امریکن ملٹری میں جنسی بے راہ روی!
کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں ہر چیز جائزہوتی ہے۔ لیکن یہ مقولہ انگریزی زبان کا ہے۔ مجھے عربی، فارسی یا اردو کا کوئی ایسا مقولہ یاد نہیں جس میں اس طرح کے ’’جواز‘‘ کا ذکر ہو۔ اسلامی افواج میں محبت کے نام پر جنسی بے راہ روی کا تناسب نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ لیکن اس کی ایک وجہ شائد یہ بھی ہو کہ ماضی میں اسلامی لشکروں میں خواتین کا ایک نہایت محدود سا رول ہوتا تھا۔ یہ رول صرف زخمیوں کی مرہم پٹی تک محدود رہا۔ آج بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ پاکستان آرمی میں خواتین کا کمبٹ (لڑاکا) رول آج بھی برائے نام ہے۔ پاک فضائیہ میں اگر کوئی کمبٹ رول ہے بھی تو زیادہ سے زیادہ فائٹر پائلٹوں تک محدود ہے۔ اس رول میں مرد اور عورت کا انٹرایکشن تدریس اور ٹریننگ کے شعبوں ہی تک پھیلا ہوتا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے پاک بحریہ اور پاک آرمی میں خواتین کے کسی لڑاکا رول کا کوئی ایسا پروگرام زیرِ غور نہیں جیسا کہ دنیا کی ماڈرن افواج میں ہے۔
عصر حاضر میں سب سے زیادہ آزادی ء نسواں اور مرد و زن کی مساوات کا شہرہ امریکی معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ امریکہ کی چاروں افواج (آرمی، نیوی، ائر فورس، میرین) میں حال ہی میں امریکی وزیر دفاع نے ہر شعبے میں تذکیر و تانیت کا امتیاز ختم کروا دیا ہے۔ امریکی خواتین آج فور سٹار جنرل کے عہدے پر فائز کی جا رہی ہیں۔ آرمی میں انفنٹری کا شعبہ (Arm) سب سے زیادہ مشقت آزما شعبہ سمجھا جاتا ہے جس میں خواتین کی نمائندگی ایک عرصے تک بند رہی۔لیکن آج امریکن آرمی میں سپیشل فورسز اور رینجرز تک کے شعبوں میں کہ جو سولجرز کی جسمانی توانائیوں کو آخری حدوں تک کھینچ لے جانے کے متقاضی شعبے ہیں، خواتین کو مساوی مقابلے کی صلائے عام دی جا رہی ہے۔ میں دیکھتا اور پڑھتا رہتا ہوں کہ خواتین کو ان شعبوں میں انتہائی سخت جسمانی اور ذہنی ٹریننگ سے گزارا جاتا ہے اور ان میں سے بعض خواتین اس میں سرخرو بھی ہو جاتی ہیں۔ ان کی سرخروئی اگرچہ مردوں کے مقابلے میں نہایت ہی کم تعداد میں ہوتی ہے لیکن ہوتی ضرور ہے۔ نہ صرف آرمی بلکہ دوسری سروسز میں بھی امریکہ میں تین اور چار ستاروں والی خواتین آفیسرز پائی جانے لگی ہیں اور ان کو باقاعدہ کمانڈ مناصب پر بھی فائز کیا جا رہا ہے۔۔۔ ذرا تصور کیجئے اگر کوئی خاتون کسی سٹرائیک کور کی کور کمانڈر بنا دی جائے یا اسے کسی آرمی کی کمانڈ دے دی جائے تو کس قسم کی ’’دفاعی صورتِ حال‘‘ جنم لے گی! لیکن امریکی کوروں (Corps) اور آرمیز (Armies) میں کمانڈ عہدوں پر آج خواتین باقاعدگی سے پوسٹ کی جاتی ہیں اور وہ اپنا پیشہ ورانہ کردار بظاہر بڑی تن دہی سے انجام دے رہی ہیں۔ البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ’’تن دہی‘‘ میں اس لفظ کے لغوی معانی کا مظاہرہ بھی عام دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ جوں جوں افواج کو کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے اور اس کی ہائر کمانڈز، فیلڈ ڈیوٹیز سے دور ہو رہی ہیں توں توں ’’تن دہی‘‘ کی روش زیادہ ’’قبولِ عام‘‘ پا رہی ہے۔
