ایک ڈاکو انصاف طلب ہے

ایک ڈاکو انصاف طلب ہے
ایک ڈاکو انصاف طلب ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ واقعہ 13جولائی کو ضلع فیصل آباد کے علاقے ڈجکوٹ میں پیش آیا۔ اس کی مختصر سی تفصیل ایک اخبارمیں چھپی تھی۔ اُس روز میں بھی اتفاق سے فیصل آباد ہی میں تھا۔میں اپنی متجسس طبیعت کی وجہ سے اِس دلچسپ واقعہ کی مکمل تفصیل جاننا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے خود ڈجکوٹ کے تھانے میں پہنچ کر وہاں کے ایس۔ایچ۔او سے ملاقات کی۔ وُہ مجھے اخباری بندہ سمجھ کر بڑی عزت سے پیش آیا۔ اُس کی زبانی مجھے جن حالات کا پتہ چلا ہے وُہ میں نے ایک ڈائیلاگ کی شکل میں لکھ دیے ہیں۔ یہ ڈائیلاگ ایک مظلوم ڈاکو اور ایس۔ایچ۔او کے درمیان ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
"سلاما لیکم جناب"
"ہاں۔ کون ہو تُم؟"
"جناب میرا نام شوکا ہے"
"پورا نام بتاؤ"
"شوکا ڈاکو جناب"
"تُم ڈاکو ہو؟ میرا مطلب ہے کیا آپ ڈاکو ہیں؟"
"جی سَر"
"آپ کھڑے کیوں ہیں؟ تشریف رکھیں"۔
(ڈاکو بیٹھ جاتا ہے)
"ہاں تو شوکا ڈاکو صاحب! میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟پہلے یہ بتائیں آپ گرم چائے پئیں گے یا ٹھنڈاشربت؟"
"مجھے ٹھنڈا گرم کچھ نہیں چاہئے۔ اِس وقت میں خود بہت گرم ہوں۔ اگر آپ میری مدد کرکے مجھے ٹھنڈا کردیں تو مہربانی ہوگی"۔
"فرمایئے فرمائیے۔ ہم یہاں آپ ہی جیسے لوگوں کی خدمت کے لئے بیٹھے ہیں"۔
"جانتا ہوں۔ آپ ہمیشہ ڈاکوؤں کی مدد کرتے ہیں۔ مجھے شکایت اپنے ساتھی ڈاکوؤں سے ہے"۔
"کیوں سَرجی؟ کِیا کیا ہے آپ کے ساتھی ڈاکوؤں نے آپ کے ساتھ؟"
"انہوں نے مجھ غریب کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ غضب خدا کا۔ خود ڈاکو ہو کر اپنے ڈاکو بھائی سے فراڈ۔ کیا آپ نے کبھی ایسی اندھیر نگری دیکھی ہے؟"
"جی نہیں۔ میں زندگی میں پہلی بار سن رہاہوں کہ ڈاکوؤں نے اپنے ڈاکو بھائی سے فراڈ کیا۔ یعنی اپنے پیٹی بھائی سے۔ آپ ہماری مثال لیں۔ اگر کوئی ہمارا پیٹی بھائی چاہے کتنے ہی سنگین جرم کا ارتکاب کرے، ہم اس کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دیتے۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک پیٹی بھائی نے ایک لڑکی کو اغوا کرلیا۔ اُس لڑکی کا والد، چچا اور بھائی شکایت لے کر تھانے آئے۔ میں نے اُنھیں ایک شریف آدمی پر تہمت لگانے کے جرم میں پکڑ کر اندر کردیا۔ وُہ اب بھی حوالات میں ہیں۔ آج صبح اُس لڑکی کا ماموں آیا تھا۔ کہنے لگا "ہماری لڑکی گئی جہنم میں۔ آپ براہِ مہربانی ہمارے بندوں کو چھوڑ دیں"۔
"تو چھوڑ دیں نہ آپ اُنھیں"۔ ڈاکو نے سفارش کی۔
"کیسے چھوڑ دوں۱ جب تک وُہ حوالات کا کرایہ اور کھانے کا بِل نہ ادا کریں۔ میں اُنھیں کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ اگر میں نے اُن سے واجبات وصول کئے بغیر چھوڑ دیا توایس پی صاحب مجھے معطل کردیں گے۔ "
"بہت خوب تھانیدار صاحب، بہت خوب۔ تھانے کا تھانہ، ہوٹل کا ہوٹل۔ آپ تو ہم ڈاکوؤں سے بھی آگے نکل گئے ۔"
"آپ کی ذرہ نوازی ہے جناب۔ ہم تو ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بہرحال چھوڑیں اِس بات کو۔ آپ اپنی بات کریں ۔کیا فراڈ کیا ہے آپ کے پیٹی بھائیوں نے آپ کے ساتھ؟"
