ہزاروں خواہشیں ایسی؟ کوئی ہے جو ایک دیرینہ خواہش پوری کردے

ہزاروں خواہشیں ایسی؟ کوئی ہے جو ایک دیرینہ خواہش پوری کردے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:چودھری خادم حسین

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے یہ تو درست ہے لیکن اصل میں تو تمام امور اور معاملات قدرت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور اکثر انسان کسی خواہش کی تکمیل کے بعد بھی اسے سنبھال نہیں سکتا۔ یوں بھی جب نمبر ون بننے کی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو تو پھر دل کا کیا حال ہوتا ہے یہ وہی جانتا ہے جس کے ساتھ بیت جاتی ہے۔ ہمارے محترم ڈاکٹر طاہر القادری بھی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی خواہشات تو ہیں اور ان میں بعض پوری بھی ہو گئیں لیکن ایک خلش اب بھی ہے۔ اور پھر رہی ہوا جب دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا۔ محترم دھرنا ختم کر کے اپنے ’’وطن‘‘ کینیڈا روانہ ہو گئے تھے کہ تب بھی ایسا چانس نہیں بنا کہ ان کو نمبر ون مان لیا جاتا کہ سامنے عمران خان تھے جو خود نمبر ون ہیں۔ حالانکہ جب قبلہ گاہی اپنے کنٹینر سے ’’ان‘‘ کے کنٹینر پر گئے تو زبردست معانقہ ہوا تھا اور عمران خان نے اپنے پرستاروں کی طرف متوجہ کر کے محترم کو باور کرایا کہ دیکھ لیں زیادہ ہیں۔ بہر حال دھرنا پہلے عوامی تحریک ہی کا ختم ہوا اور حال ہی میں ڈاکٹر قادری نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا مشورہ انہوں (ڈاکٹر) نے ہی دیا تھا۔ بہر حال یہ موقع ٹل گیا وہ خود ہی باہر چلے گئے اور اب پھر اپنے ’’آبائی وطن‘‘ آئے تو 17 جون کے سانحہ کی سالگرہ کے حوالے سے تشریف لائے۔ اس مرحلے پر انہوں نے 17 جون کے سانحہ میں کام آ جانے والوں کے لئے قصاص کا مطالبہ کر دیا اور کہا کہ قصاص سے کم کوئی فیصلہ قبول نہ ہوگا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی عدم موجودگی میں پانامالیکس کا مسئلہ سامنے آیا تو انہوں نے بیرون ملک سے احتساب کے حق میں بیانات دیئے اور وزیر اعظم کے استعفےٰ کے مطالبے کی حمایت کی۔ 17 جون کے بعد وہ ملاقاتیں بھی کرتے رہے اور بالآخر عمران خان کی طرف سے ان کو متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت کی دعوت مل گئی۔ جواب بڑا پرجوش تھا سیکریٹری جنرل کی قیادت میں سہ رکنی وفد ترتیب دے دیا گیا جس نے 19 جولائی کی میٹنگ میں شرکت کرنا تھی۔ اس سے قبل کہ یہ میٹنگ ہوتی اور اس میں اگلی میٹنگ کے مقام اور تاریخ کا اعلان ہو جاتا کمال ہنر مندی سے محترم قادری صاحب نے 31 جولائی کے لئے اگلی میٹنگ کی دعوت دے دی کہ یہ میٹنگ ان کی تنظیم کے مرکزی سیکریٹریٹ لاہور میں ہو جس کے میزبان وہ خود ہوں گے۔ یہ حکمت عملی تھی اور ایک پرانی خلش کو دور اور خواہش کو مکمل کرنے کے لئے تھی اس کا ذکر ہم انہی سطور میں کر چکے ہوئے ہیں کہ کس طرح محترم نے بزرگ سیاسی راہنماء بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ کا کندھا استعمال کیا اور نہ صرف محترمہ بے نظیر بھٹو کی موجودگی میں اجلاس کی صدارت کی بلکہ نئے اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کے پہلے صدر بھی بن گئے۔ یوں نمبر ون تو ہوئے پھر نہ معلوم وجوہ کی بناء پر خود ہی یہ صدارت چھوڑ دی اور بیرون ملک چلے گئے تحفہ نوابزادہ نصراللہ کو دیا شاید محترمہ بے نظیر بھٹو کا رویہ کھٹک گیا تھا کہ انہوں نے طوعاً کرعاً نوابزادہ نصراللہ کے احترام میں خاموشی اختیار کی تھی۔