پاک فوج میں تین طرح کے عہدے (رینکس) پائے جاتے ہیں۔ یعنی کمیشنڈ، جونیئر کمیشنڈ اور نان کمیشنڈ رینکس۔ لیکن امریکی آرمی میں صرف دو رینکس ہیں۔ ایک کو نان کمیشنڈ کہا جاتا ہے جس میں سپاہی (پرائیویٹ) سے حوالدار (سارجنٹ) تک کے رینکس شامل ہیں جبکہ کمیشنڈ رینک میں سیکنڈ لیفٹیننٹ سے فورسٹار جنرل تک کے رینک ہیں۔ امریکن آرمی میں فیلڈ مارشل کا رینک نہیں ہوتا۔اس کی جگہ جنرل آف دی آرمی، جنرل آف دی ائر فورس اور جنرل آف دی نیوی کو فیلڈ مارشل کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ امریکی فوج کے یہ تمام نان کمیشنڈ اور کمیشنڈ رینک برابری کی بنیاد پر خواتین کو بھی دیئے جاتے ہیں۔ امریکی افواج میں ان دونوں سطوح کے رینکس میں ہزاروں خواتین آج برسرِ ملازمت ہیں۔ لیکن امریکی (یا یورپی) معاشروں میں زن و شو کی جو بے لگام میل ملاقات ایک معمول ہے اس کے بے لگام اثرات، افواج میں بھی جابجا ملتے ہیں۔ امریکہ ماضی قریب میں گزشتہ صدی کے نصف آخر میں کوریا ویت نام اور عراق اور اکیسویں صدی میں افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کی جنگوں میں ایک غالب فریق کی حیثیت سے شریک ہوتا رہا ہے۔ اگرچہ کولیشن فورسز میں امریکہ کے علاوہ ناٹو کے دوسرے 27ممالک کے ٹروپس بھی شامل ہوتے ہیں لیکن ان کی تعداد کا تناسب امریکہ کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر رہا ہے۔ گزشتہ 15،16 برسوں میں جو امریکی افواج سمندر پار جا کر لڑتی رہی ہیں، ان کو دو قسم کے سوشل مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکی معاشرے میں خاندانی اور سماجی اقدار کے وہ بندھن موجود نہیں جو ایشیائی یا افریقی معاشروں میں ہیں۔
پہلا سوشل چیلنج جو سمندر پار امریکی افواج کے افسروں اور جوانوں کو پیش آتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگرکوئی سولجر جو بے شک شادی شدہ ہو، بال بچے دار ہو یا کنوارہ ہو تو اس کی بیوی یا گرل فرینڈ زیادہ سے زیادہ ایک آدھ ماہ تک ’’صبر‘‘ کرتی ہے اور اس کے بعد اس کو عموماً مستقل داغِ جدائی دے جاتی ہے۔ میدان کارزار میں شریک سولجر دو ماہ کے بعد جب گھر فون کرتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی یا گرل فرینڈ کسی اور خاوند یا بوائے فرینڈ کے ساتھ ’’مصروفِ کاروبارِ حیات‘‘ ہے۔ شادی شدہ امریکی بیویاں، فوج میں چلے جانے والوں شوہروں کو فون پر جواب دیتی ہیں : ’’میں نے طلاق کے کاغذات تمہیں بھیج دیئے ہیں۔ وہ جلد ہی تمہیں مل جائیں گے۔ میں اب کسی نئے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہوں۔۔۔ گڈلک!‘‘ ۔۔۔ اور گرل فرینڈز تو صرف دو ہفتوں کے بعد ہی ’’بے صبری‘‘ ہو جاتی ہیں۔ محاذِ جنگ پر لڑنے والے سولجر کو جب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کا ساتھی اس کو چھوڑ کر کسی اور کا ہو گیا ہے تو اس کو کچھ دنوں تک تو ضرور افسوس ہوتا ہے لیکن جب اس کی پلاٹون/ سکواڈ یا رجمنٹ کے باقی ساتھیوں کا حالِ زار بھی یہی ہو تو پھر ’’مرگِ انبوہ جشنے دارد‘‘ والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ کشتی میں سوار اگر سارے مسافر ایک ہی محرومی کا شکار ہو جائیں تو پھر بھی کشتی رکتی نہیں ،چلتی رہتی ہے۔
