مگر صاحب مکھی اْڑ رہی ہے
کل ہی میں ایک تصویر دیکھ رہا تھا کہ ترک وزیرِ اعظم بن علی یلدرم کمال اتاترک کے مزار پر حاضری دینے جا رہے ہیں اور ان کے پیچھے مسلح افواج کی ہائی کمان چل رہی ہے۔نریندر مودی انڈیا کے وزیرِ اعظم کم اور فیصل آباد کا گھنٹہ گھر زیادہ ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اہم انتظامی فیصلے کی کوئی فائل پردھان منتری بھون چھوئے بغیر بالا بالا گذر جائے اور مودی جی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کو آپ چاہے برا کہیں یا بھلا، لیکن سرکاری معاملات پر نہ صرف ان کی گرفت محسوس ہوتی ہے، بلکہ اس قدر گرفت کہ گھٹن کا گمان ہوتا ہے۔لیکن جہاں جہاں حکمرانی مرکزیت کے بجائے لامرکزیت کے تابع ہے وہاں مملکت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کو بڑے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے کام تک سب کچھ اپنے ہاتھ سے کرنے یا دماغ کو بے جا تھکانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔کیونکہ ان ریاستوں میں انتظامی ادارے نہ صرف مستحکم، بلکہ خودکار انداز میں فعال بھی ہیں۔
مثلاً کسی نے برطانوی وزیرِ اعظم کو یورپی یونین کے رہنماؤں سے سخت سفارتی سودے بازی کرتے ضرور دیکھا ہوگا، لیکن غربا میں سو سو پاؤنڈ کے چیک بانٹتے یا بیواؤں میں سلائی مشینیں تقسیم کرتے کتنوں نے دیکھا؟ جب طے ہے کہ یہ سوشل سیکیورٹی کے ادارے کی ذمہ داری ہے تو پھر وزیرِ اعظم کا کیا واسطہ کہ کارِ فلاح کیسے انجام دیا جا رہا ہے۔اوباما عراق و افغانستان میں فوجوں کی کمی بیشی کے احکامات جاری کرنے کے تو مجاز ہیں، لیکن نیویارک کے پولیس چیف کو براہِ راست فون کر کے امن و امان کے حالات پر رپورٹ طلب کرنے کا ہرگز اختیار نہیں رکھتے؟کیونکہ نیویارک پولیس چیف ایک ہی باس کو جانتا ہے یعنی نیویارک کا میئر۔کہنے کو تو پاکستان میں ہر کام کے لئے ادارہ بھی ہے اور اہلکار بھی۔ پر اکثر پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں کس کا کیا کام ہے اور کون سا کام کون سا بندہ کیوں کر رہا ہے؟
مثلاً جنرل راحیل شریف امریکی و سعودی وزرائے خارجہ سے علاقائی و عالمی امور پر تبادلہِ خیالات کرتے ہیں اور وزیرِ دفاع خواجہ آصف پانی و بجلی کے امور سے نمٹتے ہیں اور مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز انٹرویوز دیتے ہیں۔ طارق فاطمی، آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ( ریٹائرڈ ) ناصر جنجوعہ اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی میں سے کون کتنی خارجہ پالیسی کا مالک ہے؟ دفترِ خارجہ کا پورا وقت ملین ڈالر کی یہ گُتھی سلجھانے اور بھانت بھانت کی بیانیہ قے سے آلودہ فرش پر پوچہ لگانے میں صرف ہو جاتا ہے۔ اگر شہباز شریف محض ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ ہیں تو پھر چین سے اقتصادی مذاکرات کس حیثیت میں کرتے ہیں اور پھر لاہور کے کسی سرکاری ہسپتال کا بیت الخلا اچانک چیک کر کے متعلقہ اہلکار کی فوری برطرفی کا اختیار بھی اپنے پاس کیوں رکھتے ہیں؟ اگر انتظام اسی کا نام ہے تو پھر سرکاری ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ چیف منسٹر ہاؤس کا جزوقتی ویٹر بھی تو ہونا چاہیے۔
کوئی کچھ بھی کہے مگر اس ملک میں مسلح افواج کے بعد سب سے زیادہ طاقتور ادارہ کیبل آپریٹرز کا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کا پٹواری عرف کیبل آپریٹر چاہے تو کسی بھی پھنے خان چینل کو منٹ بھر میں ہیرو سے زیرو بنا سکتا ہے۔ با اختیار پیمرا ان الیکٹرونک پٹواریوں کے ہاتھوں اس قدر بے بس ہے کہ اس کے چیئرمین کو وزیرِ اعظم نواز شریف سے درخواست کرنا پڑتی ہے کہ کیبل آپریٹرز سے سفارش کردیں کہ وہ فلاں چینل کو 67 نمبر پر پھینکنے کے بجائے تیسرے نمبر پر بحال کردیں، تاکہ پیمرا کی کچھ عزت رہ جائے۔ لیکن کیا واقعی کیبل آپریٹرز حکومت سے بھی زیادہ طاقتور ہیں یا پھر ان جیسوں کے ذریعے حکومت کو اس کی اوقات وقت بے وقت یاد دلاتے رہنا مقصود ہے؟ ایسے سوالات اٹھانے کے لئے یہ وقت موزوں نہیں جب کہ ملک نازک حالات سے مسلسل گزر رہا ہو۔ مگر کمال ہے یہ خطہ کہ جہاں جو بظاہر جتنا طاقتور ہے اتنا ہی کمزور ہے، جتنا مصروف ہے۔ اس سے کہیں فارغ ہے، جتنا بے بس ہے اس سے ہزار گنا بااختیار ہے۔ جتنا بظاہر نا اہل ہے۔ دراصل اتنا ہی اہل ہے اور جتنا دکھائی دیتا ہے اس سے سو گنا پردے میں چھپا ہے۔۔۔ پھر بھی نظام چل رہا ہے اور خوب چل رہا ہے۔۔۔اصولِ پرواز ( ایرو ڈائنامکس ) کی تعریف کے مطابق بطخ یا مرغی کی طرح مکھی کو بھی نہیں اڑنا چاہیے، کیونکہ مکھی کا وزن اس کے پروں کے حجم اور وزن سہارنے کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے۔ مگر صاحب مکھی اڑ رہی ہے اور کمال اڑ رہی ہے۔۔۔ تو یہ ہے خدا کی شان۔