اس بار بھی ’’جذبہ صادق‘‘ تھا اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری دعوت دے کر پھر لندن چلے گئے کہ پہلے سے طے شدہ پروگرام ہیں۔ شاید یہ اس لئے کہ کوئی اعتراض نہ آئے۔ لیکن وہ دوسروں کو سمجھنے میں مغالطہ کھا گئے۔ چنانچہ 31 جولائی تک ان کی غلط فہمی دور ہو گئی کہ بڑوں نے بڑا بنانے کے لئے اس میٹنگ میں شرکت سے گریز کیا اور اپنی سیکنڈ لائن کو بھیج دیا۔ عمران خان نے اسی روز بنی گالا میں اپنی جماعت کا اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا۔ سید خورشید شاہ قومی اسمبلی اور سندھ کی تبدیلی میں مصروف ہو گئے جبکہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی بھی خود نہ آئے۔ ان کی طرف سے بھی سیکنڈ لائن راہنماؤں نے ہی شرکت کی پیپلزپارٹی کی طرف سے سردار لطیف کھوسہ، میاں منظور وٹو، مسلم لیگ (ق) کی طرف سے راجہ بشارت۔ چودھری ظہیر الدین، کامل علی آغا اور طارق بشیر چیمہ، تحریک انصاف کی طرف سے میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال اور مراد راس نے شرکت کی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے نوابزادہ نصراللہ کی پیروی میں متحدہ اپوزیشن کو توسیع بھی دے دی عوامی مسیحا پارٹی کو مدعو کیا جے سالک آگئے۔ ایم کیو ایم سے منیر احمد تشریف لائے۔ مجلس وحدت المسلمین کے ناصر شیرازی تھے۔ عوام لیگ کے ریاض فتیانہ بھی آ گئے تھے جمعیت علماء پاکستان کے دو گروپوں نیازی اور ابوالخیر کے نمائندے آئے تو سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا نے بھی شرکت کی۔ جماعت اسلامی کی نمائندگی حافظ ساجد انور اور مولانا محمد عنایت نے کی تھی۔ بتایا گیا کہ پاک سرزمین پارٹی، سندھ ترقی پسند جماعت اور اے این پی کے نمائندے بھی تھے ایسے تھے جن کو کوئی نہیں جانتا۔
بہر حال یہ اجلاس ہوا، بعد ازاں ڈاکٹر طاہر القادری خوب گرجے، برسے اور بڑا دعویٰ کیا وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ اسلام آباد چھوڑ کر رائے ونڈ میں رہیں کہ یہاں سے ان کو واپس ’’جاتی عمرہ‘‘ میں پناہ حاصل کرنا پڑے گی ان کا جوش قابل دید تھا وہ اس وقت تو نمبر ون تھے اگرچہ خواہش تجربہ کار سیانوں نے نہ آ کر پوری نہ ہونے دی اب یہ متحدہ اپوزیشن کا مشاورتی اجلاس کہلایا۔
یہاں فیصلہ کرتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی اور 6 اگست سے اپنی تحریک کے آغاز کا اعلان کیا حالانکہ اطلاع مل گئی تھی کہ عمران خان 7 اگست سے اپنی ریلیوں کا آغاز کرنے والے ہیں۔ ابتدا میں تو یہی کہا گیا تھا کہ 19 جولائی اور پھر 31 جولائی کے اجلاس متحدہ اپوزیشن کے اتفاق رائے کے فیصلے والے ہوں گے لیکن اے این پی آفتاب شیرپاؤ کی وطن پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی پہلے ہی تحریک کی بجائے پارلیمینٹ میں جدوجہد کا اعلان کر چکے تھے۔ یوں اب یہ دو جماعتیں ہیں جو اپنے اپنے پروگرام کے مطابق ایجی ٹیشن کرنے جا رہی ہیں۔ ان میں نمبر ون کون؟ شاید اس کے لئے یہ تحریک مشترکہ نہ ہو پائے اگرچہ مشورہ یہ دیا گیا کہ کام اکٹھا کر لو، قیادت کا بوجھ باری باری اٹھا لینا۔ شاید یہ اب عمران خان کو منظور نہ ہو۔ کہ وہ ابھی سے وزیر اعظم کے امیدوار ہیں۔
ہم آج اس صورت حال پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے احوال بتائے، نتیجہ قارئین خود اخذ کریں گے۔ ویسے کیا حرج ہے کہ ایک بار پھر خواہش پوری ہو کہ محترم بے چین روح ہیں۔ زیادہ دیر خود ہی نہیں رہیں گے۔
دیرینہ خواہش

مزید :

تجزیہ -