برگد کا درخت
برصغیر پاک و ہند، بشمول بنگلہ دیش میں عدالتی احاطوں میں ایک وسیع و عریض سایہ دار درخت کا ہونا تقریباً ضروری ہے۔ پہلے زمانوں میں نہ برقی پنکھے تھے، نہ ایئر کنڈیشنر، یہ گھنے درخت جو عموماً برگد یا پیپل کے ہوتے ہیں، ضروری تھے اور اب بھی آپ ان انتہائی چوڑے گھیر والے درختوں کو دیکھ کر ان کی لمبی عمروں کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
پچھلے دنوں سندھ ہائیکورٹ جانا ہوا تو وہاں بھی برگد کا درخت اپنی روایت نباہ رہا ہے اور جہاں عوامی دور ہی میں، مَیں نے بھی بہت چکر لگائے تھے۔ آزادیءاظہار کی جنگ میں موجودہ چیف الیکشن کمشنر جو اس وقت جج تھے، نے ہماری بڑی مدد کی، مگر حال یہ تھا کہ وہ ہمیں آزاد کرتے اور دفتر پہنچتے نہیں تھے کہ پابندی کا دوسرا حکم نامہ آچکا ہوتا۔
برگد کے یہ درخت نہ صرف یہ کہ عدالت میں آنے والے مو¿کلوں، گواہوں اور گاہے وکیلوں کو قدرتی سایہ سے نوازتے تھے اور اب بھی نوازتے ہیں، بلکہ یہ بات بہت مشہور رہی ہے کہ وہ وکلاءجن کو کوئی مقدمہ نہیں ملتا تھا، ان درختوں کے نیچے اپنی چھتری کو اُلٹا کر کے بیٹھ جاتے تھے۔ حکمت یہ تھی کہ برگد کے پھل اُن میں گر جاتے تھے اور وہ اس سے اپنی ضیافت کا اہتمام کر لیتے تھے۔ اب تو خیر وکلاءکے لئے آرام دہ کمرئہ استراحت ہوتے ہیں، مگر آج سے پچاس سال پہلے یہی شجر سایہءدار ہی ہر مرض کی دوا تھے۔ اس کے نیچے خوانچے والے بھی بیٹھ جاتے تھے اور یہ سب کا ویٹنگ روم ہی نہیں، ڈائننگ روم بھی بن جاتا تھا۔ گاو¿ں دیہات میں اس کی گولائی میں چبوترے بنا دئیے جاتے تھے جو چوپال کا کام کرتے تھے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ برگد کے اسی طرح کے درخت کے نیچے گوتم بدھ کو بھی گیا (بہار) کے تاریخی شہر میں ”نروان“ ملا تھا اور وہ درخت کہتے ہیں، اب تک موجود ہے۔ ویسے میں نے امریکہ کے ایک علاقے میں تین ہزار سال سے زیادہ پرانا درخت دیکھا ہے۔
برگد کا ذکر آیا تو ہمارے محلہ کے ایک برگد کے درخت کا ذکر ضروری ہے....ایک صاحب جن کے دروازے پر یہ درخت تھا، اس کی مناسبت سے برگد والے خان صاحب کہلاتے تھے۔ اُن کا صحیح نام جاننے کی کسی کو کبھی ضرورت ہی نہیں ہوئی کہ سارا محلہ اُنہیں اسی نام سے پکارتا تھا۔ غالباً ایک بار اُنہوں نے اُسے کٹوا دیا، کیونکہ صبح، شام اس پر پرندوں کے غول کے غول بیٹھا کرتے تھے اور ان کی دہلیز گندی ہو جاتی تھی۔ پھر میں باہر چلا گیا، جب آیا تو پتہ چلا کہ برگد والے خان صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انسان ہو یا درخت، جانا تو سب کو ہی ہے۔
برگد کا درخت تو اب اُردو ادب میں مختلف طریقوں سے استعمال ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست کا برگد ہے، وہ ادب کا اور وہ کسی اور فن کا، اور یہ بھی کہ برگد کے نیچے کچھ اور نہیں اُگتا۔ صرف اُس کی لمبی لمبی لٹیں ہی اس کے سایہ میں اُگ سکتی ہیں اور کچھ بھی نہیں۔ مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے پاکستان میں ہر میدان میں کتنے بڑے بڑے برگد اپنے سائے میں کچھ اور اُگنے نہیں دیتے اور اُس میں اُن کیا قصور، اس برگد کی تو خصوصیت ہی یہی ہے۔ اب ہر کوئی تو برگد والے خان صاحب کی طرح ہے نہیں جو درخت کو ہی کٹوا دے۔ ٭