پیپلز پارٹی دوبارہ ابھر سکتی ہے ؟

پیپلز پارٹی دوبارہ ابھر سکتی ہے ؟
 پیپلز پارٹی دوبارہ ابھر سکتی ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ اور وزراء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی محکمے میں کرپشن برداشت نہیں کریں گے ‘وزراء میرٹ پر کام کریں ‘امن و امان ‘صحت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ نوجوان چیئرمین پارٹی کی گرتی ساکھ کو بچانے کے لئے پوری طرح متحرک نظر آتے ہیں اگرچہ ان کو درپیش چیلنجزبڑے سخت ہیں۔


کیا27سالہ بلاول بھٹو زرداری تحلیل ہوتی پارٹی کو سمیٹ سکیں گے ؟کیاسیاسی شہادتوں کی تاریخ رکھنے والی 49سالہ پارٹی کی کہانی ختم ہونے کو ہے ؟ گزشتہ چار دہائیوں میں ملک کی مقبول اورسب سے بڑی پارٹی رہنے والی پارٹی کی کشتی ڈوب رہی ہے ۔کیا وہ ایک علاقائی جماعت بن کر رہ جائے گی ؟قومی جماعت اور قومی قیادت بڑی مشکل سے بنتی ہے ‘یہ کسی بھی ملک کے اتحاد کا ایک مظہر اور اثاثہ ہوتی ہے ‘اس کا کمزوریا تحلیل ہوناقومی نقصان کے مترادف ہے۔


کہنے والے کہتے ہیں کہ پارٹی کی روح بے نظیر کی روح کے ساتھ ہی پرواز کرگئی تھی‘ اقتدارکے ایوانوں کی بلند فصیلوں کے اندرتوپارٹی کا لاشہ پڑا رہا‘جس پر مجاور اپنی سیاست کرتے رہے ۔مفاہمت کے نام پر پاور پالیٹکس کا کھیل جاری رہا ۔کرپشن کی ان گنت داستانیں میڈیا کا مصالحہ بنتی رہیں ‘ نااہل تقرریوں کی شہ سرخیاں لگتی رہیں ‘پارٹی کارکن شکائتیں اور گلے کرتے رہے مگر کوئی سننے والا نہیں تھا ‘پارٹی کی ایک کال پر سڑکوں پر نکلنے اور زندہ ہے بھٹو زندہ کے نعرے لگانے والے خاموش ہوتے گئے ‘ناراض اورمایوس ہوکر گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے مگرکوئی منانے نہ آیا ۔اربوں روپے کی کرپشن کہانیاں سنتے اور اپنی کسمپرسی کو دیکھتے مگر دیکھتے رہے۔


پیپلز پارٹی کی تین قوتیں تھیں :کرشماتی لیڈر‘اس کے پر جوش کارکن‘لبرل منشور اورجذباتی نعرے۔ذوالفقار علی بھٹوکرشماتی اور مقناطیسی شخصیت کے رہنما تھے‘انتہائی ذہین اور باکمال مقرر ۔بھٹو کی کے ساتھ کارکنوں کا ایک والہانہ رومانس تھا ‘یہ رومانس بے نظیر کے ساتھ بھی جاری رہا۔ بے نظیر بھٹونے پارٹی ہی نہیں کئی خوبیاں بھی والد سے ورثہ میں لیں۔دونوں اپنے کارکنوں کے دلوں میں دھڑکتے تھے ‘ کارکن قیادت کو دیکھتے تو ان میں بجلی سی دوڑ جاتی‘ہر جیالا سراپا بھٹو بن جاتا ۔آصف زرداری مگر پیشروؤں سے مختلف تھے اور کارکنوں کے لئے اجنبی ۔وہ قربان ہوجانے والے رہنماؤں کے برعکس کسی کتابی فکر یاجذباتی نعرے کے تکلف میں نہیں پڑے بلکہ سیدھے سادے انداز میں سیاسی مفاہمت کونظریہ ٹھہرایا اورپورے پانچ سال مزے سے حکومت کی ۔لیکن ان کی مفاہمت بھٹو کی پارٹی اور اس کے کارکنوں کی امنگوں کواندر ہی اندرچاٹ گئی۔پتہ اس وقت چلاجب الیکشن کی آندھی میں بڑے بڑے برج منہ کے بل جاگرے ۔دہائیوں سے پارٹی سے جڑے جیالے بکھر گئے ‘ الیکشن لڑنے کے خواہشمند وں نے دوسری پارٹیوں کے پرچم اٹھا لئے ‘باقی جو بچا وہ بلاول کا نصیب! بلاول کے پاس کیاہے؟کیا اس کے پاس سیاسی دانائی ہے ‘سرد گرم حالات کاتجربہ ہے یا اس کی شخصیت میں وہ کرشماتی گُن ہیں جو اس کی ماں اور نانا میں تھے؟ بچے کھچے جیالوں کو اب بھی امید ہے کہ بلاول میں نانا کی روح بیدار ہوگی ‘ماں کا خون جوش مارے گاننھیال کی دانش اور جرات بروئے کار آئے گی اور وہ پارٹی کوزندہ کرے گا۔عقیدت‘ حقائق اوردلیل سے بے نیاز ہوتی ہے ۔