"فراڈ سا فراڈ۔ آپ تفصیل سنیں گے تودنگ رہ جائیں گے۔"
"میں تو تفصیل سُنے بغیر ہی دنگ رہ گیا ہوں۔ خیر، آپ فرمائیں ہوا کیا؟"
"ہوا یہ کہ13جولائی کی رات کو ہم تلاشِ روزگار کے سلسلے میں سمندری روڈ پر ناکہ لگا کر بیٹھ گئے۔ ہمارا ناکہ آپ کے ناکے سے ذرا مختلف ہوتا ہے۔ آپ کا ناکہ تو دُور سے نظر آجاتا ہے جسے دیکھتے ہی جرائم پیشہ لوگ ادھر اُدھر ہوجاتے ہیں لیکن عام شہری انجانے میں پھنس جاتے ہیں۔ ہمارے ناکے کا کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ ہم کہیں آس پاس چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جونہی کوئی ہمارا ہونے والا شکار وہاں سے گزرنے لگتا ہے ہم آناًفاناً بڑھ کر اُسے قابو کرلیتے ہیں۔ ویسے آپ میں اور ہم میں ایک بات مشترک ہے۔جرائم پیشہ لوگوں کو ٓاپ کچھ کہتے ہیں نہ ہم۔ دونوں کے ہتھّے عام لوگ ہی چڑھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا اور آپ کا طریقہ واردات تقریباً ایک جیسا ہے۔ "
"آپ نے ہمیں اپنے ساتھ ملا کر ہمارا رُتبہ نہایت بلند کردیا ہے۔ میں کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کروں؟"
"آپ کے کتنے منہ ہیں؟"
"ہی ہی ہی۔ آپ مذاق بہت خوب کرلیتے ہیں۔ اچھا تو یہ بتائیے آپ کے ڈاکو بھائیوں نے آپ کے ساتھ کیا فراڈ کیا؟"
"جی میں عرض کرتا ہوں۔ اُس روز سمندری روڈ والے ناکے سے ہمیں یہ آمدنی ہوئی: بائیس ہزار روپے نقد۔دو طلائی کانٹے اور ایک انگوٹھی۔ تین کلو دیسی گھی۔ ایک موٹر سائیکل۔ پانچ موبائل فون۔ ایک آئی فون۔ ایک پتلون"۔
"پتلون؟ وُہ کیسے؟"
"ریڈی میڈ پتلون تھی جی، زیرومیٹر۔ ایک لڑکے نے موٹرسائیکل کے ساتھ لٹکا رکھی تھی"۔
"ٹھیک ہے۔ پھر کیا ہوا؟"
"پھر یہ ہوا کہ جب مالِ غنیمت تقسیم کرنے کا وقت آیا تو ان کے دل میں بے ایمانی آگئی اور انہوں نے میرا جائز حصہ یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا کہ تم نے تو آپریشن کے دوران کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ بس ایک طرف بیٹھے سگریٹ پیتے رہے تھے۔حالانکہ میں آپریشن کی نگرانی کررہا تھا۔ میں نے اپنا حصہ لینے پر اصرار کیا تو انہوں نے مجھے دھکے مار کر بھگا دیا۔ آپ سے گزارش ہے کہ میرے ساتھیوں کو گرفتار کرکے ان سے میرا حق دلوائیں "۔
"دیکھیں شوکا صاحب۔ ہم ڈاکو حضرات کے خلاف کارروائی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ڈی آئی جی صاحب کے زبانی آرڈرز ہیں کہ کسی ڈاکو کے خلاف قطعاً کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ آپ لوگ آپس میں کوئی تصفیہ کرلیں۔ ہمارے لیے آپ اور وہ برابر ہیں "۔
"مطلب یہ کہ آپ مجھے انصاف نہیں دلا سکتے؟"
"معافی چاہتا ہوں۔ میں مجبور ہوں"۔
"لگتا ہے مجھے مجبور اً ’’نیب‘‘ میں شکایت کرنی پڑے گی "۔
(یہ سن کر ایس ایچ او صاحب نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا)
"آپ سے کس بے وقوف نے کہہ دیا کہ نیب ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔نیب تو ڈاکوؤں کا ہم سے بھی زیادہ خیال کرتا ہے"۔

مزید :

کالم -