مراد شہباز نہیں اور شہباز مراد نہیں لیکن مقابلہ ہے ؟
مراد علی شاہ شہباز شریف نہیں ہیں اور شہباز شریف مراد علی شاہ نہیں ہیں۔ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی پہچان ہے۔ دونوں کاتعلق الگ الگ سیاسی جماعتوں سے ہے۔ دونوں اپنی اپنی سیاسی قیادت کے پسندیدہ ہیں۔ دونوں اپنی اپنی سیاسی قیادت کے وفادار ہیں۔
اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ سید قائم علی شاہ اب عمر کے اس حصہ میں پہنچ چکے تھے کہ وہ اب پلیئر نہیں کوچ ہو سکتے تھے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ قائم علی شاہ نے اپنی ریٹائرمنٹ میں غیر ضروری تاخیر کر دی۔ جس نے بہر حال قائم علی شاہ اور ان کی جماعت کی سیاسی ساکھ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ قائم علی شاہ کی تبدیلی میں پیپلزپارٹی نے غیر ضروری تاخیر کی۔ اس حوالہ سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جس جس طرح مرادہ علی شاہ اپنی کارکردگی سے اپنے آپ کو بہترین چوائس ثابت کرتے جائیں گے اس اس طرح قائم علی شاہ کی ساکھ خراب ہوتی جائے گی۔
مراد علی شاہ نے یہ واضح کیا ہے کہ کام پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں تک وقت پر دفتر آنے کی بات ہے تو اس میں تو انہوں نے میاں شہباز شریف کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ میاں شہباز شریف نے کام کرنے کے حوالے سے اپنی پہچان پیدا کی ہے لیکن ان کا بر وقت دفتر آنے کے حوالے سے کوئی ریکارڈ نہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میاں شہباز شریف نے اپنے گھر کو ہی اپنا دفتر بنایا ہوا ہے اور وہ صبح صبح گھر پر ہی کام شروع کر دیتے ہیں اور مراد علی شاہ دفتر آکر اپنا کام شروع کرتے ہیں۔ ایک تجزیہ تو یہ بھی ہے کہ شاید مراد علی شاہ کو سندھ کی وزارت اعلیٰ کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی پیپلزپارٹی کو انہیں وزیر اعلیٰ بنانے کی ضرورت تھی۔ پیپلزپا ر ٹی ا پنی بیڈ گورننس کی وجہ سے پہلے ہی پنجاب اور دوسرے صوبوں میں کمزور ہو چکی ہے اور اب سندھ ان کا آخری قلعہ تھا۔ جس کی حفاظت بہر حال ان کے لئے ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ان کا موازنہ میاں شہباز شریف سے نہ کیا جائے ۔ گزشتہ روز کرکٹ کے لِٹل ماسٹر حنیف محمد کی بیماری پر ان کے بیٹے شعیب محمد کو فون کر کے ان کے والد کے علاج میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ لیکن میاں شہباز شریف کے اس فون کے اگلے ہی دن مراد علی شاہ لٹل ماسٹر حنیف محمد کی عیادت کے لئے پہنچ گئے اور انہوں نے فوراً دس لاکھ روپے کا چیک ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس طرح مراد علی شاہ کہیں نہ کہیں میاں شہباز شریف کے ساتھ موازنہ بھی کر رہے ہیں اور مقابلہ بھی کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں اگر مراد علی شاہ اور میاں شہبازشر یف کے درمیان گڈ گورننس کا مقابلہ ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں بلکہ خوش آئند ہے۔ اس مقابلہ کی حوصلہ افزئی کرنی چاہئے۔ اگر فریقین اس مقابلہ سے انکار بھی کریں تب بھی اس مقابلہ کو قائم رکھنے ہی میں عوامی مفاد ہے۔ ملک کی جمہوریت کا مفاد ہے۔ اس لئے ایسے مقابلے ملک کو آگے لیکر جائیں گے۔
مرا د علی شاہ اگر سند ھ میں ادارے ٹھیک کرتے ہیں۔ عوام کی فلاح کے منصوبوں پر کام کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں وقت پر دفتر آنے کا کلچر پیدا کرتے ہیں تو اس کا براہ راست فائدہ پنجاب کو ہو گا۔ پنجاب کے عوام بھی اپنے وزیر اعلیٰ سے سوال کریں گے کہ وہ پنجاب میں سرکاری دفاتر میں وقت پر دفتر آنے کا کلچر کیوں نہیں پیدا کرتے۔ اگر مراد علی شاہ روز سیکرٹریٹ میں اپنے دفتر میں آکر کام کرتے ہیں۔تو لوگ میاں شہباز شریف سے بھی توقع رکھیں گے کہ وہ بھی سیکرٹریٹ میں اپنے دفتر میں کام کریں۔ دوسری طرف جس طرح میاں شہباز شریف نے پنجاب میں آجکل سرکاری ہسپتالوں کے دورہ شروع کئے ہیں، جن کے نتیجے میں پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ یہ دباؤ مراد علی شاہ پر بھی ہو گا کہ وہ بھی اپنے صوبے میں سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولتیں بہتر کریں۔ اسی طرح پنجاب کے سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، جو پنجاب کے سرکاری سکولوں پر عوام کا بڑھتا ہوا اعتماد ہے۔ اس کے مقابلے میں مرادعلی شاہ پر بھی دباؤ ہو گا کہ وہ سندھ کے سرکاری سکولوں کی حالت بہتر کریں۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ میاں شہباز شریف نے اپنے کام کرنے کے حوالہ سے ساکھ کئی سال کی مسلسل محنت سے بنائی ہے اور مراد علی شاہ کو تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے ہیں۔ اس لئے کئی سال کی مسلسل محنت اور ایک دن کی کارکردگی کا موازنہ درست نہیں ۔ تا ہم جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں یہ موازنہ جاری رکھنا چاہئے۔
مرا دعلی شاہ پیپلزپارٹی کے لئے امید کی کرن ہیں۔ پیپلزپارٹی امید کر سکتی ہے کہ وہ ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دیں گے۔ کیا مراد علی شاہ کوئی ایسے بڑے منصوبے شروع کر سکیں گے جو پیپلزپارٹی کی سندھ میں تبدیلی کا باعث بن سکیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مرا دعلی شاہ دبئی سے ہدایات لیتے ہیں تویہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن اگر مراد علی شاہ کی روز مرہ کی کارکردگی بہتر ہے تو دبئی سے ہدایات والا الزام بھی ختم ہو جائے گا۔
جس طرح مرا دعلی شاہ اور میاں شہباز شریف کے درمیان ایک مقابلہ اور موازنہ شروع ہو گیا ہے ۔ پرویز خٹک کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ بھی اس مقابلے میں شامل ہوں۔ کیونکہ اب تک پرویز خٹک بھی یہ کہتے رہے ہیں وہ شہباز شریف نہیں ہیں۔ شاید ثناء اللہ زہری تو میاں شہباز شریف کے خوف میں ہی ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا موازنہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