دوسرا سوشل چیلنج اُن وردی پوش مردوں اور عورتوں کو درپیش ہے جو پروفیشنل تقاضوں کے سبب آزادانہ اختلاط پر مجبور ہیں۔ کہنے کو تو امریکی مسلح افواج میں سخت ضابطۂ اخلاق نافذ ہے۔ یعنی کوئی عورت کسی وردی پوش مرد پر ڈورے نہیں ڈال سکتی لیکن اس کے باوجود روز و شب ڈورے ڈالے جاتے ہیں اور ایک بڑی اکثریت ’’پکڑائی‘‘ نہیں دیتی۔ ہاں اگر ایک فریق ڈورے ڈالنے پر کچھ زیادہ ہی اتر آئے اور دوسرا رسپانڈ نہ کرے تو فریق اول کو وحشت ستانے لگتی ہے۔ بسا اوقات معاملہ اتنا طول کھینچ جاتا ہے کہ یونٹ/ فارمیشن کی ساری ’’خدائی‘‘ کو خبر ہو جاتی ہے۔ معاملہ معروف کمانڈ چینلوں سے ہوتا ہوا، سینئر کمانڈ تک چلا جاتا ہے اور قصور وار کے خلاف انکوائری شروع ہو جاتی ہے۔ بیشتر انکوائریاں مرد سولجرز کے خلاف آرڈر کی جاتی ہیں اور ان کی تکمیل کے بعد اس مجرم کو حسبِ ضابطہ سزا یا سزائیں دی جاتی ہیں۔ کم سے کم سزا یہ ہے کہ اس کو فوج سے نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر جرم کی نوعیت شدید ہو تو اس کو متعدد (Multiple) سزائیں دی جاتی ہیں۔ مثلاً قید، جرمانہ، رینک میں تنزلی، پنشن کی ضبطی اور فوج سے سبکدوشی وغیرہ۔
چاروں امریکی مسلح افواج میں ہر ماہ ان انکوائریوں اور کورٹ مارشلوں کی ایک فہرست پینٹاگون کی طرف سے جاری کی جاتی ہے جس میں سینئر افسروں کو سزائیں دینے اور ان کے جرائم کی نوعیت کا احوال درج ہوتا ہے۔ نچلے رینکس کے لئے با اختیار اتھارٹی مثلاً آرمی / کور/ ڈویژن / بریگیڈ کمانڈرز کی طرف سے سزاؤں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ میں ایک عرصے سے پڑھ رہا ہوں کہ امریکی مسلح افواج کی چاروں سروسوں میں ہر سروس ہر ماہ کے اوائل میں گزشتہ ماہ میں فیصلہ ہونے والی انکوائریوں اور کورٹ مارشلوں کے فیصلے جاری کرتی ہے جن کو باقاعدہ سروسز گزٹ میں شائع کیا جاتا ہے۔ نان کمیشنڈ افسروں اور کمیشنڈ افسروں کی ایک بڑی تعداد ہر ماہ ’’انواع و اقسام‘‘ کے تازہ ترین جنسی سکینڈلوں کا شکار ہو کر اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود سالہا سال سے ان انکوائریوں کی تعداد میں کمی نہیں آ رہی بلکہ بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جو اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ نہ صرف امریکہ کے سویلین معاشرے میں اخلاقی جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے بلکہ ملٹری سروسز میں بھی ویسا ہی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس پر ملٹری کے بہت سے تھنک ٹینکوں نے تبصرے کئے ، مقالے لکھے ، سفارشات اور تجاویز سے ہائر ملٹری کمانڈز کو مطلع کیا ۔۔۔ لیکن:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اگرچہ کیوپڈ کی تیر اندازی کبھی رکتی نہیں لیکن مسلح افواج میں ان تیروں کا استعمال کچھ زیادہ ہی تواتر سے جاری رہتا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس ضمن میں عمر، جنس اور سٹیٹس کی کوئی قید نہیں۔ مسلم افواج کے کمانڈروں میں بھی اس تیر باری کی اَن گنت مثالیں پائی جاتی ہیں، اس لئے امریکی افواج کو اس ذیل میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں!لیکن جہاں مسلم کمانڈروں نے دل کے آ جانے کو عموماً ’’مشرف بہ نکاح‘‘ کر کے اس ’’دراز دستی‘‘ کو جواز عطا کر دیا وہاں غیر مسلم کمانڈروں نے اس جواز کو کبھی بھی قابل اعتنا نہیں گردانا۔ اور یہی فرق ہے جو مسلم اور غیر مسلم افواج میں پایا جاتا ہے۔اصطلاح میں اس ’’تیر اندازی‘‘ کو ’’ماورائے شادی (Extra-marital) حرکت کا نام دیا جاتا ہے اور اس قسم کے روابط کی اجازت کسی بھی فوج کو نہیں دی جاتی ۔
