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانا چاہیے کہ وہ ہر وقت خانہ جنگی کی بات کرتے ہیں اور ان کے پاس ملکی مسائل کا حل یہی ہے کہ اقتدار عمران خان کو دے دیا جائے جن کی حکومت میں وہ وزیرداخلہ تھے، انہی محترم کی طرف سے گھنٹوں، دنوں اور مہینے کا ذکر کرکے پیش گوئی کی جاتی رہی ہے جو آج تک پوری نہیں ہوئی ان کو اپنے بیانات اور اپنے ماضی پر بھی غور کر لینا چاہیے کہ وہ خود نوازشریف کے لئے کیا کیا فرماتے رہے ہیں اور اب کیا کہہ رہے ہیں، تاریخ ظالم ہے جو کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔ شیخ صاحب اور ان کے دوسرے ساتھیوں سے گزارش ہے کہ اپنے رویے کو تبدیل کریں کہ وہ اکیلے ہی ”جمہوریت“ نہیں  ہیں۔ جمہوریت جمہور سے ہے اور سب کو اس کا لحاظ کرنا ہوگا۔
تحریک انصاف کی طرف سے انتخابات ہوں تو کلین سویپ کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ میری عرض یہ ہے کہ اس خوش فہمی سے باہر نکل آئیں کہ اس وجہ سے انتخابی نتائج کو قبول نہیں کیا جاتا جب الیکشن اور وہ بھی جنرل الیکشن ہوگا تو پورے ملک میں حلقہ وار ہوگا۔اس حوالے سے عوامی ترجیحات الگ ہوتی ہیں۔ ووٹ کے استعمال میں کئی امور ہوتے ہیں، رشتہ داری، دوستی، مقامی دھڑے بندی اور مقامی کے ساتھ برادری کا تعصب بھی شامل ہوتا ہے اس لئے کلین سویپ کی غلط فہمی دور کر لیں۔

مزید :

رائے -کالم -