یوم آزادی کی تقریبات اور معاشی استحکام
اگست کا مہینہ ہر پاکستانی کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس مہینے پاکستان وجود میں آیا تھا، جس وقت قائد اعظم محمد علی جناحؒ اپنے کارکنوں اور قوم کے ساتھ مل کر پاکستان بنانے کی جدوجہد کر رہے تھے، تو دُنیا بھر میں کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ قائداعظمؒ اور مسلمانان برصغیر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد اور قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت اور شاعرِ مشرق علامہ سر اقبالؒ کے وژن نے ایسا حیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا کہ آج ہر پاکستانی اگر اپنا تجزیہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہو جائے کہ انڈیا میں مقیم مسلمانوں کے مقابلے میں پاکستانی مسلمانوں کو کتنی زیادہ نعمتیں اور سہولتیں حاصل ہیں۔
پاکستانی بزنس کمیونٹی کے لیڈر اور سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر افتخار علی ملک نے اگست کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا۔ پاکستان میں شائد ہی کوئی ایسا گھرانہ ہوگا ،جس کے آباؤ اجداد نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں حصہ نہ لیا ہو اور دامے، درمے، سخنے اس میں حصہ نہ ڈالا ہو۔ خود میرے والد مرحوم محمد شفیع ملک نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں عملی طور پر حصہ لیا اور اپنے بچوں کے ساتھ اپنے احباب کو بھی بتاتے تھے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو اس وقت کے کروڑ پتی بھی نائب قاصد سے زیادہ ترقی نہ کر سکتے۔ پہلے تو پھر کچھ روا داری تھی۔ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کیا جاتا تھا اب تو اِس بات پر ہندوستان میں مقیم مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے کہ اُنہیں شک ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے گائے کا گوشت کھایا ہے۔ ابھی کچھ روز پہلے میری ملاقات برازیل کے پاکستان میں سفیر سے ہوئی تو خوشی ہوئی کہ اب برازیل کی بھی خواہش ہے کہ ایشیا کی اُبھرتی ہوئی معیشت پاکستان میں سرمایہ کاری کرے۔ یہ مقام تین سال پہلے ایک خواب تھا، کیونکہ پاکستان کی معیشت اتنی زبوں حالی کا شکار ہو چکی تھی کہ عملی طور پر صرف دیوالیہ ہونے کا اعلان باقی رہ گیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی اور انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی حکومت وجود میں آ گئی جسے حکومت کرنے کا تجربہ ہونے کے ساتھ اس کے پاس معاشی خوشحالی کا وژن بھی موجود تھا۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے اپنے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک معاشی ٹیم تشکیل دی، جس نے میرے سمیت مختلف سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا اور ان سے تجاویز لے کر پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا۔ اگر اسحاق ڈار کے پاس بین الاقوامی مالی معاملات کا تجربہ اور اقدامات نہ ہوتے، تو آج صرف تین سال کے عرصے میں پاکستانی معیشت کے بارے میں دُنیا بھر کے مالیاتی ادارے یہ بیان نہ دیتے کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل آیا ہے اور اب پاکستانی معیشت بہتری کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ پہلے لاہور سٹاک ایکسچینج اور کراچی، اسلام آباد الگ الگ ہوتے تھے، لیکن وفاقی وزیر خزانہ نے ان تینوں کو ملا کر پاکستان سٹاک ایکسچینج تشکیل دے دیا، جس کی شاندار پرفارمنس نے دُنیا بھر میں ماہرین معاشیات کو حیران کر دیا ہے۔ کیا کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستانی سٹاک ایکسچینج اتنی ترقی کر جائے گا کہ انڈیا اور بنگلہ دیش سمیت ایشیا کے مختلف ممالک سے آگے نکل جائے گا۔ ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ بھی حیران ہیں کہ پاکستان کو اب عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضوں کی ضرورت نہیں اور مالیاتی اداروں کی طرف سے آفر موجود ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو مزید مستحکم کرنے کے لئے مزید قرضے دینے کو تیار ہیں۔ بے شک وہ انفراسٹرکچر کا شُعبہ ہو یا کوئی اور۔ یہ کریڈیبلٹی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اگست کا مہینہ آزادی کا جشن منانے اور سوچنے سمجھنے کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جشن مناتے ہوئے ہم علامہ اقبالؒ کے اِس شعر کو پیش نظر رکھتے ہیں:
بہتر ہے دِل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اِس لئے پوری قوم آزادی کا جشن کھل کر منائے، لیکن اتنا ضرور سوچے کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا۔ قائداعظمؒ نے اپنی ایک تقریر میں بہت خوبصورت بات کی تھی کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ اسلام کی ثقافت اور تہذیب ہندوؤں سے بالکل الگ ہے اور پاکستان بنانے کا اصل مقصد یہی ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کے لئے جو نظام پیش کیا ہے اسے عملی طور پر نافذ کر سکیں۔ خاص طور پر معاشی شعبے میں مسلمان خوشحال ہو سکیں، کیونکہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا بدترین معاشی استحصال کیا گیا ہے۔ اگست کے مہینے میں جشنِ آزادی مناتے ہوئے ہمیں اُن مقاصد کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جن کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا، سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ پاکستانیوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے ہر کوئی اپنا کام ایمانداری سے کرے۔ معاشی خوشحالی کا پھل پوری قوم کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے، توانائی کے مسائل حل ہونے کے قریب ہیں۔ چین کے تعاون سے اقتصادی راہداری پاکستان کی معاشی قسمت تبدیل کرنے جا رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے امن و امان کی صورتِ حال بہتر بنانے کے لئے جو ضربِ عضب آپریشن شروع کیا ہے اس کی وجہ سے امن و امان کی صورتِ حال پہلے سے زیادہ کنٹرول میں آ چکی ہے،جس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا رُخ پاکستان کی طرف ہو رہا ہے۔خود پاکستانی بھی اب نئے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار اور پراپرٹی ڈیلرز کے درمیان جو معاہدہ طے پا گیا ہے اس کے نتیجے میں نئے پیداواری یونٹ قائم ہوں گے۔ سٹیٹ بینک کے گورنر نے بہت اچھا کیا کہ شرح سود 5.75 پر قائم رکھی، اس سے پرائیویٹ شعبہ کو سرمایہ حاصل کرنے میں آسانی ہو گی۔وزیراعظم محمد نواز شریف نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ مسترد کر کے عوام کو خوش کر دیا ہے، عوام کے استعمال کی مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس مقصد کے لئے سٹیک ہولڈرز سے ایک میٹنگ ضروری ہے۔