پیپلزپارٹی کے اندر یہ بحث بڑی سنجیدگی سے چل رہی ہے کہ پارٹی کا احیاء کیسے ہو ؟ پارٹی میں کیسے جان ڈالی جائے ‘کون سا نعرہ ‘کون سا منشور عوام کو واپس کھینچ سکتا ہے ۔بھٹوز کی جانشین قیادت کی موجودگی میں 2013ء کے الیکشن میں پارٹی سکڑکر سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہو گئی ۔اب اس کے پاس سکھر سے ٹھٹھہ تک کا دیہی سندھ ہے ‘جو ملک کا پسماندہ ترین اور غریب ترین علاقہ ہے ‘جہاں وڈیروں اورافلاس کے ڈیرے ہیں‘ بھوک‘پسماندگی اور ناخواندگی کی ریل پیل ہے ‘کرپشن اور غربت کی بے پناہ کہانیاں۔پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی کی 130میں سے 71نشستیں حاصل کیں ساری کی ساری انہی علاقوں سے ۔خیبر پختونخوا میں گزشتہ الیکشن میں 99میں سے اٹھارہ نشستیں حاصل کیں لیکن اس بار صرف دو ۔پنجاب میں372کے ایوان میں سات اورپورے بلوچستان میں ایک بھی نہیں۔


عوام 2008ء تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان جھول رہے تھے ‘ان کے پاس تیسرا کوئی آپشن نہیں تھا‘ کوئی متبادل قیادت نہیں تھی۔انتخابی لہروں پر تیرتے ووٹرز پیپلز پارٹی سے ناراض ہوتے تو مسلم لیگ کی طرف بھاگتے وہاں سے مایوس ہوتے تو واپس پارٹی کی طرف پلٹ آتے ۔جنرل ضیاء الحق کے کوڑے کھا کر88ء میں پارٹی کو حکومت ملی مگر 90ء میں پارٹی کو شکست ہوگئی ‘93ء میں دوبارہ حکومت مل گئی ‘97ء میں پیپلز پارٹی صرف اٹھارہ نشستیں حاصل کرسکی مگر 2008ء میں سب سے بڑی پارٹی بن کر پارلیمنٹ میں جلوہ گر ہوئی ۔اب صورتحال مگر بد ل گئی ہے‘اب پیپلز پارٹی کوووٹ دینے والوں کو اور پنجاب کے دیہی حلقوں میں مسلم لیگ مخالف دھڑے کو تحریک انصاف کی صورت میں ایک متبادل مل گیا ہے ۔علاقوں کے بااثر سیاسی خاندان ایک ایک کرکے پارٹی چھوڑ گئے ‘جہلم کے چوہدری ‘ملتان کے قریشی‘فیصل آباد کے راجپوت‘منڈی بہاؤ الدین کے رائیکے دوسری پارٹیوں میں جا چکے ہیں۔ ہماری تقریباََتمام سیاسی پارٹیوں میں بادشاہی کلچر ہے : سربراہ سے اختلاف کرنے کامطلب پارٹی سے بغاوت سمجھا جاتا ہے ‘نیچے سے اوپر تک ہر کوئی خوشامد کرتا ہے ‘نذرانے پیش کرتا ہے اوردل کی مرادیں پاتا ہے ۔شریک چیئرمین نے سالہا سال تک پارٹی کو خون جگر دینے والوں ایک طرف ہٹا کر اپنے دوستوں کو اہمیت دی ‘پارٹی کی بجائے ذاتی تعلقات پر مہربان رہے ۔مگرجابر ڈکٹیٹر وں کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے کسی جیالے نے شریک چیئرمین سے نہیں کہا کہ پارٹی کا ٹائیٹینِک ڈوب رہا ہے۔