جنرل ڈیوڈ پیٹراس (David Petraeus) کا ’’ماورائے شادی‘‘ سکینڈل تو ابھی کل کی بات ہے۔ امریکی فوج کا یہ چار ستاروں والا جنرل، امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کا کمانڈر رہا، افغانستان میں ایساف کا سربراہ رہا اور پھر CIA کا ڈائریکٹر پوسٹ کیا گیا۔ اس عہدے پر فائز تھا کہ بی بی پالا براڈویل (Paula Broadwell) کے تیرِ نظر کا شکار ہو گیا۔ وہ بھی ایک سابق آرمی آفیسر تھیں، آرمی آفیسر کی اہلیہ تھیں، جرنلسٹ تھیں، مصنفہ تھیں اور دو بچوں کی والدہ محترمہ بھی تھیں۔ اُن کو جنرل پیٹراس کی سوانح لکھنے پر مامور کیا گیا۔ بس اسی دوران، جنرل کی روئیدادِ حیات لکھتے لکھتے انہوں نے اپنی کتابِ حیات کا ورق بھی پھاڑ ڈالا! ایف بی آئی (FBI) نے تحقیقات کیں تو جنرل صاحب کو استعفٰے دینا پڑا۔۔۔ جنرل کی عمرِ عزیز اس وقت ماشاء اللہ 60 سال اور پالا کی نامِ خدا 40 برس تھی!
ابھی چھ سات روز پہلے ایک امریکی سینئر آفیسر، جنرل ڈیوڈ ہائٹ (David Haight) کو بھی ایک اہم کمانڈ سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ موصوف یورپ میں امریکی کمانڈ کے انچارج آپریشنز تھے اور روس کے خلاف صف آرا ناٹو فورسز کے آپریشنل کمانڈر تھے۔ تاہم ان کا یہ جنسی سکینڈل اتنا واشگاف تھا کہ ان کو اقرارِ جرم کے سوا چارہ نہ رہا۔ ان کو ڈیموٹ کر کے فوج سے ریٹائرڈ کر دیا گیا۔ اس تنزلی کی وجہ سے ان کو لاکھوں ڈالر کا نقصان بھی اٹھانا پڑا لیکن سب سے بڑا نقصان بدنامی، رسوائی اور جگ ہنسائی تھی۔۔۔ تاہم اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں!
اسی طرح وزیر دفاع آش کارٹر کے سینئر ملٹری ایڈوائزر، لیفٹیننٹ جنرل لیوس (Lewis) کو بھی گزشتہ دنوں ڈیموٹ کر دیا گیا۔ ان پر بھی اخلاقی بے راہروی اور ’’ماورائے شادی‘‘ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق بڑے تسلسل سے 2011ء کے بعد سینئر ملٹری افسروں کو جنسی سکینڈلوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں سزائیں دی جا چکی ہیں۔
امریکہ کے بعض تھنک ٹینکوں نے ایک رپورٹ میں جنگ عظیم دوم کے بعد امریکن ملٹری میں اخلاقی انحطاط کے بڑھتے ہوئے گراف پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان اور عراق وغیرہ کی حالیہ جنگوں میں امریکی ناکامیوں کا ایک بڑا سبب سینئر اور جونیئر ملٹری قیادت اور نیز نچلے رینکس میں جنسی بے راہ روی کی اس لت کا ایک متعدی مرض کی طرح پھیلنا بھی بتایا جا رہا ہے۔ وگرنہ دنیا کی واحد سپر پاور کی افواج کا کوریا، ویت نام، افغانستان، عراق اور شام کی جنگوں میں ناکام ہو کر پیٹھ دکھانا ایک ایسا معمہ تھا جو عسکری تاریخ کے بیشتر مورخوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔۔۔ان دانشوروں کو اب جا کر وہ بات معلوم ہوئی ہے جس کی نشاندہی بہت پہلے حضرتِ اقبال نے یہ کہہ کر کر دی تھی!
حُسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم
اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی
امریکی وزارت دفاع میں سینئر افسروں کا ایک بڑا طبقہ اب ان آزادیوں کو واپس لینے کے بارے میں سوچ رہا ہے جو امریکی افواج میں عورتوں کو مساوی نمائندگی اور مساوی حقوق و مراعات دینے کی شکل میں پیش کی جاتی رہی ہیں!۔۔۔ لیکن یہ شراب ایسی ہے کہ ایک دفعہ منہ کو لگ جائے تو کافر،چھٹتی نہیں!