آزادی کشمیر کی واہگہ تک نکالی جانیوالی ریلی مناواں میں کیو روک لی گئی ؟
-
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ حکمران کشمیری شہداء سے غداری کر رہے ہیں۔ کشمیر کی آزادی معاشی، قومیت یا علاقائیت کا مسئلہ نہیں بلکہ نظریاتی جنگ ہے۔ وہ مناواں میں آزادئ کشمیر ریلی کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے۔ اس ریلی نے ویسے تو واہگہ کی سرحد تک جانا تھا لیکن مناواں میں ہی رک گئی، مناواں سرحد سے کافی ارے ہے بلکہ بی آر بی سے بھی لگ بھگ تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، ویسے یہ ریلی بی آر بی کا پل پار کرکے جلو تک بھی چلی جاتی تو مضائقہ نہ تھا سرحد جلو سے بھی کافی دور ہے، لیکن جدید سیاسی لغت میں بعض الفاظ کے مفاہیم بدل گئے ہیں۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ناصر باغ سے شروع ہونے والی آزادئ کشمیر ریلی واہگہ سرحد تک گئی۔ ایک ٹرم ’’ملین مارچ‘‘ بھی ہماری سیاست میں در آئی ہے، بنیادی طور پر تو یہ اصطلاح امریکہ سے چلی تھی اور اس سے مراد وہ اجتماع تھا جس میں دس لاکھ لوگ شریک ہوں لیکن آپ جانتے ہیں کہ اتنے لوگوں کو جمع کرنا آسان کام نہیں ہے، اس لئے یار لوگوں نے دس بارہ ہزار کے اجتماع کو بھی ملین مارچ کے نام سے یاد کرنا شروع کردیا۔ ویسے تو یہ ہر کسی کا حق ہے کہ وہ اپنے اجتماعات کی حاضری کو جتنا چاہے بڑھا چڑھا کر پیش کردے، لیکن جب اخبار میں ایسی سرخی بنتی ہے ’’لندن کے ملین مارچ میں دس ہزار افراد شریک ہوئے‘‘ تو اس کی معنویت اور بھی بڑھ جاتی ہے دس ہزار کا وزن اگر دس لاکھ کے مساوی ہو جائے تو کیا حرج ہے۔ لندن اور نیویارک میں ہم نے ان گناہگار آنکھوں سے اکلوتے کتبہ بردار دیکھے ہیں جو اپنے کسی مطالبے کے حق میں کتبہ اٹھائے ایک شان بے نیازی کے ساتھ سڑک کے ایک جانب ہوکر چل رہے ہوتے ہیں۔ کوئی ٹریفک جام نہ لاٹھی چارج، کوئی ٹائر بھی نہیں جلایا جاتا، زندہ باد مردہ باد بھی کچھ نہیں، بس ایک کتبہ اور تنہا انسان، اس کی آواز بھی سنی جاتی ہے، ایسے میں اگر دس بیس ہزار لوگ ایک جگہ جمع ہوکر پورے شہر کی ٹریفک جام کردیں اور گھنٹوں جام رکھیں تو اس اجتماع کو ملین مارچ کہنے میں کیا حرج ہے؟ جو لوگ ٹریفک میں پھنس گئے بھلے سے وہ جلوس والوں کو زیر لب ملاحیاں ہی سنا رہے ہوں جلوس کا بالواسطہ حصہ تو وہ بن ہی جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک نفری کتبے برداروں کا ’’جلوس‘‘ نکالنے کا رواج نہیں ورنہ ٹریفک کا یہ برا حال نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی سیاسی جماعتیں یہاں موجود ہیں جن میں ایک لیڈر کے بعد دوسرے کو خوردبین سے تلاش کرنا پڑتا ہے۔
بات ہم امیر جماعت اسلامی کی کر رہے تھے جنہوں نے فیصلہ صادر فرما دیا ہے کہ حکمران کشمیری شہداء سے غداری کر رہے ہیں، لیکن ہمیں ان حکمرانوں تک پہنچنے میں مشکل اس لئے پیش آ رہی ہے کہ اس سے ان کی مراد پاکستان کے موجودہ حکمران ہی ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو جماعت اسلامی انہی حکمرانوں کی جماعت کے ووٹوں سے آزاد کشمیر اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب نہ ہوتی، براہ راست انتخابات میں آزاد کشمیر جماعت اسلامی کو کوئی نشست حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ جماعت اسلامی نے ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کر رکھا تھا، ہمارا مخمصہ یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کشمیری شہداء سے غداری کر رہی ہوتی تو جماعت اسلامی اس کے ساتھ ہرگز اتحاد نہ کرتی، یہ بھی عین ممکن ہے کہ کوہالہ کے پل سے اس پار غداری کا پیمانہ کوئی اور ہو اور پل کے دوسری جانب غداری کسی دوسرے پیمانے سے ناپی جاتی ہو۔
جماعت اسلامی کی سیاست کچھ عرصے سے عجیب بو قلموں ہوگئی ہے۔ کے پی کے میں یہ جماعت تحریک انصاف کی حلیف ہے اور حکومت میں شریک ہے، لیکن اس صوبے میں جب بلدیاتی انتخاب ہونے لگتا ہے تو تحریک انصاف کے مقابلے میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ انتخاب میں اسے دھاندلی کی شکایت پیدا ہوتی ہے تو تحریک انصاف پر الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کرتی اور دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کی بات بھی کرتی ہے، پھر کراچی کے ضمنی الیکشن میں بھی تحریک انصاف کے مدمقابل اپنا امیدوار کھڑا کرکے ضمانت ضبط کرانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی، سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک حلقے میں تحریک انصاف کے ساتھ تو ملحقہ حلقے میں اسی تحریک انصاف کے مقابلے میں کھڑی ہوگئی۔
آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں مخصوص نشستوں پر عبدالرشید ترابی مسلم لیگ (ن) کی حمایت اور اس کے منتخب ارکان کے ووٹوں سے آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن بنے ہیں، اسی طرح ایک خاتون محترم بھی مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے اسمبلی میں پہنچی ہے۔ ایسے لگتا ہے دونوں جماعتوں کی یہ انڈر سٹینڈنگ صرف آزاد کشمیر تک ہے، آزاد کشمیر سے باہر نکلتے ہی مفاہمت کے اس غبار سے ہوا نکل جاتی ہے۔ اسی لئے تو پاکستان کے حکمران ’’کشمیری شہداء کے غدار‘‘ ٹھہرتے ہیں، حالانکہ آزاد کشمیر کا الیکشن انہی حکمرانوں کی جماعت نے جیتا ہے اور وہاں جماعت اسلامی انہی کی حلیف ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے آزاد کشمیر کا الیکشن لڑا، اس سے پہلے وہ ہمیشہ مسلم کانفرنس کو ہی مسلم لیگ کا دوسرا رخ تصور کرتی رہی، لیکن سردار عبدالقیوم کے انتقال کے بعد سیاست کا رخ بدل گیا ہے۔ مسلم کانفرنس کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو کشمیر کی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہئے لیکن جب باقی جماعتیں حصہ لیتی ہیں تو پھر یہ مسلم لیگ (ن) کے لئے ممنوعہ علاقہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ (ن) نے اب کی بار آزاد کشمیر کا الیکشن لڑا اور جیتا۔ اب یہ جیتنے والی جماعت کا فرض ہے کہ وہ خود کو کشمیر کی نمائندگی کا اہل ثابت کرے۔
واہگہ اور مناواں