کیا پیپلز پارٹی دوبارہ ابھر کر بڑی پارٹی بن سکتی ہے ؟پارٹی کے پاس اب بھی بہت کچھ ہے: وہ ملک کی دوسری بڑی جماعت ہے‘پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر ان کا ہے‘سینٹ میں چیئر مین ان کا ہے ،حکمران جماعت بڑی قانون سازی کے لئے ان کی مرہون منت ہے ۔اور سب سے بڑھ کر ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں حکومت ہے جہاں وہ اپنے ویژن کے مطابق ترقی کا ماڈل بنا کر دکھا سکتے ہیں۔


اگر سندھ کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی میں بلاول کا اثراور رائے شامل ہے تو اس کا اظہار وہاں پالیسیوں اور کارکردگی میں بھی نظر آئے گا۔ بلاول اپنے نانا اور والدہ کی طرح آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرڈگری یافتہ ہیں۔وہ نوجوان ہیں اس لئے نوجوانوں کوزیادہ سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں‘ متوجہ کرسکتے ہیں۔وہ ان سے براہ راست انٹرایکشن اورمکالمہ کریں ‘ آج کے ایشوز اور ان کے حل اوراپنے ایجنڈے پر بات کریں ۔نئے چہرے سامنے لائیں‘نئے نعرے تخلیق کریں۔ والدہ کا لہجہ اپنانے کے بجائے نانا کا اندازاپنائیں توزیادہ بہتر ہوگا ‘بی بی کا لہجہ شائد جیالی خواتین کوان کی یاد دلائے‘ عام دیکھنے اور سننے والا اسے سنجیدہ نہیں لیتا۔اس وقت ملک بھر میں پارٹی کی جو تنظیم سازی ہورہی ہے ‘وہاں بھی میرٹ کی بالادستی ہو ‘جیالوں اور قربانیاں دینے والوں کو عزت کا مقام دیں ‘تو شائد وہ ایک بار پھر پہلی سی محبت دینے کو تیار ہوجائیں۔ نا راض کارکنوں کوکونے کھدروں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائیں اور سر آنکھوں پر بٹھائیں‘یہی آپ کو مسند اقتدار پر بٹھائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو یہ تاثر ‘تاثر کی حد تک ہی سہی ‘زائل کریں کہ اب بھی ان کے والد گرامی پارٹی چلاتے ہیں۔پارٹی ان کے ’احسانات ‘ کے بوجھ تلے پہلے ہی دب گئی ہے ۔سب سے اہم کام سندھ حکومت کی کارکردگی ہے ‘سندھ کو ترقی دے کر ہی وہ سابقہ دور کی بدترین کارکردگی کو عوام کے حافظے سے کھرچ سکتے ہیں اوردوسرے صوبوں کے ووٹرز کی توجہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ سندھ کے بڑے شہروں کراچی ‘حیدرآباد ‘سکھر‘لاڑکانہ میں ماڈل پراجیکٹس لاسکتے ہیں۔ بلاول کے والد نے ایک جیتی جاگتی توانا پارٹی ورثہ میں حاصل کی مگر اپنی نئی نسل کے لئے کٹی پھٹی جاں بہ لب پارٹی چھوڑی ‘پتہ نہیں ابھی چھوڑی بھی ہے کہ نہیں۔اگلے دوسال بلاول کی صلاحیتوں کا امتحان ہے : کیا وہ نانا اور ماما کے لہو سے سینچی پارٹی کو ماضی کی مقبولیت دلاسکیں گے یا پھروالداور پھوپھو کے سائے میں نشیب کی طرف سفر جاری رہے گا؟

مزید :

کالم -